حضرت شیخ صدر الدین محمد بن اسحق قونیوی علیہ الرحمۃ
آپ کی کنیت ابو المعالی ہے۔جامع معلوم تھے،خواہ ظاہری ہوں یا باطنی ۔خواہ نقلی ہو یا عقلی۔ان میں اور خواجہ نصیر الدین طوسی میں سوال و جواب ہوئے ہیں۔مولانا قطب الدین علامہ شیرازی حدیث میں ان کے شاگرد ہیں۔علامہ نے کمال جامع الاصول کو اپنے ہاتھ سے لکھ کر ان کے حضور میں پڑھا ہےاور اس پر فخر کرتے تھےاور اس گروہ صوفیہ میں سے شیخ موید الدین جندی ،مولانا شمس الدین رایکی ،شیخ فخر الدین عراقی ،شیخ سعد الدین فرغانی قدس اللہ تعالی ارواحہم وغیرہ اکابر ان کی بیعت کو گود میں آئے ہیں اور ان کی صحبت میں پرورش پائی ہے۔آپ شیخ سعد الدین حموی کی صحبت میں بہت رہے ہیں اور ان میں سے سوالات کیے ہیں۔شیخ بزرگ رحمتہ اللہ علیہ اس وقت میں کہ بلاد مغرب میں روم کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔اپنے بعض مشاہدہ میں اپنی ولادت اور استعداد علوم وتجلیات ،احوال مقامات اور جو کچھ تمام عمر میں ہوااور بعد مفارقت کے عالم برزخ میں جو ہوا اور بعد برزخ کے جو ہو۔غرض آپ کو سب کچھ دکھایا گیا تھا۔بل شھدا حوال اولاد الا لھین ومشاہدھد و مقاماتھم و تجلیاتھم واسماء ھم عنداللہ وحبلہ کل واحد منھم واحو الھم واخلا قھم وکل مایجری لھم وعلیھم الی اخر اعمار ھم ویعد الفرقۃفی برزخھم وما بعدھایعنی بلکہ دیکھ ایسا اپنی للھی اولاد کے حالات،مشاہدات،مقامات،تجلیات اور ان کے نام جو خدا کے نزدیک ہیں۔ان میں سے ہر ایک قبیلہ احوال،اخلاق اور جوکچھ معاملہ ان کے لیے یا ان پر ہوگا۔ان کی تمام عمریں اور ان کے مقامات دنیا کے بعد عالم بزرخ میں اور اس کے مابعذ جو کچھ ہوگا۔سب کو دیکھ لیا تھا۔آپ کی ولادت کے بعد اور آپ کے والد کے انتقال کے بعد آپ کی والدہ شیخ (اکبر)کے نکاح میں آئیں۔آپ نے شیخ کی خدمت وصحبت میں تربیت پائی۔آپ شیخ کے کلام کے نفاد (پرکھنے والے)ہیں مسئلہ وحدت الوجود میں شیخ کا مقصود اس طرح سے کہ عقل و شرح کے مطابق ہو۔آپ کی تحقیقات کے تتبع بغیر سمجھنا آسان نہیں ہوسکتا۔آپ کی تصنیفات ہیں۔جیسے "تفسیر فاتح"،"مفتاح الغیب"،"فصوص وفکوک"،"شرح حدیث"،"کتاب نفحات الالہیہ"کہ آپ نے بہت سے قدسیہ وارادت کا وہاں پر ذکر کیا ہے اور جو شخص چاہے کہ اس طریق میں ان کے کمال پر مطلع ہو اس کو کہہ دو کہ اس کا مطالعہ کرے کیونکہ انہوں نے اس میں سے اپنے بہت سے احوال ذوق ، مکاشفات منازلات کا ذکر کیا ہے۔وہاں لکھا ہے کہ سترہ شوال ۶۳۵ھ میں لمبی خواب میں حضرت شیخ (اکبر)کو میں نے دیکھا ۔مجھ میں اور ان میں بہت سی باتیں ہوئیں۔آثار احکام ،اسماءالہیہ میں میں نے چند باتیں کہیں۔میرا بیان ان کو بہت اچھا معلوم ہوا چنانچہ ان کا چہرہ خوشی کے مارے دمکنےلگا۔اپنے سر مبارک کو مزہ سے ہلانے لگے اور بعض باتوں کو دوہرانے لگے اور کہنے لگے ملیح،ملیح یعنی یہ بہت اچھی باتیں ہیں۔