حضرت شیخ ابو سعید کے تیسرے خلیفہ حضرت شیخ محب اللہ صدیقی صدر پوری تھے۔ جنکا شمار اکابر خلفاء میں ہوتا ہے۔ صاحب مراۃ الاسرار لکھتےہیں کہ جب حضرت شیخ محب اللہ قدس سرہٗ علوم عقلی ونقلی سے فارغ ہوئے تو آپکے دل میں طلب حق کا درد پیدا ہوا چنانچہ آپ نے وقت کے اکثر بزرگوں سے ملاقات کی لیکن تشفی نہ ہوئی۔ اسکے بعد آپ نے دہلی جاکر حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہٗ کےآستانہ پراستخارہ کیا۔ وہاں سے فرمان ہوا کہ اس وقت شیخ علی صابر قدس سرہٗ کا سلسلہ خوب رونق میں ہے اور شیخ ابو سعید گنگوہی کے پاس جاؤ چنانچہ آپ نے حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف بیعت حاصل کیا۔ اسکے بعد حضرت اقدس نےاپنے خادم خاص مجاہد نام کو حکم دیا کہ وضو کر کے دوگانہ ادا کرو اور دیکھو کہ شیخ محب اللہ کی استعداد کس نبیکی ولایت سے مناسبت دوگانہ ادا کرو اور دیکھو کہ شیخ محب اللہ کی استعداد کس نبی کی ولاتی سے مناسبت رکھتی ہے تاکہ اُسی مناسبت کے مطابق انکی تربیت کی جائے۔ جب اس محرم راز خادم نے خلوت میں جاکر توجہ کی تو معلوم ہوا کہانکی استعداد ولایت موسوی سے مناسبت رکھتی ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ ابو سعید نے انکو شغل نفی واثبات[1] اور اسم ذات[2] برزخ شیخ[3] میں کام کرنے کا امر فرمایا۔ اور اربعین (چلہ) میں بٹھادیا۔ اُس خلوت میں آپکو اس قدر تصفیہ حاصل ہوا کہ علوم باطنی آپ پر اچھی طرح واضح ہونے لگے۔ اور تجلیات ملکوتیہ وجبروتیہ سے بہرہ ور ہوئے۔ لیکن ت جلی ذات بے کیف اس خلوت میں میسر نہ ہوئی حالانکہ آپ اس تجلی کے بے حد خواہاں تھے۔ جب چلہ سے نکل کر آپ نے تمام واقعات حضرت شیخ کی خدمت میں عرض کیے تو آپ نے انکو خرقۂ خلافت دینے کا ارادہ کیا شیخ محب اللہ کے دل میں خیال آیا کہ ابھی تک مجھے شہود ذات بے کیف حاصل نہیں ہوا میرے شیخ مجھے کس طرح خلافت کےلائق سمجھ رہےہیں۔ کیونکہ وہ سالکین جو عالم ملکوت اور عالم جبروت کی تجلیات میں ہیں خلافت کے قابل نہیں ہوئی میں اسی کا طالب ہوں جسے شہود ولاکیف کہتے ہیں۔
اقسام خلافت
مخفی نہ رہے کہ خلافت مشائخ جو اس وقت مروج ہے ساتھ اقسام پر ہے۔ پہلی خلافت اصالۃً، دوسری خلافت اجازت، تیسری خلافت احجاعاً، چوتھی خلافت وراثتہً، پانچویں حکماً، چھٹی تکلیفاً، ساتویں اویسیہ
خلافت اصالت
خلافت اصالۃً یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے حکم سے کوئی بزرگ کسی شخص کو اپنا خلیفہ وجانشین مقرر کرے۔ چنانچہ صاحب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں جب حضرت شیخ فرید الدین گنجشکر قدس سرہٗ نے ا اپنے کسی مرید کو خلافت دیکر ہندوستان کا صاحب ولایت مقرر کرنے کا ارادہ کیا تو آپ کو غیب سے آواز آئی کہ نظام الدین بدایونی آرہے ہیں خلافت کے قابل وہی ہیں۔ جب حضرت شیخ نظام الدین تشریف لائے تو حکمِ ربی سے آپ نے انکو خلافت عطا فرمائی۔ اور ولایت ہندوستان کا صاحب ولایت مقرر فرمایا چنانچہ حضرت خواجہ گنجشکر اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بظاہر بابا نظام الدین کو میں نے خلیفہ بنایا ہے لیکن در حقیقت وہ حق تعالیٰ کا خلیفہ ہے۔ اور محمد مصطفیٰﷺ کا نائب ہے۔ اس قسم کی خلافت کو صوفیائے کرام خلافت الٰہی بھی کہتے ہیں۔
خلافت اجازت
خلافت اجازت یہ ہے کہ حضرت شیخ اپنے کسی مرید کو خواہ وہ وارث ہو یا بیگانہ خلافت کے قابل سمجھ کر اپنی رضا ورغبت سے خلیفہ مقرر کریں۔ جیسا کہ تمام مشائخ عظام کا دستور ہے اس قسم کی خلافت کو خلافر رضائی بھی کہتے ہیں۔
خلافت اجماعی
خلافت اجماعی یہ ہے کہ حضرت شیخ کسی کو خلیفہ مقرر کیے بغیر کر جائیں اور قوم یا قبیلہ کےلوگ اتفاق رائے سے کسی کو خلیفہ مقرر کردیں۔ جیسا کہ عام رسم ہے۔ لیکن مشائخ کےنزدیک اس قسم کی خلافت جائز نہیں ہے۔ اس قسم کی خلافت کو خلافت افزائی بھی کہتے ہیں۔
خلافتِ وراثت
خلافت وراثت یہ ہے کہ مرشد کسی شخص کو خلیفہ مقرر کیے بغیر اس جہان سے جائیں اورانکا کوئی وارث اپنے آپ کو خلیفہ کہلانا شروع کردے۔ مشائخ عظام نے اس قسم کی خلافت کو قبول نہیں فرمایا۔ ہاں اگر کوئی بزرگ اپنی زندگی میں کسی کو باطنی طور پر اشارہ کردے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ صوفیاء کرام کے نزدیک باطنی حکم صحیح ہے۔
خلافت حکمی
خلافت حکمی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بزرگ خلیفہ مقرر کیے بغیر رحلت کر جائ یں اور انکے ورثاء کے دریان اختلاف شروع ہوجائے اور حکومت کسی شخص کو موزوں سمجھ کر مسندِ خلافت پر بٹھادے اس قسم کی خلافت کو اَطِیْعُو اللہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْل وَاُولِی الْاَمْرُ مِنْکُمْ (اللہ کی اطاعت کرو رسول اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے حاکم وقت کی اطاعت کرو) کے مطابق جائز معلوم ہوتی ہے۔
خلافت تکلیف
خلافت تکلیف یہ ہے کہ کوئی مرید زبردستی یا کسی کی سفارش سے کوشش کر کے خلافت حاصل کرلے یہ خلافت جائز نہیں ہے اور اس سے کوی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
خلافت اویسی
