حضرت شیخ محمد عیسیٰ جونپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ جونپور کے بڑے اولیاء اللہ میں سے تھے۔ ان لوگوں میں سے تھے جو اللہ کی راہ پر صدق دل سے چلتے ہیں آپ صاحب مقامات عالیہ اور احوال مفیدہ تھے۔ آپ کی ولایت اور عظمت و کرامت پر سب کا اتفاق ہے۔ آپ شیخ فتح اللہ اودھی کے مرید تھے۔ آپ کے والد بزرگوار شیخ احمد عیسیٰ دہلی کے باعزت لوگوں میں سے تھے۔ امیر تیمور جب دہلی آیا تو اکثر بڑے بڑے لوگ جونپور چلے گئے تھے۔ انہی لوگوں میں شیخ احمد عیسیٰ بھی شامل تھے۔ جس وقت دہلی میں فسادات شروع ہوئے اور شیخ محمد عیسیٰ کے والد جونپور کی طرف روانہ ہوئے اس وقت آپ کی عمر سات آٹھ برس کے لگ بھگ تھی۔ آپ بچپن ہی کے سعادت ازلی اور طبعی استعداد کی وجہ سے شیخ فتح اللہ کے مرید ہوگئے اور شیخ کے ارشاد پر ہی آپ نے ایک دراز مدت تک ملک العلماء قاضی شہاب الدین سے علوم نقلیہ اور عقلیہ کی تعلیم حاصل کی۔
قاضی صاحب نے اصول بزد دی کی شرح بحث امر تک لکھی تھی۔ آپ نے اس کے مطابق اس کی تکمیل کردی تھی۔ علوم ظاہری سے فراغت حاصل کرنے کے بعد پھر تذکیہ قلب کے لیے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور باطنی علوم کو مکمل طور پر حاصل کیا اور باطن کی صفائی میں اس قدر منہمک ہوگئے کہ ظاہر سے یکسر بے خبر ہوگئے۔ مشہور ہے کہ اتفاق سے آپ کے کمرے میں سامنے ایک درخت خود بخود پیدا ہوا اور خوب بڑھا مگر آپ کو مدت دراز تک اس درخت کی خبر نہ ہوئی چنانچہ ایک دن جس جگہ پر آپ بیٹھے تھے اس درخت کے چند پتے گرے تو لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ پتے کہاں سے آئے ہیں؟ پھر لوگوں نے تمام کیفیت سے آگاہ کیا تب جاکر آپ کو خبر ہوئی کہ یہ پتے اس درخت کے ہیں جو اس مکان کے دروازے پرہی اگا اور بڑھا ہے۔
آپ ہمیشہ مراقبہ میں رہا کرتے تھے۔ جسم کی تمام ہڈیاں اُبھر آئی تھیں اسی طرح سینہ اور ٹھوڑی بھی اندر کو گھس گئے تھے۔ آپ کا مزار جونپور میں ہے۔
میں عِشق میں یوں گم ہوجاؤں ہرگز نہ پتہ اپنا پاؤں (آمین)
(اخبار الاخیار)
آپ شیخ فتح اللہ جونپوری کے خلیفہ اعظم تھے شیخ احمد عیسیٰ آپ کے والد ماجد دہلی کے معروف افراد میں سے تھے۔ تیمور بادشاہ کے حملہ کے وقت یہ لوگ دہلی چھوڑ کر جونپور چلے گئے اور وہاں ہی رہنے لگے۔ شیخ محمد عیسیٰ ابھی بچے ہی تھے کہ شیخ ابو الفتح کی مجلس میں حاضری دیا کرتے تھے اس طرح آپ کو فقراء اور درویشوں سے محبت ہوگئی حضرت شیخ ابو الفتح کی خدمت میں حاضر ہوکر مرید ہوئے ملک العلماء قاضی شہاب الدین سے ظاہری علوم حاصل کیے۔
اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ شیخ محمد عیسیٰ کو عبادت اللہ میں اس قدر استغراق تھا کہ آپ کی نشست گاہ کے پاس ایک درخت اگا وہ بڑا ہوتا گیا حتیٰ کہ آپ نے ایک دن اپنی نشست پر کچھ پتے گرے پائے پوچھا کہ یہ پتے کہاں سے آگئے لوگوں نے بتایا آپ کے سر پر ایک درخت بلند ہوگیا ہے اس دن سے آپ کو پتہ چلا کہ یہ درخت ایک عرصہ سے آپ کی نشست گاہ پراگ ہے آپ ہمیشہ مراقبہ میں رہتے آپ کی گردن کی ہڈیاں اُبھر آئی تھیں اور آپ کی ٹھوڑی سینے کو لگتی تھی۔
آپ کا وصال ۹۱۱ھ کو ہوا مزار مبارک جونپور میں ہے۔
براوج چرغ مسکن یافت آخر
چو عیسیٰ آں ولی عیسیٰ ثانی
خرد فرمود سال ارتحالش
میحادم ز کی عیسیٰ ثانی
۹۱۱ھ