شیخ نورالحق محدث دہلوی
آپ شیخ نور قطبِ عالم کے نام سے مشہور تھے اور شیخ علاء الحق کے بیٹے مرید اور خلیفہ تھے، ہندوستان کے بہت بڑے ولی اور صاحب ذوق و شوق اور صاحب کرامت بزرگ تھے۔
آپ اپنے والد محترم کی خانقاہ کے جملہ درویشوں اور فقیروں کی خدمت کرتے اور اپنے ہاتھ سے ان کے کپڑے دھویا کرتے اور ان کی ضروریات کے لیے پانی گرم کرکے دیا کرتے تھے، ابتداء میں آپ کے سپرد پانی کا انتظام تھا اتفاق سے ایک دن آپ پانی کے انتظام میں مصروف تھے کہ اچانک ایک فقیرکے پیٹ میں درد ہوا اور وہ سیدھا آبخانہ میں گھس آیا اور اسے اتنا بڑا دست آیا کہ جس سے نور الحق کے تمام کپڑے خراب ہوگئے، اتفاقاً اسی وقت آپ کے والد بزرگوار شیخ علاؤ الحق بھی وہاں سے گزرے تو اپنے فرزند نور الحق کو اس حالت میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اس کے بعد آپ کے سپرد ایک دوسرا کام کردیا گیا کہ اب یہ کام کیا کرو۔
شیخ حسام الدین مانک پوری کے ملفوظات رفیق العارفین میں لکھا ہے کہ شیخ نورالحق نے متواتر آٹھ برس اپنے مرشد کے گھر کی لکڑیاں چیری ہیں۔ شیخ نور الحق کے بڑے بھائی اعظم خاں جو اس وقت کی حکومت کے وزیر تھے، آپ کی یہ حالت دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ قاضی نورالحق! تم نے تمام خوبیاں غارت کردیں اور اپنی عزت خاک میں ملادی۔
ایک روز شیخ علاؤالدین نے نور الحق سے کہا کہ اے نورالحق! دیکھو یہ عورتیں جہاں پانی بھرتی ہیں وہ زمین مسلسل پانی کے قطرات گرنے سے گیلی ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے پاؤں کے پھسلنے اور گھڑوں کے ٹوٹنے کا اندیشہ ہے اس لیے تم ان لبریز اور بھرے ہوئے گھڑوں کو اپنی گردن پر اٹھا اٹھا کر ان عورتوں کو باہر لاکر دیا کرو، چنانچہ شیخ نور الحق نے چار برس تک یہ خدمت بھی انجام دی، آپ کے اکثر دوست اس جگہ سے جو عورتوں کے پانی بھرنے سے گیلی ہوجاتی تھی گھڑے باہر نکال کر آپ کے حوالہ کیا کرتے تھے اور آپ انہیں گردن پر اٹھا کر باہر لاتے تھے اس حالت کو دیکھ کر اکثر بنگالی لوگ آپ پر ہنسا کرتے تھے۔
شیخ نور الحق فرمایا کرتے تھے کی میرے مُرشد نے فرمایا ہے کہ بزرگان سلف نے اسماء الحسنیٰ کی طرح سلوک کی بھی ننانویں منزلیں مقرر کی ہیں تاکہ سالک ان تمام پر چل کر مکمل ہوسکے، اور ہمارے بزرگوں نے سلوک کی پندرہ منزلیں مقرر کی ہیں اور اس فقیر نے مختصر کرکے صرف تین مقرر کردی ہیں۔
منزل اول یہ کہ اللہ کے ہاں حساب ہونے سے پہلے ہی اپنے نفس کا محاسبہ کرلیا جائے۔
منزل دوم یہ کہ جس کے دو دن برابر رہے (نیکی نہ کرنے میں ) وہ خسارے میں ہے۔
منزل سوم یہ ہے کہ فقیر اس طرح عبادت کرے کہ دل کے تمام خیالات ختم کردے، ان تین طریقوں کی تکمیل کے بعد ان شاء اللہ سالک کی اپنی منزل بھی مکمل ہوجائے گی۔ نیز فرماتے ہیں کہ ایک دن شیخ عبادت الٰہی میں مشغول تھے کہ ان پر وجد کی حالت طاری ہوگئی، آپ اسی حالت میں گھر سے نکلے اور باہر ایک درخت کے نیچے جاکر بیٹھ گئے، غیب سے آواز آئی۔