خلافت اویسی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی بزرگ سے جو اس جہانِ رحلت کر گئے ہوں باطنی تربیت حاصل کر کے۔ اس خلافت کو حاصل مشائخ متقدمین نے روارکھا ہے اور ان میں سے اکثر ایوسی تھے۔ جنکا ذکر اس کتاب میں نہیں آسکتا۔ لیکن مشائخ متاخرین کےنزدیک اس قسم کی خ لافت جائز نہیں ہے کیونکہ جب تک کسی زندہ اور صاحب کمال بزرگ سے خلافت نہ ملے سلسلۂ مشائخ اس سے جاری نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ سر حلقۂ محبوبان حضرت سید ابو محمد محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ کے احوال میں بیان ہوچکا ہے۔
خلافت کونسا مقام طے کرنے کے بعد مل سکتی ہے
محققین کا کہنا ہے کہ جب سالک مقام فنافی الرسول اور عالم جبروت تک پہنچ جاتا ہے شیخ کیلئے جائز ہے کہ اُسے خلافت عطا فرمائے۔ لیکن اس مقام پر خلافت کا عطا کرنا واجب نہیں ہے ہاں جب سالک کی رسائی شہود ذات تک ہوجائے تو شیخ پر واجب نہیں ہے بلکہ فرض عین ہے کہ اُسے خلافت دیدے۔ بعض حضرات تو اس شخص کو بھی خلافت دینا جائز سمجھتے ہیں جو عالم ملکوت تک پہنچ جائے لیکن ہمارے مشائخ عظام کا یہ دستور نہیں ہے۔ جیسا کہ منقول ہے کہ جب ایک درویش نے جو واصلِ ملکوت تھے حضرت شیخ داؤد گنگوہی سے خرقۂ خلافت کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ تم ابھی مشائخ عظام کی خلافت کے قابل نہیں ہوا۔ اس سے وہ حضرات اقدس سے رنجیدہ خاطر ہوکر چلا گیا آپ نے فرمایا رنجیدہ ہو یا خوش ہو میں تجھے خلافتِ مشائخ نہیں دوں گا۔
بعض کہتے ہیں کہ جب مرید خطرۂ شیطانی اور رحمانی کے درمیان تمیز کر سکے تو پیر کیلئے لازم ہے کہ اُسے خلافت دیدے۔ بعض کہتے ہیں کہ جب حق تعالی خی جناب سے یا حضرت رسالت پناہﷺ کی طرف سے کسی مرید کو خلافت دینے کا حکم ملتے تو شیخ پر واجب ہے کہ اُسے خلافت دیدے بعض کہتے ہیں کہ جب پیر مرید کے اندر معاملۂ نیکو دیکھے تو اُسے خلافت دینا جائزہے۔
خلافت کی دو اور قسمیں
مشائخ فرماتے ہیں کہ خلافت کی دو مزید اقسام ہیں اول خلافت مستقل، دوم خلافت نیابت۔
خلافتِ مستقل
خلافت مستقل یہ ہے کہ شیخ اپنے مرید کو متقل طور پر خلافت عطا کریں اور وہ خلیفہ اپنے نام پر لوگوں کو مرید بنائے اپنی طرف سے شجرہ عطا کرے اور شجرہ میں اپنا نام لکھ دے۔ اس قسم کی خلافت کو خلافت مطلقہ بھی کہتے ہیں۔
خلافت نیابت
نیابتی خلافت یہ ہے کہ شیخ اپنے کسی مرید کو حکم دے کہ لوگوں کومیری طرف سے اور میرے نام پرمرید بناؤ اور شجرہ شریف بھی لوگوں کو میری طرف سے دو اوراپنا نام شجرہ میں نہ لکھو۔ اسی حالت میں اس شخص کے مرید در اصل حضرت شیخ کے مرید ہوتے ہیں اور وہ سوائے سفری کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ بخلافت مستقل خلافت کے کہ جب وہ اپنی طرف سے لوگوں کو بیعت کرتا ہے اور اپنا مرید بناتا ہے۔
خلافت کی مزید دو اقسام
بعض مشائخ کےنزدیک خلافت دو اقسام پر ہے اول خلافت سغریٰ، دوم خلافت کبریٰ
خلافت صغریٰ
خلافت صغریٰ یہ ہے کہ حضرت شیخ کسی مرید کی ریاضت و مجاہدہ دیکھ کر بطریق حسن ظن اسے خلافت عطا کردیں۔
خلافت کبریٰ
خلافت کبریٰ یہ ہے کہ شیخ کہ دل پر کئی بار حضرت حق کی طرف سے الہام ہو کہ فلاں مرید کو خلافت عطا کردو۔ حتیٰ کہ اگر یہ خیال بھول بھی جائے لیکن پوری طرح دل سے نہیں نکلتا یہ خلافت کبریٰ ہے کہ جس کے لیے شیخ کو براہ راست حق تعالیٰ سے حکم لتا ہے۔ اہلِ تحقیق کے نزدیک خلافت صغریٰ یہ ہے کہ شیخ کسی مرید کو جامۂ خلافت عطا کرے اور کسی علاقے میں ہدایت و ارشاد خلق کیلئے اور سجادگی بھی کہتے ہیں یہ ہے کہ شیخ کسی مرید کو وہ نسبت جو رسول اللہﷺ سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے بالکلیہ عطا فرمائے اور خلافت نامہ بمع تمام تبرکات کے جو مشائخ عظام سے تواتر کے ساتھ آرہے ہیں عطا کرے اور اپنا قائم مقام اور وارث احوال مقرر کرے۔ جیسا کہ حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری نے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کو اور آپ نے ح ضرت خواجہ گنجشکر کو اور آپ نے حضرت سلطان المشائخ بدایونی اور آپ نے حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی کو قدس اسرارہم اپنا قائم مقام، وارث احوال مقرر فرمایا۔ جب شیخ کامل و مکمل چاہتے ہیں کہ کسی مرید کو خرقۂ خلافت عطا فرمادیں تو آنحضرتﷺ اور دیگر مشائخ کی روحانیت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اگر اشارہ ملتا ہے تو خرقہ عطا کرتے ہیں۔
طریق عطائےخلافت
خلافت عطا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے غسل اور وضو کرایا جاتا ہے اسکے بعد دو رکعت نماز نفل پڑھاکر یہ پانچ کلمات بمع معی، تلقین کیےج اتے ہیں اول کلمہ توحید، دوم کلمہ شریعت، سوم کلمۂ طریقت چہارم کلمۂ حقیقت اور پنجم کلمۂ معرفت۔ کلمۃ توحید لا الہ اللہ ہے کلمہ شریعت لا معبود الا اللہ ہے، کلمۂ طریقت لا مقصود الا للہ، کلمۂ حقیقت لا محبوب الا اللہ اور کلمۂ معرفت لا موجود اللہ ہے۔ اسکے بعد خرقۂ خلافت پہنا کرمثال یعنی خلافت برائے نامہ لکھ کر دیا جاتا ہے۔ لیکن خلافت نامہ اس وقت دیا جاتا ہے جب خرقۂ خلافت برائے بیعت دنیا مطلوب ہو اگر خرقۂ تبرک و تشبہ دیا جائے تو مثال کی ضرورت نہیں ہے۔
چہار حروف خرقہ کا مطلب
رخصت کرتےوقت مرید کو لفظ خرقہ کے چار حروف کے معنی واضح کردیئے جاتے ہیں۔ خ کامطلب یہ ہے کہ خیانت نہ کرے، رسے مراد یہ ہے کہ ریاضت سے کام لے، قاف کا مطلب یہ ہےکہ قیام اور قناعت پر کار بند رہے۔ ہ کامطلب یہ ہے کہ ہوأ نفس پر قابو پائے۔ یہ ہے خلافتاور اس کے اقسام کا بیان جو قدرے طویل ہوگیا ہے۔
