حضرت شیخ محمد یمنی علیہ الرحمۃ
شیخ نجیب الدین برغش علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں چند اصحاب کی جماعت کے ساتھ شیخ شہاب الدین علیہ الرحمۃ کی خدمت میں کھڑا تھا۔شیخ نے فرمایا کہ یاروں میں سے کوئی خانقاہ سے باہر جائے۔ایک مسافر شخص کو جو باہر پائے"اس کو اندر لائے۔کیونکہ محبت کی بو میرے دماغ میں آتی ہے۔ایک بار باہر گیا تو وہاں پر کسی کو نہ پایا۔واپس آیاکہ میں نے تو وہاں کسی کو نہیں پایا۔شیخ نے غصہ سے فرمایا کہ دوبارہ جا کہ تجھ کو مل جائے گا۔دوبارہ گیا۔ایک حبشیدیکھا۔جس پر مسافرت اور غربت کے آثار تھے۔اس کو اندر لایا۔اس نے ارادہ کیا کہ جوتیوں کی جگہ پر بیٹھ جائے۔شیخ نے کہا"اے شیخ محمد نزدیک آکہ تم سے محبت کی خوشبو آتی ہے۔وہ آگےبڑھا اور شیخ کے پہلو میں بیٹھ گیا۔شیخ اور اس نے آپس میں بھید کی باتیں کیں۔پھر اس حبشی نے شیخ کی ران پر بوسہ دیا۔شیخ نے فرمایا کہ دسترخوان لاؤ۔کچھ کھاناکھایا۔میں روزہ دار تھا۔شیخ نے فرمایا"جو شخص روزہ دار ہے"وہ اپنے حال پر رہے۔اس دسترخوان پر انار تھے۔شیخ انارکھاتے تھے اور اس کے دانہ منہ سے نکال کر اپنے سامنے رکھتے تھے۔میرے دل میں گزرا کہ میں وہ دانہ اٹھالوں۔کیونکہ شیخ کی منہ کی برکت ان تک پہنچی ہے۔میں اس سے افطار کروں گا۔جب یہ بات میرے دل پر گزری تو اس حبشی نے ہاتھ بڑھایا اور ان کو لے کر کھالیا اور میری طرف دیکھ کر ہنس پڑا۔میں نے جانا کہ میری دل کی بات کو اس نے معلوم کرلیا ہے۔جب دسترخوان اٹھایا گیا تو شیخ نے کہا"شیخ محمد حافظ قرآن ہے"لیکن کچھ عرصہ ہوا ہے کہ تنہا پڑھتارہا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ کوئی حافظ اس کے سامنے ہر روز کچھ قرآن پڑھا کرے۔شیخ کے مریدوں میں جو حافظ تھا"اس نے جب شیخ کی عنایت اس کے حال پردیکھی تو سب نے اس بات کی خواہش کی۔میرے دل میں یہ بھی گزرا"لیکن میں اپنی زبان پر نہ لایااور شیخ کے اختیار کے حوالہ کردیا۔شیخ نے اس کو میرے حوالہ کیا اور کہا"شیخ محمد تو ہر روز علی شیرازیکے پاس جایا کرواور دوپارہ اس کو سنایا کرو۔جب رات پڑی تو شیخ عیسٰی جو شیخ کا خادم تھا۔آیا اورانار لایا اور کچھ دانےاس میں سےکھائے ہوئے تھے۔مجھ کو دیا اور کہا کہ شیخ نے اس میں سے کچھ کھایا ہوا ہے اور باقی تم کو بھیجا ہے کہ اس سے تم افطار کرو اور شیخ نے فرمایا ہے کہ تمہیں کہہ دوں کہ اس انار کے پس خوردہ کے عوض میں ہے"جو شیخ محمد نےکھالیے تھے۔پھر میں نے اسی سے افطار کیا۔