حضرت شیخ شاہ بلاول لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شاہ بلاول اسمِ گرامی، والد کا نام سیّد عثمان بن عیسیٰ تھا۔ آپ کے آباؤ اجداد ہمایوں بادشاہ کے ہمراہ ہرات سے ہندوستان میں آئے اور موضع شیخوپورہ میں آباد ہوگئے۔ شاہ بلاول کی ولادت بھی یہیں ہوئی۔ لاہور میں علومِ ظاہر و باطن کی تحصیل کی۔ سلسلۂ قادریہ میں شاہ شمس الدین قادری لاہوری قدس سرہٗ کے مرید و خلیفہ تھے۔ متاخرینِ مشائخ میں بڑے پایہ کے بزرگ گزرے ہیں۔ اپنے عہد کے عالم و فاضل، متقی و متشرع صائم الدہر اور قائم اللیل تھے۔ کتاب محبوب الواصلین جو خاص آپ کے ذکر میں لکھی گئی ہے۔ اس میں مرقوم ہے کہ آپ مادر زاد ولی تھے سات برس کا سن تھا کہ ان کا ایک ہم عمر لڑکا فوت ہوگیا۔ آپ یہ سن کر اس کے سرہانے گئے اور کہا اے یار بے وقت سونا اچھا نہیں ہے آؤ چل کر کھیلیں۔ لڑکے نے اسی وقت آنکھیں کھول دیں اور اٹھ کر ساتھ چلا گیا۔ آپ کے دادا سید عیسیٰ نے جب یہ سنا تو آپ کو شیخ فتح محمد لاہوری جو اپنے عہد کے جیّد علما سے تھے، کے حلقۂ درس بھیج دیا۔ آپ نے تھوڑی ہی مدت میں علوم ظاہری میں بھی کمال حاصل کرلیا۔
ایک روز آپ دریائے راوی کے کنارے جارہے تھے کہ حضرت شاہ شمس الدین قادری لاہوری کشتی سے اُترے۔ آپ نے فوراً شیخ بلاول کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی ذات کی معرفت کے لیے پیدا کیا ہے۔ میری صحبت میں رہو اور فیضِ باطن جو میرے پاس تمہاری امانت ہے اسے حاصل کرو۔ شیخ بلاول یہ سنتے ہی آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے اور خدمتِ مرشد میں حاضر رہ کر بے اندازہ ظاہری و باطنی کمالات اکتساب کرکے خرقۂ خلافت پایا۔ مرجع خلائق تھے۔ خاص[1] و عام آپ کے خدمت میں حاضر ہونا باعثِ فخر و افتخار سمجھتے تھے۔ استغنا اور فقرو غنا میں ممتاز الوقت تھے۔
ایک روز آپ کے مرشد دریا کے ایک درخت کے سایہ میں آرام فرما رہے تھے اور آپ حاضرِ خدمت تھے کہ ایک جاٹ نے آکر درخت سے لکڑیاں کاٹنی شروع کردیں۔ آپ نے ہر چند اسے منع فرمایا مگر وُہ باز نہ آیا۔ آپ نے اس کی جانب نگاہِ غضب سے دیکھا وُہ اسی وقت گِر کر مرگیا۔ حضرت شیخ شمس الدین نے بیدار ہوکر فرمایا: ہم فقیروں کے لیے ایسا جلال و غضب رو انہیں ہے اب مناسب یہی ہے کہ حضرت شاہ ابواسحاق کے ایک حجرے میں خلوت نشین ہوکر تلاوتِ قرآن میں مشغول ہوجاؤ۔ چنانچہ بلاول کئی سال وہاں رہے اور یہ مدت تلاوت اور نماز روزہ میں گزار دی۔
صاحبِ محبوب الوصلین لکھتے ہیں کہ محلہ شیخ ابواسحاق میں آپ کے ہمسایہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور رسم کے مطابق بھانڈ مبارک باد لینے کے لیے آئے وہ بڑا تنگ دست اور مفلس تھا۔ آپ اس کے حال سے واقف تھے۔ آپ ایک مٹی کا لوٹا لے کر حجرے سے باہر آئے اور اُسے دیوارِ ہمسایہ پر مار کر توڑ ڈالا۔ تمام ٹکڑے زرِ خالص بن گئے جنہیں نقال اٹھا کر لے گئے۔ اور ہمسایہ کو ان سے خلاصی ہوئی۔