اس سے ظاہر ہے کہ شیخ کامل و مکمل مرید صادق کومرتبہ جبروت میں اجازت ارشاد وتبیت مریدین عطا فرمائیں تو جائز ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ نے حضرت شیخ محب اللہ کو اُسی مرتبہ یعنی جبروت میں اجازت فرمائی۔ لیکن حضرت شیخ محب اللہ کے دل میں خطرہ (وسواس) پیدا ہوا کہ مرید تو مقام لاہوت کے حصول کے بعد خلافت کے قابل ہوتا ہے اور میری اب تک وہاں رسائی نہیں ہوئی معلوم نہیں میرے شیخ نےمیرے اندر کیا دیکھا ہے کہ مجھے خلافت عطا فرمارہے ہیں۔ حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ روشن ضمیری سے اس خطرہ سے آگاہ ہوئے اور انکو خرقۂ خلافت پہناکر دعاکیلئے ہاتھ اٹھائے اور باطنی توجہ سے انکو نوازا۔ آپکے ہاتھ اٹھاتے ہی حضرت شیخ محب اللہ پر تجلئ کیف جلوہ گر ہوئی اور فوراً چلا اٹھے کہ یا حضرت بس کیجئے کہ میرے اندر اس مشاہدہ سے زیادہ استعداد اور حوصلہ نہیں ہے اسکے بعد حضرت شیخ ن ے آپکی صحت اور تمکین کیلئے توجہ فرمائی جس سے آپ مغلوب الحال نہ ہوئے۔ حضرت شاہ ابو سعید نے خرقۂ خلافت حاصل کر کے حضرت شیخ محب اللہ اپنے شہر صدر پور تشریف لے گئے۔ صدر پور اگر چہ آپکا آبائی وطن تھا لیکن آپ نے وہاں رہنا پسند نہ فرمایا اور کچھ عرصہ توکل و تجرید کی خاطر ردولی شریف گئے۔ صاحب مراۃ الاسرار لکھتےہیں کہ جب ح ضرت شیخ محب اللہ ردولی پہنچے تو یہ فقیر بھی وہاں موجود تھا۔ چنانچہ ہم دونوں کے درمیان فقر در دوستی کا سلسلہ قائم ہوگیا۔ اور گرم اور مصفا ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔نیز میں آپ کے اوصاف پسندیدہ سے بہت متاثر اور محفوظ ہوا چند ایام کے بعد آپ کو حضرت مخدوم احمد عبدالحق ردولوی قدس سرہٗ کی طرف سے نواز شات ہوئیں اور رخصت کی بشارت مل گئی۔ چنانچہ ہم دونوں ردولی شریف سے رخصت ہوکر آپ نے چند روزمیرے غریب خانہ پر قیام فرمایا۔ اس وقت حضرت شیخ محب اللہ آباد تشریف لے گئے اور اُسی جگہ اُن کے ہمراہ میر سید عبدالحکیم ساکن شہر نبہۃ بھی تھے جو اُن سے کسب فیض کرتے تے جب شیخ محب اللہ الٰہ آباد تشریف لے گئے اور اُسی جگہ سکونت اختیار کرلی تو وہاں آپکی بہت شہرت ہوئی۔ شروع میں اگر چہ فقر وفاقہ کا سامنا رہا لیکن آپ نے ہمت واستقلال سے کام لیا اور آخر کار کشائش رونما ہوئی۔ نیز حقائق ومعارف میں آپ کو پوری دسترس حاصل ہوگئی جس سے آپکا کلام بے حد مؤثر ثابت ہوا اور اکثر علماء ظاہر جو اہل توحید کے منکر تھے آپکے فیض صحبت سے راہِ راست پر آگے اورمشرب طریقت اختیارکرلیا۔ آپ کےکمالات کا صحیح اندازہ آپکی تصانیف مثلِ اسولہ واجوبہ سے ہوسکتا ہے۔ یہ اُن سوالات اور جوابات کامجموعہ ہے جو ایک درویش کامل اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت داراشکوہ ابن محمد شاہجہان بادشاہ نے آپ سے پوچھے تھے اور جن کے جوابات آپ نے دیئے۔ وہ سوالات وجوابات یہ ہیں۔
کتاب اسولہ واجوبہ یعنی سوالات وجوابات
پہلا سوال
بدایت کا رکا ہے (یعنی کام کی ابتدا کیا ہے) اور انتہا کیا ہے ۔
جواب
اگر چہ من حیث السلوک کام کی ابتدا سیرالیٰ اللہ[4] اور انتہا سیرفی اللہ[5] ہے جسکی شرح محتاج بیان نہیں۔ تاہم صوفیاء کرام کے نزدیک حضرت حق تعالی کے وجود کے ظہور کےمراتب ایک دائرہ کی صورت میں واقع ہوئے ہیں اور نقطۂ احدیت جو دائرہ کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھ ی ہے بدایت کار (آغاز) سے نہایت کار (انتہا) میں مبدل ہوجاتا ہے۔ اور نقطۂ احدیت سے نقطۂ جامع انسانیہ جو اسکے بالمقابل ہے دائرہ کیایک قوس بنتی ہے جسکا نام قوس نزولی ہے اور دوسری نصف قوس نقطۂ جامع انسانیہ سے احدیت تک ہے جسے قوس عروجی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ دونوں قوسوں کے ملنے سے دائرہ وجود میں آتا ہے۔
نقشہ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ھو الاول والآخر والظاھر والباطن سے یہ مراد ہے۔ کہ
از مترجم: مندرجہ بالابیان کےمطابق سلوک اللہ کا سامنے والا خاکہ بن جاتا ہے۔
نقطۂ الف سے مراد ذات احدیت ہے۔ نقطۂ ب سےمراد مقام انسان ہے جب عبادات وریاضات و مجاہدات اور اذکار و مشاغل کے ذریعے سالک کا تزکیہ نفس ہوتا ہے اور روح میں قوت پرواز یدا ہوتی ہے تو مقام بہ سے نقطۂ ج کے زریعے مقام الف یعنی ذات احدیت کی طرف پرواز کرتا ہے اس سفر کا نام سیر عروجی یا سیر الی اللہ ہے۔ جب مقام الف پر پہنچ جاتا ہے اور ذات حق میں رسائی ہوجاتی ہے تو اس مرتبہ کا نام فنافی اللہ یا سیر فی اللہ ہے۔ جو سراسر استغراق و محویت ہے۔ اسکے بعد جب سالک اپنی اصلیت یعنی مقام بہ پر واپس آنا چاہتا ہے تو نقطۂ د سے ہوتا ہوا آتا ہے اور ب پر پہنچ کر استغراق سے نکل جاتا ہے۔ اور ہوشیاری میں واپس آکر مناصب زندگی انجام دیتا ہے اور ہدایت خلق کی طرف متوجہ ہوتا ہے اسی کا نام تکمیل ہے۔ جس کے بعد نیابت وخلافت الٰہیہ کا تاج اس کے سر پر رکھا جاتا ہے۔ ختم ہوا مترج مکا وضاحتی بیان)
دوسرا سوال
حضرت شیخ جنید بغدادی قدس سرہٗ کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ ما النھا یۃ (نہایت یا آخری مقام کیا ہے) تو آپ نے جواب دیا یہ رجوع الی البدایۃ ( یہ رجوع ہے ابتدا کی طرف ) اس سوال کا جواب پہلے سوا ل کے جواب میں آچکا ہے (یعنی مقام الف سے بہ پر واپس آنا کمالات بشریت ہے)
تیسرا سوال
وہ کونسا علمہے جسے حجاب اکبر کہا گیا ہے (صوفیاء کرام کا مقولہ ہے کہ العلم حجاب الاکبر (علم حجاب اکبر ہے)
