شیخ مظفر بلخی (مکہ) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ شیخ شرف الدین منیری قدس سرہٗ کے مرید اور خلیفہ تھے شیخ شرف الدین نے آپ کو اپنے مکتوبات میں امام مظفر کے نام سے موسوم کیا ہے مناقب الاصفیاء میں لکھا ہے کہ شیخ شرف الدین منیری کے ایک لاکھ مرید تھے ان میں سے تین سو حضرات واصل باللہ تھے اور تین ایسے بزرگ تھے جو محبوب اللہ تھے ایک جناب مظفر بلخی دوسرے ملک زادہ مظفر تیسرے مولانا نظام الدین حصاری قدس سرہم تھے۔
حضرت شیخ مظفر بلخی کے والد مکرم جناب شمس الدین بلخی ابتدائی عمر میں ہی دہلی میں آگئے تھے اور سلطانِ دہلی کے دربار میں ایک عہد پر فائز ہوئے کچھ عرصہ کے بعد تارک الدنیا ہوکر اپنی بیوی کو لکھا کہ میں تارک الدّنیا ہوگیا ہوں اگر تمہیں میرے اس مقصدے سے اتفاق ہوتو اپنا مال و متاع اپنے بیٹوں کو دے کر میرے پاس آجاؤ اور صبر و قناعت کی زندگی اختیار کرلو۔ اس نیک سیرت بی بی نے اپنے دونوں بیٹوں مظفر اور معزالدین کو بٹھا کر کہا کہ تمہارے باپ نے مجھے تارک الدنیا ہوکر بلایا ہے میں بھی اس کے اس مقصد میں شریک ہونا چاہتی ہوں میں جارہی ہوں تمہارے لیے یہ تمام مکانات اور مال و متاع موجود ہے والدہ کی یہ بات سنتے ہی دونوں بیٹوں نے کہا۔ ہم بھی دنیا کے علایٔق کو ترک کرنا چاہتے ہیں چنانچہ تمام اثاثہ اور مال و متاع غرباء میں تقسیم کردیا۔ اور والدہ کے ساتھ سفر کرکے دہلی آپہنچے اگرچہ شیخ شمس الدین بلخی شیخ احمد چرم پوش بھاری کے خلیفہ تھے۔ اور شیخ مظفر فرمایا کرتے تھے کہ شیخ احمد صاحب کرامت بزرگ ہیں لیکن وہ عالم نہیں ہیں اور مجھے بے علم بزرگ پر اعتماد نہیں ہے مجھے تو صاحب علم بزرگ پر اعتماد و اعتقاد ہوسکتا ہے چنانچہ آپ شیخ شرف الدین منیری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مرید ہوئے چونکہ ان کی بیوی آپ کے معمولات ذکر اور دیگر مشاغل میں حارج تھی اور آپ کو اس سے فطری محبت بھی تھی۔ آپ نے طلاق دے دی اور حالت تجرید میں مشغول حق ہوگئے۔
ایک دن حضرت شیخ مظفر اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں بیٹھے تھے۔ حاجی شیخ منہاخ الدین بھی اسی مجلس میں موجود تھے۔ حج کعبہ کی فرضیت میں بات چل نکلی انہوں نے شیخ کی صحبت سے حج کعبہ کو افضل قرار دیا۔ یہ بات سنتے ہی شیخ مظفر کو بڑا غصّہ آیا اور بحث شروع کردی کہ پیر طریقت کی برکات سے کعبہ قریب آجاتا ہے اسے شیخ کی صحبت ترک کرکے حج کعبہ میں جانے کی کیا ضرورت ہے اس بات نے طول پکڑا تو شیخ مظفر نے شیخ منہاج الدین کو جوش میں آکر کہا۔ یہ دیکھو۔ کعبہ تو میری آستین میں ہے شیخ منہاج الدین نے کعبۃ اللہ کو دیکھ کر اپنے خیال سے رجوع کرلیا مگر جب شیخ کو اس کرامت نمائی کا علم ہوا۔ تو آپ نے شیخ مظفر کو بلا کر فرمایا تم کرامات کا اظہار کرکے یاد الٰہی سے غافل ہورہے ہو اب تمہارے لیے واجب ہے کہ حرین الشریفین کی زیارت کو جاؤ۔ حضرت شیخ مظفریہ حکم سنتے ہی بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے بیت اللہ شریف پہنچے زیارت سے فارغ ہوئے تو ہندوستان کو روانہ ہوئے ابھی راستے میں ہی تھے کہ حضرت شیخ شرف الدین منیری کے وصال کی خبر سنی دورانِ سفر یہ صدمہ بے حد گراں گزرا۔ ایک رات آپ کی سرور دو عالم کی خواب میں زیارت ہوئی آپ نے حکم دیا کہ امسال جلدی سے ہندوستان جاؤ آئندہ اپنے بیٹوں کو لے کر پھر آنا آپ دوسری بار مکہ مکرمہ کی طرف گئے تو اپنے بیٹوں کو ساتھ لے گئے اور ساری بقایا عمر دیارِ حبیب میں گزار دی۔
وفات کے قریب تقریباً بائیس (۲۲) دن کھانا نہ کھایا کسی سے بات نہ کی وصال کے وقت اپنے پیرانِ عظام کی امامت اپنے برادر زادہ شیخ حسین کو خرقہ خلافت کے ساتھ دی اور ۷۸۸ھ میں فوت ہوئے آپ اپنے پیر و مرشد حضرت منیری کے وصال سے چھ سال تک زندہ رہے۔
شد بحنت چوں آں مظفر دین
محتشم سال رحلتش فرما
۷۸۸ھ
مقتداء شیخ متقی بلخی
ہم بگو زندہ دل ولی بلخی
۷۸۸ھ
(خزینۃ الاصفیاء)