آپ کی خانقاہ میں لنگر عام جاری تھا۔ دونوں وقت لوگوں کو کھانا ملتا تھا۔ آپ خود بھی بڑے خوش پوشاک تھے لنگر خانہ میں ہر قسم کا سامان موجود رہتا تھا۔ ایک رات ایک چور سامان چرانے کی غرض سے باورچی خانہ میں داخل ہوا مگر حکم الٰہی سے اندھا ہوگیا اور ایک کونے میں چھپ کر بیٹھ رہا۔ صبح آپ نے خادمِ باورچی خانہ کو بلایا اور کہا باورچی خانہ میں ایک اندھا بیٹھا ہوا ہے اُسے بُلا کر دُگنا کھانا دو وہ رات سے بھوکا ہے۔ داروغہ باورچی خانہ میں اسے کھانا دینا چاہا۔ اس نے کہا مجھے کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ مجھے حضرت شاہ بلاول کے پاس لے چلو۔ چنانچہ جب آپ کی خدمت میں حاضر تو سر قدموں پر رکھ کر معافی مانگی۔ حلقۂ ارادت میں داخل اور آپ کی دعا سے بینا ہوگیا۔ صاحب محبوب الواصلین نے آپ کی روزانہ تقسیمِ اوقات اس طرح تحریر کی ہے: صبح سے چاشت تک مصروفِ مراقبہ و عبادت رہتے۔ پھر اپنے ہاتھ سے کھانا تقسیم فرماتے۔ دوپہر کے بعد ایک گھنٹہ قیلولہ کرتے پھر ظہر کی نماز باجماعت ادا کرتے۔ پھر حلقۂ مریداں میں تشریف لاتے اور ذکر و فکر میں مشغول ہوجاتے۔ اس اثناء میں لوگ بیماروں کو شفایاب کرانے کے لیے پانی کے کوزے لے کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ شیخ دعا پڑھ کر اس پر دم کرتے۔ اس طرح سینکڑوں بیمار شفایاب ہوجاتے۔ اس کے بعد دو منشی حاضر ہوتے جو حاجت مندوں کے لیے بادشاہ اور امراء کی طرف آپ کی جانب سے سفارشی رقعے لکھتے ان پر صرف ‘‘اللہ بس باقی ہوس’’ ہی لکھا ہوتا۔ بادشاہ اور امیر آپ کی سفارش منظور کرتے اور حاجت مندوں کی غرض پوری ہوجاتی۔ نمازِ عصر کے بعد پھر مراقبہ اور ذکر و فکر شروع ہوجاتا۔ شام کو پانی کے گھونٹ سے روزہ افطار کرتے۔ پھر کھانا تقسیم کرنے کے لیے باہر تشریف لاتے۔ تقسیمِ طعام کے بعد خود جَو کی روٹی چولائی کے ساگ کے ساتھ تناول فرماتے وہ بھی چند نوالے۔ پھر عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر حجرۂ خاص میں تشریف لے جاتے اور نمازِ تہجد تک تین قرآن ختم کرتے۔
ایک روز شیخ ابو طالب جو وہ ہزاری منصب دار اور آپ کا مرید تھا۔ حاضرِ خدمت ہوا۔ عرض کیا کہ میرے دیہات کی جاگیر میں بارش نہیں ہوئی۔ دعا فرمایئے آپ نے آسمان کی طرف منہ کرکے دُعا کی۔ فوراً ابر نمودار ہوا۔ آپ نے فرمایا: جا اور ابو طالب کی جاگیر پر برس۔ بادل وہاں سے اُڑا اور اس کی جاگیر پر جا کر برسا۔
دو شنبہ ۲۸؍ شعبان ۱۰۴۶ھ کو بعہدِ شاہ جہان ستّر برس کی عمر میں وفات پائی۔
ز دنیا شد چو در خلدِ معلّٰی |
|
جنابِ شہ بلاول شاہِ شاہاں |
|
نیز حدیقۃ الاولیا میں اردو میں قطعۂ تاریخ درج ہے۔