جواب چونکہ علم،عالم اور معلوم تینوں کی حقیقت ایک ہے اس لیے ہر وہ علم جو اس حقیقت کے خلاف ہے حجاب اکبر ہے۔ بلکہ تفرقۂ ابدی ہے۔ اور حصول مقصد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
چوتھا سوال
انبیاء سابق کومعرفت توحید حاصل تھی یا نہیں؟
جواب
صوفیاء کرام کے نزدیک یہ امر مُسلّم ہے کہ ذات وصفات، اسماء واحکام الٰہی ک ے علم کا نام نبوت ہے۔ نیز شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہٗ نے فصوص الحکم میں فرمایا ہے کہ نبی حق تعالیٰ کی طرف سے اس لیے مبعوث کیا جاتا ہے کہ خلق خدا کی ان کمالات کی طرف راہنمائی کرے جو انکے اعیان ثابتہ کےمطابق علم حق تعالیٰ میں انکےلیے مقرر ہوچکی ہے۔ لہٰذا عقل کا تقاضا یہ ہے کہ معرفت توحید کے بغیر یہ کام انبیاء علیہمالسلام سے نہیں ہوسکتا۔( یعنی معرفت توحید بالضرور انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہے) دوسری بات یہ ہے کہ اولیاء مقدمین اور متاخرین کا اس بات پر اتفق ہے کہ تمام اولیاء کرام کو مشکوٰۃ نبوت سے نور معرفت حاصل ہوتا ہے۔ پس اگر انبیاء علیہم السلام کو معرفت توحید نہ ہو تو اولیاء کو کس طرح حاصل ہوگی۔ اب چونکہ یہ چیز اولیاء کرام کو حاصل ہے اس لیے انبیاء علیہم السلام جو اُن محتاج الیہ میں بدرجہ اولی یہ دولت حاصل ہوتی ہے۔
پانچواں سوال
تصور کا اعتبار ہے یا نہیں؟
جواب
و ہ تصوور جو اغراض نفسانی سےمنسوب نہیں اور حق تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہےمعتبر ہے اور جو اسکے خلاف ہے درجۂ اعتبار سے ساقطہ ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو چیز ذات بحت پر زائد نظر آئے غیرمعتبر ہے۔
چھٹا سوال
جب موجود کامعدوم ہونا محال ہے تو اشیاء کو کس طرح معدوم کہا جاسکتاہے۔
جواب
اشیاء کی صورتیں جو اعتباری اور اضافی ہیں تبدیل ہوسکتی ہیں لیکن حقیقت اشیاء جو و احد ہے ہر حال (ہر صورت) میں موجود رہتی ہے معدوم نہیں ہوتی مثلاً لکڑی جل جانے کے بعد راکھ بن جاتیہے اور راکھ دوسرے عناصر میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ نور ذات پر منتہیٰ ہوتی ہے جو تمام صورتوں اور شکلوں کی حامل ہے۔
ساتواں سوال
ترقی کی کوئی انتہا بھی ہے یا نہیں (یعنی ترقئ مدارج قریب)
جواب
سالک کی ترقی اسکےموسوم (وہمی۔ غیر حقیقی) وجودِ کے حق میں گم ہوجانے سے ممکن ہے۔ اور اس چیز کو فنافی اللہ کہتے ہیں اور چونکہ سالک کو اس مقام پر ذات الٰہی میں وصول (وصال) حاصل ہے اور چونکہ ذات الٰہی کی کوئی حد نہیں اس لیے ترقی کی بھی کوئی حد نہیں۔ کل یوم ھو فی شان (اسی ہر تجلیکین ئی شان ہے)سے یہی مراد ہے۔ بیت؎
اے تجلئ تو تکرار نہ |
|
دے کہ زحسن تو پدیدارنہ |
(اے دوست تیری تجلیات کو تکرار نہیں ہے یعنی ہر بار نئی تجلی نمودار ہوتی ایک تجلی دوبارہ نہیں آتی۔ اور تو اپنے حسن و تجلیات اور شدت ظہور کی س جہ سے نظر نہیں آتا یعنی آنکھیں چند دھیا گئی ہیں۔)
آٹھواں سوال
قرآن مجید کے الفاظ ظلوماً جھولاً انسان کی تعریف میں آئے ہیں یا مذمت میں۔
جواب
اگر انسان کو اِنَّا عرضنا الا مانتہ وحملھا الانسان انہ کان ظلوماً جھولاً میں مذکور امانت قبول کرنے کا اختیار تو ظلوماً جہولاً مذمت ہے۔ کہ اس نے آرام گاہ اطلاق سے تقید کی آشوب گاہ مین اپنے آپکو گرفتار کر کے غایب جہل سے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ لیکن یہ عوام کا عقیدہ ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو پیغمبر علیہ السلام یہ نہ فرماتےکہ یا لیت رب محمد لم یخلق محمداً ( کاش کہ محمد کا رب محمد کو پیدا نہ کرتا) اگر انسان کو اختیار نہ تھا اور حق تعالیٰ نے اُسے فعل مختار بنایا اور امانت قبول کرنے کی قابلیت عطا فرمائی تو ظلوماً جہولاً اسکی مدح (تعریف) ہے۔ اور چونکہ انسان کے افعال حق تعالی سے منسوب ہوتے ہیں ان افعال (یعنی امانت قبول کرنے) کی نسبت بھی حق تعالیی سے ہوگی۔ اور حق تعالیٰ جو کچھ کرتاہے عدل ہے نہ کہ ظلم ۔ یہ خواص عقیدہ ہے۔
نانواں سوال
کیا ارواح (یعنی کسی بزرگ کی روحانیت) سے تربیت حاصل کر کے معرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔
جواب
کسی سالک کو ذاتی استعداد اور فطری قابلیت کے بغیر ارواح کی تربیت سے معرفت حاصل نہیں ہوتی اور جب یہ دونوں جمع ہوجائیں (یعنی ذاتی قابلیت بھی ہو اور ارواح کی تربیت بھی مل جائے) تو شاید آیہ اِنَّکَ لا تھدی من اَحْبَتَتْ (اے پیغمبر تو جسے چاہے ہدایت نہیں دے سکتا) کے مطابق کمال ونقصان حضرت علمیہ الٰہیہ سے منسوب ہوتا ہے اور اسکا ظاہری فاعل سے کوئی تعلق نہیں (فاعل حقیقی یعنی حق تعالیٰ سے تعلق ہے)
دسواں سوال
طالب کو موت کے بعد وصل ممکن ہے یا نہیں
جواب
عارفین کے نزدک طالب اور غیر طالب بلکہ ہر شی معدوم ہے (یعنی کسی چیز کا حقیقی و جود نہیں ہے) اور ذات بحت کے سوا کوئی چیز موجود نہیں ہےاور آیۂ کُلَّ اِلَیْنَا رَاجِعُون کے مطابق طالب بلکہ تمام موجودات اپنی ذات کی طرف (یعنی ذات حق کی طرف) رجوع کر رہے ہیں خواہ جمال کے راستے خواہ جلال کے راستے جس طرح کہ پاک اورپلید پانی بحر محیط میں ہمرنگ ہوجاتے ہیں؎
ہر چیز کہ درکان نمک رفت نمک شد
جو چیز نمک کی کان میں رکھی جائے نمک بن جاتی ہے
اور صفت جمال اور جلال کی ذات حق کے ساتھ یکساں نسبت ہے اس وجہ سے کہ وحدت ساذج (ذات بحت) تعد اور تکثر سے پاک اور منزہ ہے۔ ایبات:
گر گمرہ ور زاہل شہودی ایدل
یک قطرہ زدریائے وجودی ایدل
زیں پیش نبودے از تو تا دریا فرق
ناگاہ چناں مشوی کہ بودی ایدل
خلق از چہ بہ رہِ مختلف آسار فتند
بیشی وکمی بعالم وحدت نیست
چہ رود چہ قطرہ چوں بدریا فتند
(۱۔ اگر تو گمراہ ہے یا اہل شہود ہے تو دریائے وجود میں سے ایک قطرہ ہے۔
۲۔ اب تک تم میں اور دریا میں کوئی فرق نہیں تھا چنانچہ اب بھی کوئی فرق پیدا نہ کرو۔
۳۔ اگر چہ مخلوقات نے مختلف راستے اختیار کر رکھے ہیں تاہم جب حقیقت کو پہچنتے ہیں ایک ہوجاتے ہیں۔
۴۔ عالم وحدت میں کمی وبیشی نہیں ہے خواہ ندی ہے خواہ قطرہ جب دریا میں جاتے ہیں ایک ہوجاتے ہیں)
گیارہواں سوال
طالب فانی ہوجاتا ہے یا مطلوب (یعنی مقام فنافی اللہ میں) اگر حدیث کُنْتُ کَنزاً مخفیا ً فاحْیَتُ اَنْ اُعْرَفَ فخلقت الخلق (حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ایک مخفی خزانہ تھا مجھے خواہش ہوئی کہ مجھے کوئی دیکھے اس لیے مخلوق کو پیدا کیا) کے مطابق حق تعالیٰ کو طالب فرض کیا جائے تو فانی ہونا مطلوب کیلئے درست آتا ہے جس نے نقاب بشری اوڑھ رکھ تھا۔ اور اگر انسان کو طالب قرر دیا جائے تو نفسانیہ سے اور صفات بشریہ سے باہر نکل سکتا تو اس صورت میں طالب فانی ہےمطلوب میں۔ لہذا قاعدہ کلیہ یہ ہوا کہ انسان اپنی صفت حدوث (حادث ہونا) اور خلق (مخلوق ہونا) کی وجہ سے فانی ہے خواہ اس حیثیت سے وہ طالب کہلائے یامطلوب۔ لیکن جب صفت حدوث وخلق سے باہر آجاتا ہے وہ بقی بن جاتا ہے (فانی نہیں رہتا) اورصفت خلق سےمعرا اور پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ کسی نےکہا ہے؎
عارف خدا ندارد |
|
اونیست آفریدہ[6] |
(عارف نہیں رکھتا نہ وہ کسی کا پیدا کیا ہوا ہے)
حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی کا یہ قول اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے الصوفی غیر مخلوق (صوفی غیر مخلوق ہے[7])
بارہوں سوال
درد اور عشق میں تفرقہ کیوں ہے۔
جواب
درد اور عشق دونوں لازم و ملزم ہیں۔ لیکن عاشق صفات (صفات کا طالب) ہمیشہ درد واندوہ میں مبتلا رہتا ہے۔ اس لیے کہ عالم صفات میں کبھی جلوہ گری ہوتی ہے کبھی پردہ پوشی جسکی وجہ سے عاشق صفات درد والم، حیرانی و پریشانی سے فارغ نہیں رہتا۔ اسکے بعد برعکس عاشق ذات ہمیشہ سکون واطمینان سے رہتا ہے کیونکہ عاشق ذات جس طرح دیکھتا ہے حق تعالیٰ کے جمال کے سوا کچھ نہیں دیکھتا؎
محقق ہماں بیند اندر ابلِ |
|
کہ درخوبر و یان چین و چگل |
(جو لوگ محقق ہیں محبوبان مجازی کے حسن و جمال میں حسن ازلی وجمالی لم یزلی کا مشاہدہ کرتے ہیں) اگر چہ ذات حق کے مختلف شیون (جمع شان) عین وصل میں اُسے نیم مردہ کردیتے ہیں اس وجہ سے عاشق جب تک محو مطلق نہیں ہوتا اور اپنے معشوق کے تعین سے فارغ نہیں ہوتا جو متقاضی دوئی ہے درد اور طلب اور سوز گذار اسکے اندر باقی رہتا ہے۔
خاصیت سیماب بود عاشق را |
|
تاکشتہ نہ گردو اضطرابش نہ رود |
(عاشق پارے کی طرح ہمیشہ بے چین رہتا ہے لیکن جب پارہ کشتہ ہوجاتا ہے اضطراب ختم ہوجاتا ہے)
تیرہواں سوال
وہ کونشا شغل ہے جو شغل کے اختیار کے بغیر (بے اختیار) شروع ہوجاتا ہے۔
جواب
یہ وہی شغل ہے جو ذکر اور ریاضت کی مداومت کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ جسے ذکر قلبی اور نطق القلب کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ لیکن اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اوپر بے شمار مراتب ہیں اور انسان کا کمال یہ نہیں ہے۔
چودھوں سوال
نماز بے خطرہ (یعنی بغیر وساوس) کب میسر آتی ہے۔
جواب
یہ نماز اس وقت میسر آتی ہے جب اشیاء کا وجود نمازی کی ظاہری وباطنی آنکھوں سے گم اور فنا ہوجاتا ہے اور اسکے قلب میں ذات حق بس جاتی ہے۔
پندرھواں سوال
غیر متناہی (لامحدود یعنی ذات حق) متنا ہی (محدود یعنی انسان) میں کس طرح سما سکتا ہے۔
جواب
اس اعتبار سے کہ ذات حق بحسب اطلاق اشارات، عبارات، قیودو اعتبارات سے پاک اور منزہ ہے۔ چشم سر اسکے اوراک سے قاصر ہے۔ اِنَّ اللہَ تَعَالیٰ احتجب عن العقول کما احتجب عن الابصار ان الملا الا علی یطلبونہ کما یطلبونہ انتم (تحقیق اللہ تعالیٰ عقول سے بھی اُسی حجاب میں ہے جس طرح عیون یعنی آنکھوں سے ہے۔ ذات حق تمہاری تلاش میں اُسی طرح سر گرم ہے جس طرح تم اسکی تلاش میں سر گرم ہو) اور اس اعتبار سے کہ تقیدات ظہور اور مراتب و جود یعنی مراتب کونیہ اور مظاہر حسیہ میں ذات حقِ کا ادراک ممکن ہے ہے ہوسکتا ہے کہ جیسے آسمان (یاسورج) اپنی پوری وسعت کے باوجود انسان کی تلی آنکھ پتلی میں سماجاتا ہے اسی طرح انسان کامل کے قلب میں بھی بمصداق حدیث قلب المومن عرش اللہ تعالیٰ ( مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے) ہوسکتا ہے کہ حق تعالیٰ سما جائے ۔ نیز حق تعالی نے فرمایا ہے وفی انفسکم افلا تبصرون (تم اپنے اندر کیوں نہیں دیکھتے) اللہ تعالیٰ یہ یہ کلام پاک میں بھی فرمایا ہے وَھُوَ مَعَ کُمْ اینھما کنتم (وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو) نیز حدیث قدسی میں آیا ہے کہ لا یسعنی ارضی ولا سماتی ولاکن یسعی قلب عبدی المومن (میں نہ اپنی زمین میں سماسکتا ہوں نہ اپنے آسمانوں میں سما سکتا ہوں بلکہ اپنے بندۂ مومن کے قلب میں سما سکتا ہوں) شعر؎
بدیں خوردی کہ آمد جسۂ دل |