حیات رہا کن عاشقا دیوانہ شو دیوانہ شو
آپ کے ملفوظات میں ہے کہ ایک دن آپ اپنی پالکی میں سوار تھے اور روتے ہوئے یہ مصرعہ پڑھ رہے تھے،
ہم شب بزاریم شد
آخر ایک بڑھیا بیوہ کے گھر تشریف لے گئے اور اس سے کچھ دینی مسائل دریافت کیے اور وہاں بھی روتے رہے اور اس کے گھر سے واپسی پر آپ نے فرمایا کہ اگر میری بخشش ہوئی تو اس بیوہ بڑھیا کے طفیل ہوگی، آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن میرے شیخ علاؤ الحق ایک سواری پر سوار کہیں جا رہے تھے اور بہت سے لوگ آپ کے ہمراہ پیدل چل رہے تھے وہ سب بیخودی اور مستی کے عالم میں تھے اور بے انتہاء گریہ و زاری کر رہے تھے، میں آگے جا رہا تھا تو شیخ نے فرمایا کہ اتنی مخلوق میری فرمانبردار ہے، ان میں سے بعض میرے پاؤں دباتے ہیں اور بوسے دیتے ہیں اور بعض مصافحہ کرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے روز یہی لوگ میرا سر کچل دیں، آپ فرماتے ہیں کہ میرے شیخ علاؤ الحق فرمایا کرتے تھے کہ ریاضت کی آخری حد یہ ہے کہ فقیر ہر وقت سوتے، جاگتے، اٹھتے بیٹھتے اپنے قلب کو یاد الٰہی عزوجل میں مشغول رکھے جیسے وہ بچہ جو سوتے وقت ایک کھیل میں مصروف تھا اور سو گیا جب وہ بیدار ہوگا تو اسی کھیل کو تلاش کرے گا اور پھر اسی میں مشغول ہوجائے گا۔
آپ فرماتے ہیں کہ میرے مرشد نے مجھے رخصت کرتے وقت یہ فرمایا تھا کہ اے نورالحق! سخاوت میں سورج کی مانند، تواضع و انکساری میں پانی کی مثل اور حلم و بردباری میں مٹی کی طرح ہوکر لوگوں کے جور و ستم کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہنا۔
آپ اپنے ملفوظات میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میرے پیر و مرشد علاؤ الدین سخت سردیوں کے زمانہ میں صرف گدڑی ہی پہنا کرتے تھے اور سجادہ پر کبھی نہ بیٹھتے تھے اور یہ فرمایا کرتے تھے کہ سجادہ پر بیٹھنے کا وہ حق رکھتا ہے جو اپنے دائیں اور بائیں نہ دیکھے۔
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ایک روز ایک آدمی نے شیخ علاؤ الدین کو ہر قسم کی گالیاں دیں، اس کی تمام گالیاں سننے کے بعد بھی شیخ کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہ آئی، اس گالیاں دینے والے نے آخر میں کہا، بیادزد اللہ (آ اے اللہ کے چور) تو شیخ نے کھڑے ہوکر اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ ہم اللہ کے ساتھ ہیں اور اللہ ہمارے ساتھ ہے، اتنا فرمانے کے بعد مرشد بیٹھ گئے اور اس کو بھی بیٹھنے کے لیے فرمایا، تو اس نے کہا کہ یہ زمین حرام ہے ، پھر آپ نے خادم سے کھانا لانے کو کہا، چنانچہ دستر خوان بچھایا گیا (اور اس سے کھانا کھانے کو کہا گیا) تو اس نے کہا کہ یہ مینڈک کا گوشت ہے میں نہیں کھاتا، آخر کار شیخ نے اسے ایک تنگہ (روپیہ) دیا وہ اسے لے کر چلا