حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام و نسب: کنیت :ابوالجناب .اسم ِ گرامی: مبارک احمد۔ لقب :نجم الدین کبٰری۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:احمدبن عمر بن محمد۔(علیہم الرحمہ)
تاریخ ولادت: 540 ھ ۔ بمطابق145 1ءکو "خیوق"خوارزم،موجودہ (ازبکستان) میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں حاصل کی اور محی السنہ اور حضرت شیخ روز بہاں بقلی سے بھی استفادہ کیا ،اور بعد میں مختلف شیوخ ِ تصوف اور اپنے وقت کے جید علماء کرام سے مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کی اور زمانہ طالب علمی میں جس سے مناظرہ کرتے غالب آجاتے اسی وجہ سے طامۃ الکبری اور الشیخ الکبری ٰ کے خطاب سے مشہور ہوگئے ۔آپ نے تحصیل علم کیلئے عراق،شام ،خراسان،مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ کے اسفار کیے۔
بیعت وخلافت: آپ شیخ المشائخ حضرت عماریاسرسہروردی علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے،اور ریاضت کےبعد خلافت سے مشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: شیخ المشائخ،امام الاولیاء،قدوۃ الصلحاء،سندالعرفاء،مجاہدِ اسلام،شہیدِ اسلام حضرت شیخ نجم الدین کبٰری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ رحمۃاللہ علیہ اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخِ طریقت وشریعت تھے۔بڑے اولیاء کرام آپ کی بارگا میں حاضر ہوتے تھے۔آپ کی کرامات اور خوارق سارے عالم اسلام میں مشہور تھیں۔اہل اسلام آپ کو "ولی تراش "کے لقب سے پکارتے تھے ۔آپ عالم وجد میں جس کسی پر نگاہ ڈالتے اسے مرتبہ ولایت تک پہنچا دیتے۔ ایک دن ایک سوداگر آپ کی خانقاہ پر حاضر ہوا آپ اس وقت خوش تھے۔ ایک نگاہ کیمیا اثر ڈالی تو سوداگر کو رتبہ ٔولایت عطا فرمادیا۔ ایک مرتبہ حضرت شیخ نجم الدین نے ایک شخص سےپوچھا کہ کس ملک کے رہنے والے ہو۔اس نے بتایا کہ فلاں ملک سے آیا ہوں آپ نے اسے اجازت نامہ لکھ کردیدیا، اور اسے اس کے ملک کا قطب الارشاد مقرر کردیا۔ایک دن ایک چڑی باز ایک کمزور سی چڑیا کا پیچھا کر رہا تھا۔ حضرت نجم الدین کبٰری کی ایک نگاہ چڑیا پر پڑی،تو چڑیا میں اتنی قوت پیدا ہوگئی کہ وہ پیچھے پلٹی اور باز کا شکار کرکےشیخ نجم الدین کبرٰی کے قدموں میں حاضرکردیا۔(نفحات الانس،ص،369)
مولانا جامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ایک دن اصحاب ِکہف کے بارےمیں تقریرہو رہی تھی کہ شیخ سعد الدین حموی رحمتہ اللہ علیہ جو کہ شیخ کے مریدوں میں سے تھے۔دل میں خیال کرنے لگے کہ آیا اس امت میں بھی کوئی ایسا شخص ہے کہ جس کی صحبت کتے میں اثر کردے۔حضرت شیخ نے ولایت کے نور سے یہ بات معلوم کرلی ۔آپ اٹھے اور خانقاہ کے دروازہ پر کھڑے ہو گئے۔اتفاقاً ایک کتا وہاں پر آگیااور کھڑا ہوگیا ۔اپنی دم ہلا تا تھا۔شیخ کی نظریں اس پر پڑگئی۔اس وقت اس پر مہربانی ہوئی۔وہ متحیرو بے خود ہوگیا۔شہر سے منہ پھیرکر قبرستان چلا گیا۔زمین پر سر ملتا تھا ۔یہاں تک کہ جدھر وہ جاتا تھا پچاس ساٹھ کتے اکھٹے ہوجاتے اور اس کےگرد حلقہ لگا لیتے۔ہاتھ پر ہاتھ رکھ لیا کرتے اور آواز سے نہ بولتے ،اور نہ کچھ کھاتے بلکہ عزت کے ساتھ کھڑے رہتے۔آخر تھوڑے دنوں میں وہ کتا مر گیا ۔(ایضاً)
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے: جب تاتاریوں کافتنہ شروع ہوا۔اس وقت حضرت اپنی خانقاہ میں موجود تھے۔آپ نے اپنے مریدین سےفرمایا مشرق سے ایسافتنہ آرہاہے،کہ اس سے پہلے امت کےلئے کبھی ایسا فتنہ ظاہر نہیں ہوا۔مریدین نے عرض کیاآپ دعاء فرمائیں کہ وہ فتنہ ٹل جائے۔آپ نے فرمایا یہ ایک قضاء مبرم(قطعی)ہے۔دعا اس کو دفع نہیں کر سکتی۔پھرفرمایا تم میں سے جواپنےعلاقوں کی طرف جانا چاہے چلاجائے،مریدین نے عرض کیا قیمتی گھوڑے موجود ہیں،آپ بھی محفوظ علاقے کی طرف تشریف لےجائیں۔آپ نے فرمایا: ہمارے لئے ایک ہی راستہ ہے،اور وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ،اور شہادت۔جب تاتاری کفار شہر میں داخل ہوئے۔شیخ نے مریدوں کو بلایا اور کہا :قو موا باِسم اللہ، نقاتل فی سبیل اللہ۔ آپ گھر میں آئے اوراپنا خرقہ پہنا،کمرکو مضبوط باندھ لیا ،اس خرقہ کا اگلا حصہ کھلا تھا۔تاتاریوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔
آپ نے اپنے خلفا کی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ منگول قوم جو اسلام دشمنی میں پیش پیش تھی ،اوراسلام کومٹانے نکلی تھی۔تاتاریوں کے فتنے کوکون نہیں جانتا۔جنہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو بڑی بےدردی سے شہید کیا،مسجدوں،مدرسوں،اور لائبریریوں کوآگ لگادی۔لیکن آپ کے خلفاء نے انہی منگولوں میں تبلیغِ دین کا ایسا کام کیا کہ وہ گروہ درگروہ مسلمان ہوتے چلےگئے،اور اسلام کو دنیا سے ختم کرنیوالے اسلام کےمحافظ بن گئے۔اللہ اکبر۔تبھی توشاعرِ مشرق کاقلم پکارتا ہے۔
؏:
ہےعیاں فتنۂِ تاتارکےافسانےسے
پاسباں مل گئےکعبےکوصنم خانےسے۔
تاریخِ وصال: آپ 10/جمادی الاوّل 618ھ میں تاتاری لشکروں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔اس وقت حضرت شیخ کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی۔ شہادت کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک تاتاری سپاہی کے بال آگئے تھے۔ آپ نے انہیں اتنے زور سے پکڑا ہواتھا کہ شہادت کےبعد بھی دس کافر آپ کےہاتھ سے بال نہ چھڑا سکے،بالآخر وہ بال کاٹنے پڑے۔
ماخذومراجع: نفحات الانس۔خزینۃ الاصفیاء۔