|
خدا ے وند دو عالم راست منزل |
(انسان کا دل اگر چہ بہت چھوٹا ہے لیکن خدا وند عالم کی جائے رہائش ہے)
سولھواں سوال
انسان کے اندر استعدادِ شناخت (معرفت) برابر ہے یا نہیں۔
جواب
استعداد ذاتی ہر شخص میں برابر ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا کہ کُلَّکُم راع وکُلَّکُمْ مَسؤل عن رعیتہٖ (تم میں سے ہر شخص حکمران ہے اور ہر شخص سے اسکی رعیت یعنی کنبہ اور متعلقین کے متعلق پرسش کی جائیگی) نیز فرمایا وَمَا من مولودٍ اِلَّا وَھَدَ یُوَلَد علی فطرۃ الاسلام (ہربچہ اسلام کی فطرت پر یعنی صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے) یہ تمام نصوص انسان کی مساوات ذاتی پر دلالت کرتی ہیں۔ لیکن ہر شخص کی استعداد صفاتی میں بہت فرق ہے۔ ایک صفات ربانی سے متصف ہوکر فرشتوں سے اوپر چلاجاتا ہے اور دوسرا اوصاف شیطانی سے متصف ہوکر بد ترین بھیڑیا بن جاتا ہے۔
سترھواں سوال
بصر افضل ہے یا سمع۔
جواب
حق تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک مخصوص کا م کیلئے پیدا فرمایا ہے اور اس چیز کیلئے وہی کام افضل ہے۔ لوہا ایک لحاظ سے چاندی سے افضل ہے اور چاندی ایک لحاظ سے لوہے سے افضل ہے۔ اسی طرح کان ایک لحاظ سے آنکھ سے افضل ہے اس وجہ سے کہ آدمی علم کی وجہ سے اشرف المخلوقات ہے علم کے بغیر وہ بد ترین مخلوق ہے اور علم قوت سامع سے حاصل ہوتا ہے اور قوت ناطقہ جس سے انسان دیگر جانداروں سے ممتاز ہے قوت سامعہ کے بغیر بے کار ہے جس طرح مادر زاد گنگا کا حال ہے۔ ایک لحاظ سے آنکھ کو کان پر فضیلت حاصل ہے اس س جہ سے کہ جو علم کان کے ذریعے حاصل ہوتا ہے زوال پذیر ہے بخلاف علم بصر کے جو بالکل زوال پذیر نہیں ہوتا۔؎
شنیدہ کے بَوَد مانندِ دیدہ
روح کو ضائع وبدائع الٰہی کا احساس اور اشیاء عالم کی صورتوں کا اوراک اسی قوت باصرہ سے ہوتا ہے۔
اٹھارواں سوال
موت کے بعد بھی ترقی ہوتی ہے یا نہیں۔
جواب
مرتبۂ وحدت صرف میں ذوی الحیات (جاندار) معدوم ہیں[8]۔
لہٰذا اہل ممات بدرجہ اولی معدم ہونگے۔ اس وجہ سے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ موت کے بعد ترقی ہوتی ہے اور میں نے شبلی، جنید اور بایزید کے حال کا ملاحظہ کیا ہے انہوں نے ترقی ہے لیکن معرفت حق میں ترقی نہیں ہوتی اس وجہ سے کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے مَن کَانَ فِیْ ھَذٖہ اَعمی فَھُوَ فِی الاخرۃ اعمیٰ[9] (جو اس دنیا میں اندھا ہے آخرت میں بھی اندھا ہوگا) لیکن اکثر محققین کا خیال ہے کہ موت کے بعد ترقی نہیں ہوتی چنانچہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے یا ایھا الذین امنو انفقوا مما رزقنکم من قبل ان یاتی یوم لابیع فیہ ولا خلۃ ولا شفاعہ والکافرون ھم الظالمون[10] (اے ایمان والو خرچ کرو (راہِ حق میں) اس رزق سے جو ہم نے تمکو دیا قبل اسکے کہ یوم قیامت آجائے جب نہ خرید وفروخت ہوگی نہ دوستی اور شفاعت اور کافر لوگ بڑے ظالم واقع ہوئے ہیں)
ان اٹھارہ سوالوں میں سے چودہ سوال کاتب حروف کو شیخ محب اللہ رحمۃ اللہ کی کتاب اسولہ واجوبہ کے دیکھنےسے پہلے موصول ہوچکے تھے۔ چنانچہ اس احقر نے انکےجواب وقت وحال کےمطابق تحریر کیے تھے انکو بھی یہاں لکھا جاتا ہے امید ہے ان سوالات کے نئے جوابات مفید ثابت ہونگے۔
پہلا سوال
اس راہ میں (یعنی طریقت یا سلوک الی اللہ میں) بدابت (ابتدا) اور نہایت (انتہا) کیا ہے۔
جواب
راہِ سلوک میں حضرات نقشبندیہ کے نزدیک ابتدا سے مراد سالک کا حصول اوراک بسیط ہے جس میں حقیقت کا خلقیّت پر غلبہ ہوتا ہے اور جو محل تجلئ ذات اور ظہور وجہ خاص ہے یہاں ظہور کے ساتھ وصول بھی مفہوم ہے۔ اس قسم کے ظہور کو آغاہی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ انکے نزدیک نہایت یعنی انتہا سے مراد ذات لا تعین یا بے کیف کا شہود ہے۔ جہاں محویت واستغراق کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ نہ سالک کا نام باقی رہتا ہے نہ نشان۔ یہاں تمام نسبتیں حقیقت میں گم ہوجاتی ہیں۔ اس کشف کو کشف غلبہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ جسے تجلئ ذاتی شہود ذاتی اور یاد داشت بھی کہتے ہیں۔ اس مقام پر رویت جسکا ظہور آخرت میں ہونا تھا یہاں صحیح ہوجاتی ہے۔ اور مرتبہ احسان اور رویت میں جو فرق ہے وہ اس فرق کی طرح ہے جو صاحب جمال کے مشاہدہ بوقت صبح اورمشاہدہ بوقت اشراق میں ہے[11]۔ اور ان حضرات کی اس کشف اور استغراق سے تمام تر غرض یہ ہوتی ہے کہ اس نسبت کے غلبہ سے کثرت صفات بھی انکی نظر سے گم ہوجاتی ہے اور صفت و فعل میں سوائے ذات کے کچھ نہیں دیکھتے اور موجودات کے سارے، میدان میں انکو ذات بحت کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ یہ ہے انبیاء اور اولیاء کے مقام کی انتہا۔
طریقہ قادریہ اور چشتیہ میں ابتداء وانتہا
طریقۂ قادریہ اور چشتیہ میں بدایت سے مراد آغاز سلوک اور نہایت سے مراد جذبہ ہے۔ بعض کےنزدیک بدایت کار انابت (یعنی رجوع الی اللہ) سالک کے وجود کی نفی اور فنا ہے اور نہایت کا رنفی واثبات اور فنا وبقا سے گذر جانا ہے (یعنی فرو بنکر ایک کے ساتھ ایک ہوجانا[12])