گیا، اس کے چلے جانے کے بعد شیخ نے لوگوں سے فرمایا کہ دیکھا فقیر نے کتنا شور کیا، نیز فرماتے ہیں کہ ایک آدمی خانہ کعبہ (زیارت کرکے دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم) سے واپس شیخ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت آپ سے میری ملاقات باب السلام میں ہوئی تھی، اس پر شیخ نے فرمایا کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ میں نے آج تک گھر سے باہر قدم تک نہیں رکھا (اس لیے مجھ سے ملاقات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا) البتہ بعض لوگ ایک دوسرے کے ہم شکل و ہم صورت ہوتے ہیں (اس لیے ہوسکتا ہے آپ نے میری ہم شکل کسی اور آدمی سے ملاقات کی ہو) اس نے کہا کہ حضرت بھلا ایسا ہوسکتا ہے، میں نے تو آپ کو خانہ کعبہ میں بھی دیکھا ہے آخرکار شیخ نے اسے کچھ دے کر رخصت کیا اور فرمایا کہ یہ واقعہ کسی سے نقل نہ کرنا۔
آپ کے ملفوظات میں ہے کہ شیخ نور الحق سے کچھ لوگوں نے دریافت کیا کہ مشائخ جو فرضی نمازوں کے بعد مصافحہ کرتے ہیں اس میں کیا راز ہے؟
آپ نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی مسافر سفر سے واپس آتا ہے تو وہ اپنے دوستوں سے مصافحہ کرتا ہے اور درویش جب نماز پڑھتا ہے تو وہ اس میں اس قدر مستغرق ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو بھی بھول جاتا ہے اور جب نماز ختم کرتا ہو تو گویا اس نے باطنی سفر طے کرلیا اور نماز میں سلام پھیرنے کے بعد اس کو اپنا شعور ہونے لگتا ہے اس لیے مشائخ با ہم یک دیگر سلام و مصافحہ کرتے ہیں۔
شیخ نور الحق یعنی نور قطب عالم کے خطوط کے اندر وہ شیرینی، اور الفاظ کے معنی میں وہ لطف و سرور ہے جو دل والوں کے دل کا علاج اور اہل محبت کے لیے محنت کا پیغام ہے، آپ کے مکتوبات میں سے چند کلمات نقل کیے جاتے ہیں۔
مکتوب
از جانب نور۔۔۔۔۔۔ بجانب نجم
بیچارے مسافر اور غم کے زخمی نور کی عمر ختم ہونے کے قریب ہے اور حال یہ ہے کہ ابھی تک گوہر مقصود دستیاب نہیں ہوسکا، میدان تیہ اور حسرت میں گنبد کی طرح لڑھکتا رہا۔
ہمہ شب بزاریم شدکہ صبانداد بوئے
ندمید صبح بختم چہ گنہ نہم صبارا
عمر ساٹھ برس سے بھی زائد ہوچکی ہے،گویا تیر کمان سے نکل چکا ہے تمام زندگی نفس امارہ کے شر و فساد کے چکر سے ایک لمحہ بھی خالی نہیں گزرا اور فضا میں خالی ہاتھ مارتا رہا، دل میں آگ سلگتی رہی، آنکھوں سے آنسو جاری رہے، سر پر خاک پڑتی رہی لیکن بجز ندامت کے اور کچھ نہ ملا، اور آہ و بکاء سے محفوظ رہ سکا، اے بھائی! درد و غم کے خوگر بن جاؤ۔
دل مردان دیں پر درد باید
ز محنت فرق شاں برگرو باید
اگرچہ میں نے تمام قسم کی محنتیں اور کوششیں کی ہیں مگر مجھے تو ابھی تک اپنی منزل مقصود تک رسائی نہیں ہوسکی۔
گفتم مگر کہ کار بسامان خود نشد
یاراز جفائے خویش پشیماں شودنشد
گفتم مگر زمانہ عنایت کندنکرد
بخت ستیزہ کار بفرماں شود نشد