شاہ بلاول شاہِ عالی جاہ تھے |
|
حضرتِ حق سے مِلا اُن کو بہشت |
|
مزار گھوڑے شاہ اور باغ راجہ دینا ناتھ کے نزدیک واقع ہے۔ پہلے آپ کا مقبرہ دریائے راوی کے قریب تھا۔ ۱۲۵۲ھ میں دریائے راوی مقبرے کے بالکل قریب بہنا شروع ہوگیا تو اس خدشہ سے کہیں مزار کو نقصان نہ پہنچے۔ آپ کی نعشِ مبارک کو وہاں سے نکال کر اس جگہ دفن کیا گیا۔
[1]۔ ملا عبدالحمید لاہوری اپنی کتاب بادشاہ نامہ میں رقم طراز ہیں: شاہجہان بادشاہ تخت نشینی کے بعد ۱۰۳۸ھ کو لاہور آیا ۱۵؍رمضان کو جہانگیر کے مزار کی زیارت کی وہاں دس ہزار روپیہ غربا میں تقسیم کیا۔ حضرت میاں میر کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ کچھ رقم حضرت میاں میر کی خدمت میں نذر کی مگر آپ نے قبول نہ فرمائی۔ ۱۹؍ تاریخ کو شیخ بلاول کو دو ہزار روپیہ نذر کیا جو انہوں نے کچھ تو درویشوں میں تقسیم کردیا باقی خادمِ مطبخ کے حوالے کردیا کہ درویشوں اور مسافروں پر خرچ ہو۔ وہ زاہد و پرہیز گار درویش تھے اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے تھے۔ بادشاہ نے حضرت بلاول سے پوچھا حضرت میاں میر نے میرا نذرانہ قبول نہ کیا اور آپ نے کرلیا۔ فرمایا حضرت میاں میر کلی صفات کے حامل ہیں ان کی توجہ دنیا کی طرف نہیں ہے۔ ہمارے ہاں درویش اور مسافر آرام پاتے ہیں اور لنگر خانہ موجود ہے جہاں سے ان کو کھانا ملتا ہے اس لیے ہمیں روپیہ کی بھی ضرورت رہتی ہے۔ واپسی پر بادشاہ و رعایا حضرت میاں میر کے پاس گئے۔ عرض کیا آپ نے میری پیش کش قبول نہ فرمائی مگر حضرت شاہ بلاول نے قبول فرمالی۔ فرمایا: وہ بزرگ ولی کامل در یاکی مانند ہیں۔ میں اُن کے سامنے ایک معمولی تالاب ہُوں۔ دریا میں اگر کوئی پلید چیز پڑجائے تو وہ پلید نہیں ہوتا لیکن تالاب پلید ہوجاتا ہے۔ بادشاہ یہ سُن کر جب قلعہ میں گیا تو سجدہ شکر بجالایا اور کہا الحمداللہ میرے زمانے میں ایسے بزرگ بھی ہیں، جن کا رضائے الٰہی کے سوا اور کوئی مقصد نہیں۔
داراشکوہ سفینۃ الاولیاء میں لکھتا ہے: یہ فقیر بھی آپ کی خدمت میں حاضر دے چکا ہے۔ آپ کے چہرے پر ریاضت و مجاہد کے نشانات ظاہر تھے۔ روزانہ کافی لوگ آپ کی خدمت میں آتے جاتے تھے۔
حضرت شاہ بلاول(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شاہ بلاول قبلہ،اہل تحقیق ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ کےآباؤاجدادہرات کےرہنےوالےتھے۔شہنشاہ ہمایوں کےہمراہ ہرات سےہندوستان آئے،وہ شیخوپورہ میں آبادہوئے۔آپ کےداداسیدعیسیٰ ایک باکمال بزرگ تھے۔
والد:
آپ کےوالدکانام سید عثمان ہے۔
ولادت:
آپ ۹۷۶ھ میں شیخوپورہ میں پیداہوئے۔
نام:
آپ کانام سید بلاول ہے۔
تعلیم وتربیت:
آپ کےدادانےتعلیم حاصل کرنےکےواسطےآپ کولاہوربھیجا۔لاہورمیں آپ نے شیخ فتح محمدسے تعلیم حاصل کی۔تھوڑےعرصےمیں آپ تحصیل علوم ظاہری سےفارغ ہوئے۔