بعض کے نزدیک بدایت کار مرتبۂ عشقیّت و محبت ہے اور نہایت کار مقام معشوقیّت و محبوبیّت ہے بعض کےنزدیک بدایت کار اپنے آپکو سباری کائنات کو تقلید کے طور پر عین حق تصور کرنا ہے اور نہایت کار اپنے آپ اور تمام موجودات کو از روئے تحقیق وتصدیق (نہ صرف قالاً بلکہ حالاً) دیکھنا ہے بعض کہتے ہیں کہ بدایت کار شیخ کی صورت مثالی کا دیدۂ شہود سالک کے سامنے حاضر ہونا ہے اور نہایت کار عالم ملکوت کا کھل جانا ہے۔ اسکے بعد کام سلوک سے بالا تر ہوجاتا ہے اور سالک کی ترقی کا دار ومدار جذبۂ الٰہی کا ورود ہے۔ نیز بدایت کار تصور شیخ ہے اور نہایت کا اسکے ساتھ کلام کرنا اور فیض حاصل کرنا ہے۔ نیز بدابت کار مسافر روح کے ساتھ نسبت تامہ کا حصول ہے جیسا کہ شب معراج میں آنحضرتﷺ کیلئے براق اور نہایت کار روح مقیم کے ساتھ نسبت کاملہ ہے۔
دوسرا سوال
حضرت جنید بغدادی کے قول ھی الرجوع الی البدایۃ جو انہوں نے ما النھایت کے جواب میں دیا کا کیا مطلب ہے۔
جواب
اسکا مطلب یہ ہے کہ خلق قبل از ظہور عین حق تھی اور حق بعد از ظہور عین خلق ہوگیا۔ پس سالک کے کمال کی انتہا یہ ہے کہ جس طرح قبل از، ظہور عین حق تھا اسی طرح بعد از ظہور اپنی اصل کی طرف رجوع کر کے عین حق ہوجائے۔ بالفاظ دیگر انتہا یہ ہے کہ قطرہ دریا میں پیوست ہوجائے اور فرع اصل کے ساتھ مل کر ایک ہوجائے؎
رفت زمسعود بک جملہ صفات بشر
چونکہ ہمہ ذات بود باز ہماں ذات شد
(مسعود بیگ سے تمام صفات بشریہ دور ہوگئیں اور جس طرح پہلے عین ذات تھی اب عین ہوگیا)
تیسرا سوال
وہ کونسا علم ہےجو حجاب الاکبر کہلاتا ہے
جواب
وہ علم جو حجاب اکبر ہے وہ علم غیریت اور کثرت و دوئی کو دیکھنا ہے بعض کہتے ہیں کہ علم حضوری اور حصول حاصل دونوں ایک ہیں۔ کہ وہ علم جو حجاب اکبر ہے وہ عرفان ذات بے چون ہے لطف یہ ہے کہ وہ بھی درمیان میں نہ ہو۔ چنانچہ حضرت مولانا روم نے اس شعر میں اُسی کی طرف اشارہ کیا ہے؎
گفت مکشوف و برہنہ کو کہ من |
|
مے نہ خسپم با صنم باپیرہن |
(عاشق نے کہا کہ مجھے تو برہنہ اور بلا لباس اس محبوب چاہیے کیونکہ میں اس محبوب کے ساتھ نہیں سوتا جو پیراہن کے ساتھ ہو) بعض کہتے ہیں کہ وہ علم حق ہے جو تعین اول میں ظاہر ہوکر حاجب ذات اور اسکے ظہور کا ذریعہ بنا۔ العلم حجاب الاکبر کےمعنی حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کے احوال میں بھی بیان کیے جاچکے ہیں۔
چوتھا سوال
انبیائے سابق کو معرفت توحید حاصل تھی یا نہیں۔
جواب
انبیائے سابق (یعنی حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام) کو خالص توحید تنزیہی یا خالص توحید تشبیہی حاصل تھی لیکن وہ توحید جو تشبیہہ و تنزیہہ کی جامع ہے حاصل نہ تھی کیونکہ یہ چیز سرور کائناتﷺ کا خاصہ ہے۔
پانچواں سوال
تصور قابل اعتبار ہے یا نہیں؟
جواب
تصور شاغل[13] کامل بالکل قابل اعتبار ہے لیکن غیر کامل کا تصور درجہ اعتبار سے ساقط ہے۔
چھٹا سوال
جب موجود کو معدوم ہونا محال ہے تو اشیا کو کیسےمعدوم کیا جاسکتا ہے؟
جواب
اشیاء عالم جو اعیان ثابتہ ہیں ہمیشہ سے معدوم ہیں انکو وجود خارجی کی بو تک نہیں آئی(یعنی وجود خارجی کی انکو ہوا تک نہیں لگی) اور جو کچھ موجود ہے سب ذات حق سبحانہ تعالیٰ ہے جسکا معدومہونا محال ہے لہٰذا ہم کیسےکہہ سکتے ہیں کہ اشیاء پہلے موجود تھیں بعد میں معدوم ہوگئیں۔
ساتواں سوال
ترقی کی کوئی انتہا بھی ہے یا نہیں؟
جواب
محمدی المشرب کی ترقی کی کوئی انتہا نہیں۔ دوسروں کی ترقی انتہا ہے۔
آٹھواں سوال
ظلوماً جہولاً میں انسان کی تعریف آئی ہے یا مذمت؟
جواب
ان الفاظ شریف میں ح ضرت انسان کے عرفان کے بے حد مدحت کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس سرکش پر ظالم ہے کیونکہ اسے سخت مجاہدات اور ریاضت شاقہ میں پکرتا ہے اور غیر حق سے جاہل ہے۔
نانواں سوال
ارواح کی تربیت سے معرفت تمام ہوتی ہےیا نہیں؟
جواب
سالک ارواح انبیاء واولیا کے ذریعے اجمالی معرفت حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن جب تک ظاہری زندہ شیخ اور کامل اکمل شیخ سے تربیت حاصل نہ کی جائے اُسے حق تعالیٰ کی تفصیلی معرفت حاصل نہیں ہوتی اور دوسروں کی تکمیل کرانے کے قابل نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اُن حضرات سے مخفی نہیں جنکو معفت کا ادنیٰ ذوق ہے۔
دسواں سوال
طلاب کے لیے موت کے بعد وصل مطلوب ممکن ہے یا نہیں؟
جواب
اگر سالک مرتبہ دید یا شنید کے کھلنے کے بعد پہلے اور نہایت کار کے حصول سے پہلے مرجائے تو موت کے بعد نہایت کار سے واصل ہوجاتا ہے۔ اگر مرتبہ دید شنید سے پہلے موت واقع ہوجائے تو بعض کےنزدیک مطلوب کوپہنچ جاتا ہے۔
گیارھواں سوال
طالب فانی ہوتا ہے یا مطلوب؟
جواب
مرتبہ فنا میں طالب اور مطلوب دونوں ایک دوسرے کے صفات میں فانی ہوجاتے ہیں اور مقام بقا میں دونوں ایک دوسرے کے صفات سے باقی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ایک عارف نے فرمایا ہے۔
من برنگ یار گشتم |
|
یار رنگ من گرفت |
(میں دوست کے رنگ میں رنگا گیا اور دوست نے میرا رنگ اختیار کرلیا)
بارھواں سوال
درد اور عشق سے کیا مراد ہے؟
جواب
عشق سے مراد عاشق کا مشاہدۂ دوست کی طرف رجوع ہے۔ اور درد سے مراد سوز اور فراق ہے عین طلب[14] میں تاحصول وصال۔ پس موجب ترقی درد ہے۔ اگر کسی کو عشق ہے لیکن درد نہیں ہے وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ ملائک کو عشق ہے درد نہیں ہے لہذا وہ ترقی نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ آیت کریمہ وَما منا الاولہ مقام معلوم سے ظاہر ہے۔ درد صرف انسان کا خاصہ ہے۔ کسی عارف نے خوب کہا ہے؎