جب ہم نے صبح کی نماز پڑھی اور میں اپنے گھر میں گیا تو وہ حبشی آیا اورسلام کہا۔میں نے جواب دیا۔بیٹھا اور کچھ نہ کہا۔میں نےبھی کچھ نہ کہا۔کیونکہ اس کے چہرہ پر ایک ہیبت تھی۔ایک پہلا پارہ قرآن شریف پڑھا اور جلد اٹھ کر اپنے گھر میں چلا گیا۔دوسرے دن بھی ایسا ہی کیا۔تیسرے دن جب اپنا و ظیفہ پڑھا تو کھڑاہوگیا اور کہا کہ میرے اور آپ کے درمیان استادی شاگردی کا حق ہوگیا۔میں یمنی ہوں اور شیراز نہیںدیکھا۔مجھ کو شیراز کے مشائخ کی تعریف سناؤ۔میں نے شروع کیا اور اس زمانہ میں جس قدس مشائخ شیراز میں تھے۔سب کا نام لینا شروع کیا۔جب میں سب کانام لے چکا تو کہا کہ زاہدوں اور گوشہ نشینوں کا نام بھی لے میں نے بیان کیا جب میں باتیں کر چکا تو اس کے ہوش جاتے رہے۔چنانچہ میں ڈرگیا کہ شاید مرگیاہے۔کیونکہ اس کا سانس منقطع ہوگیا تھا۔ایک عرصہ تک اسی حال پر تھا۔اس کے بعد ہوش میں آیا اور کہا کہ میں گیاہوں اور میں نے سب کو دیکھا۔اب توہر ایک کے نام بتاؤ۔تاکہ میں ان کا حال بتاؤں۔میں نے ہر ایک کا نام بتانا شروع کیا اور وہ ان کی ایسی تعریف بیان کرتا تھاکہ ان کا سلوک"ان کا حال"ان کا لباس اس قسم کا ہے۔گویا اس کے برابر بیٹھےتھے اور وہ ان کو دیکھتاتھا۔میں نے تعجب کیا۔پھر آخر میں کہا"ان میں سے ایک شخص جن کو ہم نے یاد کیا ہےکہ اس کو حسین فلان کہتے ہیں"وہ ولایتکے مرتبہ سے گر گیاہے"اس کا نام اولیاء کے درجہ میں گرادیا گیا۔میں نے کہا"اس کا سبب کیا تھا؟کہا"بادشاہ شیراز اتابک ابو بکر کو اس سے عقیدت ہوگئی۔اس کے پاس جایا کرتا تھااورر اس کو مال و نعمت دی۔اس سبب سے خدا کی نظر سے گر گیا۔پھر میں نے اس کی بات کو یاد رکھا۔جب میں شیراز میں آیا تو ایسا ہی ہوا"جیسا کہ اس نے کہا تھا۔پھرگیا کہ ان زاہدوں میں سے جن کا تم نے نام لیا ہے"ایک زاہد نے تم کو نشانی دی ہوئی ہے۔جو تمہارے پاس ہے"اس کو بیان کرو۔تاکہ میں اس کو دیکھوں۔میں نے ہر چند سوچا"مگرمیرے دل میں نہ آیا۔اس نے میری جوتی کو دیکھ کر کہا"یہ کیا ہے؟مجھ کو یاد آیا کہ شیراز میں ایک زاہد تھا"جو جوتی سیا کرتا تھا۔جب میں سفر کو باہر آنے لگا۔اس نے مجھے وہ جوتیاں تبرک دیں اور کہا"یہ ایک نشانی ہے کہ مجھ کو دعا خیر سے یاد کرنا۔مجھے اس کی صحبت سے کیا کیا راحتیں اور خوشیاں پہنچی تھیں۔پھر اس نے شیخ کی خدمت سے خرقہ پہنااور شیخ نے اس کو خرقہ پہننے کی اجازت دی۔تب وہ اپنی ولایت کو واپس چلاگیا اوروہاں مشہور ہوگیا اوربہت اے لوگ ان کے مرید ہوگئے۔
(نفحاتُ الاُنس)