میں نے کہا ،اے میرے سردار ملیح تو تم خود ہو کہ تمہیں یہ قدرت ہے کہ آدمی کو تربیت کرو اور ایسی جگہ پر پہنچادو کہ ایسی باتوں کو دریافت کرلیا کرے اور مجھے اپنی جان کی قسم ہے ،اگر تم انسان ہو تو تیرےما سوالوگ سب لاشے ہیں۔اس کے بعد ان کے نزدیک ہوا۔ان کو چوما اور کہا کہ مجھے تم سے ایک مطلب باقی رہا ہے۔کہا کہ مانگ ۔میں نے کہا،میں چاہتا ہوں کہ مجھ کو ابدی شہود تجلی ذاتی کی کیفیت آ کی طرح حاصل ہوجائے۔وکنت اعنی بذلک حصول ماکان حاملا لہ من شھود التجلی الذاتی الذی لا حجاب بعدہ ولا ستقر للمکلمل دونہیعنی میرا مقصود اس سے یہ تھاجو کچھ ان کو ذاتی تجلی کا شھود ہوگیا ہے۔جس کے بعد کوئی حجاب نہیں ہےاور کاملین کا ٹھکانا،اس کے سوا نہیں ہے۔مجھ کو بھی وہی حاصل ہوجائے۔تب آپ نے کہا کہ ہاں میں نے وسال کو مان لیا اور کہا جو کچھ تم چاہتے ہو دیا گیا۔باوجود یہ کہ تم خود جانت ےہو کہ میری اولاد اور مرید تھے۔ان میں سے بہت کو میں نے مارااور زندہ کردیا۔مرا جو مرا اور کشتہ ہوا۔جو کشتہ ہو ا کسی کو یہ مطلب حاصل نہ ہوا۔میں نے کہا،اے سیدی الحمدللہ علی اختصاصی بھذہ التفصیلہ اعلم انک تحیی وتمیتیعنی خدا کی اس امر پر تعریف ہے،جو اس نے مجھے اس فضیلت سے حاصل خاص کردیا ہےاور جان لے کہ تم زندہ اور مردہ کرتے ہو ۔میں نے اور باتیں بھی کہیں۔جن کا اظہار مناسب نہیں ۔اس کے بعد اس واقعہ سے باہر نکل آیا،یعنی جاگ آگئی۔والمنۃ اللہ علی ذلک یعنی خدا کا اس پر احسان ہے۔ان میں اور مولانا جلال الدین رومی قدس سرھما میں خصوصیت صحبت بہت رہی ہے۔ایک دن بڑی مجلس تھی اور قونیہ کے بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔شیخ صدر الدین صفہ کے صدر میں سجادہ پر بیٹھے ہوئے تھےاور مولوی آئے۔شیخ نے اپنا مصلیٰ ان کے لیے چھوڑا۔مولانا نہ بیٹھے اور کہا کہ میں قیامت کوکیا جواب دوں گاشیخ کے سجادہ پر بیٹھ گیا۔شیخ نے فرمایا کہ ایک گوشہ پر آپ بیٹھ جائیں اور ایک گوشہ پر میں بیٹھ جاتا ہوں مولانا بیٹھ گئے شیخ نے فرمایا کہ سجاد ہ پر تم کوبیٹھنا نہیں چاہیےتو ہم کو بھی نہیں چاہیے۔سجادہ کو اٹھا کر دور پھینک دیا۔مولانا انس سے پہلے فوت ہوئے تھے اور اپنے جنازہ کی نماز کی وصیت ان کو کی تھی۔کہتے ہیں کہ شیخ شرف الدین قونیوی نے شیک صدر الدین علیہ الرحمۃما سے پوچھا۔من این الی این وما الحاصل فی البینیعنی کہا ں سے کہاں تک اور کیا حاصل ہوااور اس درمیان میں نے شیخ کو جواب دیا۔من العلم الی العین والحاصل بین تجدو لتیۃ جامعۃ بین الطرفین ظاھرۃ ناظرۃ بالحکمین یعی علم سے موجودات خارجیہ تک اور اس میں حاصل یہ ہے کہ بسنت جامع کی تجدید ہو جائے،جو کہ دونوں طرفوں میں ہے۔جو کہ ظاہرو ناظر دو حکم کی ہیں
(نفحاتُ الاُنس)