قدسیاں را عشق ہست ودرونیست |
|
درد راجز آدمی در خورد نیست |
(فرشتوں کو عشق ہے درد نہیں ہے۔ درد کے قابل انسان کے سوا کوئی نہیں ہے)
قدسیاں را عشق ہست و درد نیست |
|
درۂ در داز دل عشاق بہ |
(عشق کا ایک ذرہ ساری کائنات سے بہتر ہے اور درد کا ایک ذرہ تمام عاشقوں کے دل سے بہتر ہے)
عشق کیلئے درد لازمی نہیں لیکن درد کیلئے عشق لازمی ہے اور درد کے بغیر عشق محبوب تک نہیں پہنچا سکتا۔ ہاں درد محبوب تک پہنچا سکتا ہے۔
تیرھواں سوال
وہ کونسا شغل ہے جو شاغل کے اختیار کے بغیر صادر ہوتا ہے،
جواب
وہ شغل جو شاغل کی کوشش کے بغیر انقطاع (مسلسل) جاری رہے اور وہ شغل سلطان ذکریا صوتِ سرمدی یا انحد ہے جسکا ذکر مفصل حضرت عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ اور حضرت جلال الدین تھانیسری کے حالات میں ہوچکا ہے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
چودھواں سوال
وساوس کے بغیر نماز کب حاصل ہوسکتی ہے؟
جواب
یہ نماز اس وقت حاصل ہوتی ہے جب نمازی پر شغل باطن مسلط ہوکر غیر کےنقوش اسکی لوح دل سے مٹادیتا ہے۔ اور عشق کے سوا اسکے دل میں کوئی خطرہ نہیں آسکتا۔
غرضیکہ حضرت شاہ محب اللہ عارف صاحب اسرار جو وساوس اغیاء سے فارغ اور دقائق طریقت وآداب شریعت کے محافظ تھے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا اٹھارہ سوالات و جوابات سے ظاہر ہے۔ پس جو شخص آپکی نکتہ چینی کرتا ہے وہ الھاد اور زندقہ میں مبتلا ہے اور علم حقائق سے بے بہرہ ہے۔ چونکہ وہ شخص حضرت اقدس کا کلام سمجھنے سے قاصر ہے اور انکا پر کمر باند لیتا ہے۔ آفتاب کی ہستی کا منکر ہوتا ہے ۔لیکن اپنی جہالت سے آگاہ نہیں ہوتا۔ آپ کے کمال کیلئےیہی دلیل کافی ہے کہ آپ حضرت شاہ ابو سعید قدس سرہٗ کے مرید تھے اور حضرت اقدس کی نظر خاص کےپروردہ تے۔ حاجب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ محب اللہ بیس سال تک الٰہ آباد میں مسند ارشاد پر متمکن رہے اور ایک جہان آپ سے فیضیاب ہوا۔
وصال
آپ نے بتاریخ ۹؍ ماہ رجب بروز پنجشنبہ بوقت غروب آفتاب ۱۰۵۸ھ عالم فنا سے عالم بقا کی طرف رحلت فرمائی اور الٰہ آباد میں دفن ہوئے۔ اپکا ایک خورد سال بچہ تھا جنکا نام شیخ تاج الدین تھا۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ شیخ تاج الدین کی اولاد باقی ہے۔
چوتھے خلیفہ
حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ کے چوتھے خلیفہ حضرلت شیخ ابراہیم سہارنپوری تے۔
پانچویں خلیفہ
آپکے پانچواں خلیفہ حضرت شیخ خواجہ پانی پتی تھے۔ آپ کے دیگر خلفا بی بہت تھے جنکا ذکر اس مختصر کتاب میں نہیں ہوسکا۔ رحمہ اللہ علیھما
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد ٍوَالہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
[1]۔ شغل نفی واثبات سے مراد ذکر اللہ لا الہ الا اللہ ہے
[2]۔ اسم ذات سے مُراد ذکر اسم مبارک اللہ اللہ ہے
[3]۔ برزخ شیخ کا مطلب یہ ہے کہ یہ ذکر تصور شیخ کےساتھ کیا جائے یعنی سالک اپنے آپ کو شیخ کی صورت دیکھے اور ذکر کرنے والا سالک خود نہ ہو بلکہ حضرت شیخ ہو۔
[4]۔ سیر الی اللہ سے مراد عروجی سفر ہے جو ذات حق تک رسائی حاصل کرنے کی خاطر اختیار کیا جاتا ہے اس سفر میں عالم مثال، عالم ملکوت یا عالم ارواح اور عالم جبروت سے گذر کر ذات بحت میں روحانی طریق سے داخل ہونا پڑتا ہے۔ یعنی سالک کی روح تزکیہ نفس کے بعد پرواز کر کے عالم مثال، عالم ملکوت عالم جبروت سے گذرتی ہوئی ذات باری تعالیٰ میں واصل ہوجاتی ہے۔
[5]۔ سیرفی اللہ سےمراد وہ پرواز ہے جو سالک ذات حق سے واصل ہوکر ذات حق میں مزید قرب و وصال کی خاطر اختیارکرتا ہے۔ اسکے بعد سیر من اللہ ہے جو نزولی سفر ہےجسکے ذریعہ سالک پھر مقام و دوئی میں واپسی آتا ہے اور فرائض منصبی ادا کرتا ہے۔
[6]۔ یعنی جب فرق من وتو مٹ جاتا ہے اور سالک اپنی ہستی کو ذات حق میں گم کردیتا ہے تو بندہ اور خدا کی نسبت باقی نہیں رہتی۔ سب خدا ہی ہوتا ہے۔ بندہ ن ہیں رہتا
[7]۔ یعنی جب دوئی مٹ جاتی ہے تو خالق و مخلوق کا فرق مٹ جاتا ہے۔
[8]۔ یعنی مرتبۂ ذات بحت میں تعینات گم ہیں۔
[9]۔ ان دو آیات کی رو سے بعد ممات وہ لوگ مانع ترقی ہیں جو عصیان میں مبتلا ہوں گے۔ لیکن جن مقدس افراد کو اس دنیا میں باطنی بصیرت اور روحانی قوت پرواز حاصل ہوچکی ہے وہ ہر آن اور ہر لحظ ذات حق میں ترقی کرتے ہیں خواہ عند الحیات خواہ بعد الممات۔
[10]۔ ان دو آیات کی رو سے بعد ممات وہ لوگ مانع ترقی ہیں جو عصیان میں مبتلا ہوں گے۔ لیکن جن مقدس افراد کو اس دنیا میں باطنی بصیرت اور روحانی قوت پرواز حاصل ہوچکی ہے وہ ہر آن اور ہر لحظ ذات حق میں ترقی کرتے ہیں خواہ عند الحیات خواہ بعد الممات۔
[11]۔ شاید اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرات نقشبندیہ کےنزدیک ابتدائے کارمرتبۂ فناء ہے اور انتہاء کار مرتبہ فناء الفنا ہے۔ جہاں احساس فنا بھی شہود ذات بحت میں ختم ہوجاتا ہے۔ مشاہدہ صبح اور مشاہدہ اشراق میں ظہور کی کمی وبیشی کا فرق ہےجیسے صبح صادق کے وقت آفتاب کی چمک مدھم ہوتی ہے اور اشراق کے وقت تیز۔
[12]۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے۔
ساحل دریا ہمہ کفر است ودریا دینداری
ولیک گوہر دریا درائے کفر و فن است
[13]۔ شیخ کامل۔
[14]۔ ہجر در عین وصال جو مقامِ جامعیت ہے۔
(قتباس الانوار)