دنیا دھوکے کی جگہ ہے اور تم اس درخت کے تنہ کی مانند ہو جس کے اوپر سے اس کی چھال اتار لی گئی ہو اور اللہ کی ذات بڑی غیور ہے، ان حالات کے ہوتے ہوئے دل میں فرحت و سرور کیسے آسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو بذریعہ وحی مطلع فرمایا کہ اے داؤد! اپنی امت کے گناہگار بندوں سے فرمادے کہ میں گناہ گاروں کے گناہ بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں اور جو لوگ صدیقین ہیں ان سے فرمادیجیے کہ میں بڑا غیرت مند ہوں (اس لیے وہ ذرا ہوشیار ہوکر رہیں)۔
راہ ناایمن است و منزل دور
مرکبت لنگ دیار سخت غیور
سو غیرت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ بندے اور اللہ کے درمیان اور کوئی نہ رہے اور جس نے اس اللہ کے بغیر پرواز کی اس کو ختم کردیا۔
باہر کہ انس گیری ازدسوختہ شوی
بنگر کہ انس چیت و مصحف زآتش است
اسلامی بھائی! میں نے برسہا برس اس بات پر خرچ کردیے کہ اس نفس امارہ کو اپنا بنالوں مگر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے شر و فساد سے محفوظ نہ رہ سکا اور اس نے ایک منٹ بھی آرام سے نہ رہنے دیا۔
کردیم بسے سپید رسمے
ازما نشدایں سیہ گلیمے
شستیم بسے بچارہ سازی
پیراہن مانشد نمازی!
آپ کے مکتوبات میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ درویش کو بیقراری میں قرار و سکون آتا ہے، درویش کے عبادت ما سوی اللہ سے بیزاری اور علیحدگی ہے اللہ کی عبادت کے بغیر اور کسی چیز میں مشغول ہونا (درویش کے نزدیک) گرفتاری ہے اور دل کا باطن کے ماسوا کسی اور چیز میں استغراق بیکار محض ہے اور عبادت کو ظاہر کرنا بدکاری ہے، اپنا خون جگر پینا بزرگواری ہے اور غیر سے آنکھیں بند کرلینا برخورداری ہے، عام لوگ اپنے ظاہر کو پاک کرنے کی کوشش اور سعی کرتے ہیں اور خواص ہمہ وقت اپنے باطن کی پاکیزگی کے پروگرام بناتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی جلال سے بھری ہوئی آواز آ رہی ہے کہ اے میرے بندے! تو نے اپنے جسم کو پاک و صاف کرنے میں ایک مدت صرف کردی لیکن کیا کسی وقت تو نے اس جگہ کو بھی صاف کیا جس سے میں دیکھا جاسکتا ہوں اور یونہی تو نے تمام عمر لیٹ کر گزار دی، ظاہری طہارت تو بدن سے کسی چیز کے نکلنے اور پیشاب و پاخانہ کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے اور باطنی طہارت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی یاد کرنے سے ختم ہوجاتی ہے، مشائخ کرام کا مقولہ ہے کہ جس کے دل میں دنیا کا خیال آجائے تو اس کو اس طرح غسل کرنا چاہیے جس طرح جنابت کا غسل کرتے ہیں، کسی چیز کو دل میں جگہ نہ دو اور کسی غیر اللہ کی محبت کو دل میں نہ آنے دے کیونکہ تمام مخلوق بد عہد و بے وفا ہے، شیخ نورالحق کی 813ھ میں وفات ہوئی آپ کی قبر شہر پنڈوہ میں ہے۔
دل سے دُنیا کی محبت دور کر
دل نبی کے عِشق سے معمور کر
(مثنویٰ عطار)
اخبار الاخیار