حضرت شیخ نجم الدین عبداللہ بن محمد اصفہانی علیہ الرحمۃ
آپ ابوالعباس مرسی کے شاگرد ہیں ۔برسوں مکہ کے مجاور رہے ہیں۔آپ کے مناقب بہت ہیں اور کرامات بے شمار ۔ایک عالم نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے باپ کو بیمار چھوڑ کر حج کو گیا۔جب مکہ میں پہنچا تو حج کیا۔میرا دل باپ کی وجہ سے پریشان تھا۔شیخ نجم الدین سے میں نے کہا ،کیا مضائقہ ہو،اگر آپ بعض مکاشفات میں دل لگا کر میرے باپ کے حالات سے مطلع ہوجائیں اور مجھے بتائیں۔انہوں نے اسی وقت دیکھا اور کہا کہ ابھی وہ صحبت پاگئےہیں اور چارپائی پر بیٹھے ہوئے مسواک کرتے ہیں۔اپنی کتابیں اپنے پاس جمع کی ہوئی ہیں۔ان کا حلیہ و حالات یہ ہے۔سچے نشانات بتائے،حالانکہ انہوں نے ان کو کبھی نہ دیکھا تھا۔ایک دن ایک ولی کے جنازہ کے ساتھ باہر نکلے۔جب کلمہ تلفین کرنے والا جو کی ایک فقیہ تھا۔قبر پر بیٹھ کر ان کو تلفین کرے۔شیخ نجم الدین ہنس پڑے۔ایک شاگرد نے ہنسنے کاسبب پوچھا تواس کو جھڑکا۔پھر اس کے بعد بتایا کہ جب تلفین شروع کی تو صاحب قبر نے کہا،میں نے ہرگز بیوی نہیں کی۔بلکہ میں نے ایسا کھانا نہیں کھایا۔جس کو کسی عورت نے پکایا ہو۔شیخ نے عجم کےملک میں ان سے کہا تھاکہ تم بہت جلد مصر کے ملک میں قطب سے ملاقات کرو گے۔اس لیے آپ قطب کی طلب میں باہر نکلے۔راستہ میں لٹیروں کے قافلہ نے آپ کو پکڑ لیا اور کہنے لگے ،یہ جاسوس ہے۔ان کو حراست میں رکھا اور مقید کردیا۔آپ کہتے ہیں،میں اتفاقاً دیکھا کہ ایک پیر مجھ پر ایسا اترتا ہے۔جس طرح باز شکار پر۔اس نے مجھے کھول دیااور کہا،اے عبداللہ اٹھ کہ تیرا مطلب میں ہوں۔تب میں گیا۔یہاں تک کہ مصر میں پہنچ گیا،لیکن اپنے مطلوب کو نہ پہچانا اور نہ جانا کہ وہ کہاں ہے۔یہاں تک کہ ایک دن لوگوں نے کہا کہ شیخ ابوالعباس مرسی آئے ہیں۔درویشوں کی ایک جماعت نے کہا کہ چلو ان سے ملیں اور سلام کر آئیں۔جب میری آنکھ ان پر پڑی تو میں نے پہچان لیا کہ یہ وہی پیر ہے۔جس نےمجھ کھولا تھا اور انہوں نےبھی نشانی کہی۔جس کو حاضرین نے نہ جانا۔میں نے ان کی خدمت وصحبت کو ضروری سمجھا۔یہاں تک دنیا سے انتقال ہوا۔جب شیخ فوت ہوئے تو مکہ کی طرف متوجہ ہوئے ۔راستہ میں اپنے شیخ شیخ ابوالحسن شاذلی ؒ کے مزار پر پہنچے۔آپ نے قبر سے ان سے باتیں کیں اور کہا کہ مکہ میں جاکر بیٹھو ۔جب حرم شریف میں پہنچے تو سنا کہ کوئی غیب سے کہتا ہے،قدمت الی خیر بلدو شر اھل یعنی تم اچھے شہر میں آئے ہو،جو سب سے بہتر ہےاور جس کے رہنے والے سب سے بڑے ہیں۔آپ مکہ مجاور رہے۔یہاں تک کہ ۷۲۱ میں اتقال کرگئے۔ان کو فضیل بن عیاض ؒ کی قبر کے قریب دفن کیا گیا۔