بیعت و خلافت:
ایک دن دریاکےکنارےآپ کی حضرت شیخ شمس الدین سےملاقات ہوئی،انہوں نےفرط محبت سے آپ کا ہاتھ پکڑااورآپ کو صحبت میں رہنےکی تاکید کی اورآپ سے فرمایاکہ۔
"تمہاراحصہ میرےپاس ہے،وہ امانت ہے،اس کومجھ سےلو"۔
آپ حضرت شیخ شمس الدین کےمریدہوئے،وہ مریداورخلیفہ حضرت شیخ ابواسحٰق کےتھےاور حضرت شیخ ابواسحاق مریداورخلیفہ حضرت شیخ داؤدجہنی وال کےتھے،۲؎کچھ دن بعدخرقہ خلافت سے سرفرازہوئے۔
وفات:
آپ نے۲۸شعبان ۱۰۴۶ھ کووفات پائی اورآپ کامزاراسی موضع میں لاہورکےقریب ہے،جس میں آپ رہتےتھے۔۳؎
سیرت:
آپ صائم الدہراورقائم الیل تھےاورزہدوورع میں امتیازی شان رکھتےتھے۔آپ کےچہرےسے آثارریاضت نمایاں تھے۔ابتداء میں آپ کوجلال بہت تھا۔ایک مرتبہ ایساہواکہ آپ کےپیرو مرشددریاکےکنارےایک پیڑکےنیچےسورہےتھےاورآپ برابرمیں کھڑےتھے،ایک شخص آیا اورلکڑیاں توڑنےلگا۔آپ نےمنع کیاکہ جب ان کےپیرومرشدجاگ جائیں،تب پیڑ پرچڑھنا اور لکڑیاں توڑنا،وہ شخص پیڑپرسےنیچےگرااورفوراًمرگیا۔
تھوڑی دیرکےبعدآپ کےپیرومرشدبیدارہوئے،اس شخص کومراہوادیکھ کرسب حال پوچھا، آپ نےجوکچھ ہواتھا،وہ سب اپنےپیرومرشدکےگوش گزارکیا۔
آپ کےپیرومرشدنےسن کرفرمایاکہ اچھی بات نہیں کہ جو اپنےکوفقیرکہتے ہیں،وہ غصہ کریں، جلالی کیفیت سےبازآنے کی یہ ترکیب ہےکہ ایک حجرےمیں تن تنہارہ کرقرآن پاک کی تلاوت میں مشغول رہو۔چنانچہ کئی سال آپ ایک حجرےمیں رہےاورتلاوت قرآن پاک میں مصروف رہے"۔
آپ کی پوشاک مکلّف ہوتی تھی،آپ کالنگرعام تھا،آپ کی مرغوب غذاچولائی کاساگ تھا۔رات کو تین قرآن ختم کرتے،لوگ پانی کاکوزہ لےکرآپ کی خدمت میں حاضرہوتے۔آپ اس پر کچھ
پڑھ کردم کرتے۔وہ پانی مریضوں کوپلایاجاتا،بہت سےمریض اس کی برکت سے اچھےہوتے۔۴؎
کرامات:
ایک چوربہ نیت چوری آپ کےباورچی خانےمیں داخل ہوا۔داخل ہوتےہی اندھاہوگیا۔صبح ہونے پرآپ نےداروغہ باورچی خانےسےفرمایاکہ ایک شخص باورچی خانہ میں چھپابیٹھاہے،اس کو دوناحصہ دوکہ وہ رات سے بھوکاہے۔جب وہ شخص آپ کےسامنےلایاگیا،معافی کاخواستگارہوا، مریدہوااوراس کو دکھائی دینےلگا۔
ایک مرتبہ آپ کا ایک مریدشیخ ابوطالب آپ کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کیاکہ بارش نہ ہونےسےفصل خراب ہونےکااندیشہ ہے،وہ دعاکاطالب ہوا،آپ نےدعاکی،اس کےعلاقےمیں خوب بارش ہوئی۔
حواشی
۱؎محبوب الواصلین
۲؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)ص۱۹۸
۳؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)ص۱۹۹
۴؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)ص۱۹۹
۵؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)ص۱۹۹
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)