مجاورت کے دنوں میں ان کے بظاہر مکہ کے باہر عرافت سے زیادہ دور کسی نے نہ دیکھا تھا،لیکن باطن می ںاس کا جاننا علماء باطن کا کام ہے۔ایک ولی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے مین واپس آیااور مکہ کی طرف متوجہ ہوا۔مجھے خیال ہوا کہ شیخ نجم الدین کبھی مدینہ شریف میں نہیں گیااور زیارت نہیں کی۔دل میں میں ان پر اعتاض کرتا تھا۔اتفاقاً میں نے سے جو اونچا کیا تو دیکھا کہ شیخ نجم الدین ہوا میں مدینہ کو اڑے جارہے ہیں۔مجھ کو آواز دی کہ یا محمد اور مجھ سے باتیں کیں۔ایک دن ان کے اصحاب نے ان سے کہا کہ لوگ آپ پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ رسول اللہﷺ کی زیارت کو نہیں گئے اور نہ جاتے ہو۔کہا کہ منکر دو حال سے خالی نہیں کہ باشرع یا محقق،اگر باشرع ہے تو اس سے کہو کہ کیا غلام کو بغیر اجازت اپنے مالک کے سفر جانے کی اجازت ہے اور اگر محقق ہے تو اس سے کہو کہ جس شخص ہمیشہ تمہارے ساتھ رہتا ہے۔کبھی اس کی طلب میں تم سفر کرتے ہو۔خراسان کے ایک بڑے ولی کے خط کا یہ لکھا ہوا پایا گیا ہےکہ ایک میں ۷۰۳ھ میں حرم شریف مکہ کی زیارت سے مشرف ہوا۔زادہا اللہ شرفاً۔اس وقت حرم کے شیخ شیخ نجم الدین اصفہانی تھے۔میں ان کی خدمت میں پہنچا کرتا تھا۔ایک دن مجھےسے پوچھا کہ کیا تم یہ حدیث پہنچی ہے۔بدلاء امتی اربعون اثنا عشر فی العراق وثمانیۃ و عشرون فی الشام یعنی میری امت کے چالیس ابدال۔بارہ تو عراق میں ہیں اور اٹھائیں شام میں ۔میں نے کہا،ہاں مجھ کو پہنچی ہے،لیکن مجھے یہ امر مشکل معلوم ہوتا ہےکہ یہ لوگ شام و عراق میں کیونکر رہتے ہیں۔شیخ نے فرمایا کہ حضرت رسالت ﷺ نے تمام جہان کو دو حصہ میں مقرر کیا ہے۔نصف شرفی ،نصف غربی۔عراق سے نصف شرفی مراد ہےاور شام سے نصف غربی۔پس عراق وغیرہ جیسے خراسا ن،ہندوستان،ترکستان اور باقی بلدہ شرقیہ یہ سب عراق میں داخل ہیں اور شام اور اس کو ماسوا جیسے بلاد مصرو مغرب سے شام میں داخل ہیں۔راوی کہتا ہے کہ اس وقت میرے دل میں یہ بات آئی کہ خواجہ قطب الدین یحییٰ جامی نیشاپور کے حال کی بابت سوال کروں۔بلا اسکے کہ میں سوال کروں۔شیخ نے فرمایا کہ خواجہ قطب الدین یحییٰ ان بارہ اشخاص میں سے ہے کہ جو عراق میں ہیں۔واللہ اعلم بالصواب۔
(نفحاتُ الاُنس)