حضرت شیخ الاسلام احمدالنامقی الجامی علیہ الرحمۃ
آپ کی کنیت ابو نصر احمد بن ابی الحسن ہے اور وہ جریر بن عبداللہ الجبلی ؓ کے فرزندوں میں سے ہیں کہ جو رسولﷺکے سال وفات میں ایمان لائے تھے۔قال رضی اللہ عنہ ما حجبنی رسول االلہ صلی اللہ وسلم منذاسلمت ولا ارانی الا تبسم فی وجھی یعنی اے جب سے مسلمان ہواہوں رسولﷺ نے مجھے کبھی کسی کام سے روکا نہیں اور جب مجھے دیکھتے آپ ہنس پڑتے۔وہ بلند قامت اور بڑے حسین تھے۔حضرت امیر المومنین عمرؓ ان کو اس امت کے یوسف کہا کرتے تھے۔حضرت شیخ کو پروردگارنے بیالیس فرزند دیے۔۳۹ لڑکے اور ۳ لڑکیاں۔ان کے انتقال کےبعد۱۴لڑکے اور ۳ لڑکیاں باقی ہیں۔
اور یہ چودا بیٹے تمام عالم عامل کالم صاحب تصانیف کرامت صاحب ولایت مقتدا پیشوا گزرے ہیں۔آپ امی تھے کہ ۲۲سال میں توبہ کی توفیق پائی تھی۔پہاڑ پر چلے گئے تھےاور ۱۸ سال کی ریاضت کے بعد چالیسویں سال میںان کو لوگوں میں بھیجا۔لدنی علم کے دروازے ان پر کھول دیے گئے اور ۳۰۰ سے زائد کاغذ کے دستے علم توحید معرفت علم سیر و حکمت روشن طریقت اسرار حقیقت میں وہ تصنیف کیے ہیں کہ کوئی عالم حکیم اس پر معترض نہیں ہوا،اور نہ اعتراض کرسکے۔یہ تمام تصنیفات آیات قرآن و اخبار رسولﷺ سے مقید اور موید ہیں۔حضرت شیخ علیہ الرحمۃ کتاب سراج السائرین میں فرماتے ہیں کہ میں ۲۲ سال کا تھاکہ پروردگار نے اپنی عنایت سے مجھ کو توبہ نصیب کی اور چالیس کا سال تھاکہ لوگوں میں بھیجا اب ۶۲سال کا ہوں کہ اس کتاب کو حکم خدا سے جمع کرتا ہوں۔
اور اس وقت ایک لاکھ اسی ہزار مرد میرے ہاتھ پر توبہ کرچکے ہیں ۔اس کے بعد آپ بھی کئی برس تک زندہ رہے۔شیخ ظہیرالدین عیسیٰ کہ آپ کے فرزندوں میں سے ہیں ۔رموزالحقائق میں لکھتے ہیں کہ میرے باپ کے ہاتھ پر آخر عمر تک ۶لاکھ مرد توبہ کرچکے ہیں۔گناہ کی راہ سے بندگی کے طریقہ پر آگئےہیں۔شیخ ابو سعیدابوالخیرقدس اللہ تعالی سرہ کا خرقہ تھاجس میں عبادت کیا کرتے ۔ایسا کہتے ہیں کہ یہ خرقہ ابو بکر صدیقؓ سے میراث کے طور پر مشائخ کے لیے چلا آیا تھا۔یہان تک کہ شیخ ابو سعید ابوالخیر کی باری آئی۔ان کو دکھلایا گیا کہ وہ خرقہ احمد کے سپرد کر دیں۔تب آپ نے اپنے فرزند شیخ ابو طاہر کی وصیت کی کہ میری وفات کے چند سال بعد ایک جوان نو خط ،بلند قدر گربہ چشم جس کا نام احمد ہوگاتمہاری کانقاہ کے دروازے سے آئےگا اور تم میری جگہ اپنے یاروں میں بیٹھے ہوئے ہوگے۔خبردار کہ اس خرقہ کو انہیں کے سپرد کردینا۔
جب شیخ کا انتقال ہواشیخ ابوطاہر کی یہ خواہش ہوگئی کہ جو ولایت حضرت شیخ کو تھی وہ مجھےسونپ دیں۔شیخ نے آنکھ کھولی اور کہا جس ولایت کے تم طمع رکھتے ہووہ دوسرے کو سپرد کردی گئی اور ہماری شیخی کے علم کو خرباتی کے دروازہ پر دے ماراجو کام ہمارے متعلق تھااس کو سپرد کر دیا گیا۔کوئی جانتا نہیں کہ یہ بات کیا ہے۔یہاں تک کہ شیخ کی وفات کہ چند سال بعد شیخ ابو طاہر نے خواب میں دیکھاکہ شیخ ابوسعید یاروں کی ایک جماعت کے ساتھ جلد جلد جا رہے ہیں۔ ابوطاہرنے پوچھا کہ اے شیخ کیوں آپ جلد چلے جارہے ہیں۔شیخ نے کہا تم بھی چلو کہ اولیاء کے دل آتے ہیں۔شیخ ابو طاہر نے چاہا کہ چلیں لیکن بیدار ہو گئے۔دوسرے دن شیخ ابو طاہر خانقاہ کے دروازے پر بیٹھے تھےکہ ایک جوان اسی صفت کا آیا کہ شیخ نے کہا ہوا تھا ۔شیخ ابو طاہر اسی وقت معلوم کر گئے اور ان کی بڑی عزت کی لیکن جیسے کہ بشریت کا تقاضہ ہوتا ہےدل میں سوچے کہ باغ کا خرقہ کیوں کر ہاتھ سے دے ڈالو۔
اس نوجوان نے کہا اے خواجہ امانت میں خیانت جائز نہیں خواجہ ابو طاہر بہت خوش ہوئے چنانچہ اٹھے اور اس خرقہ کو شیخ ابو سعید نے اپنے ہاتھ سےمیخ پر لگایاہوا تھا اور اس روز تک وہیں تھا ،لائے اوراس جوان کے سر پر ڈال دیا ۔کہتے ہیں کہ اس خرقہ کو بائس مشائخ نے پہنا تھا اورآخر میں شیخ الاسلام احمد کے حوالے ہوا اور اس کے بعد کسی نے نہ جانا کہ خرقہ کہاں گیا۔بزرگ لوگ فرماتے ہیں چالیس ولی مرد تھے کہ جن کا عقیدہ شیخ سے تھا۔قدس اللہ تعالیٰ سرہ منجما ۔انکے شیخ الاسلام احمد تھے اور ایک خواجہ ابو علی اور بے شک مراد ابو علی سے ابو علی فارمدی ہے ۔ ہر دو جہاں میں معروف و مشہور تھے۔ ایک صوفی کہتے ہیں کہ خواجہ ابوعلی کو لوگوں کے دلو ں کا واقف کردیا گیا تھا لیکن اس کے اظہار کیان کو اجازت نہ تھی ۔حضرت شیخ الاسلام احمد سے لوگوں نے پوچھا کہ ہم نے مقامات مشائخ سنے ہیں ان کی کتابیں بھی دیکھیں ہیں لیکن کسی کہ ایسے حال نہیں جوآ پ سے ظاہر ہوتے ہیں ۔فرمایا کہ ہم نے ریاضت کے وقت جس طرح کی ریاضتیں ہم کو اولیا اللہ سے معلوم ہویئں ہیں" کہ ہیں"بلکہ ان سے بھی بڑھ کر کیں ہیں۔
حق سبحانہ وتعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جتنے فضائل پر پراگندہ طور پر پائے ان میں پائے جاتے تھےوہ سب جمع کر کے ایک ہی دم احمد کو دیدیے۔ہر ۴۰۰ سال میں احمد جیسا ایک شخص ظاہر ہوا کرتا ہے۔خدا کی مہربانی کے آثار اسکے بارے میں یہ ہیں کہ تمام لوگ دیکھ رہے ہیں ۔ہذا من فضل ربّی(یعنی یہ میرے پروردگار کی عنایت ہے)۔جامع مقامات حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ میں اے ان سے انکے ابتدائی حال سے سوال کیا فرمایا کہ ۲۲ سال کاتھا کہ حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ نے مجھ کو توبہ عنایت کی ۔ توبہ کا سبب یہ ہوا کہ جب میرے پاس اہل فسق و فساد کی آمدورفت ہوگئی تو نامق کو توال میں موجود نہ تھا ۔ حریفوں نے جشن طلب کیا میں نے کہا کوتوال حاضر نہیں جب وہ آئگا میں جشن دونگا حریفوں نہ کہا ہم توقف نہ کریں گے کہ شاید وہ بہت دیر کر آئے۔
میں نے کہا خیر یہ کام آسان ہےوہ جاب واپس آئےگا اگر اس میں تنگی کرے گا تو اور جشن دیدوں گاجب کوتوال آیا تو اس نے اس میں تنگی کی اور جشن طلب کیا ۔جب میرے عیب پر آئے تو کھانے پکائےایک شخص کو شراب خانہ بھیجا کہ شراب لائےاس نے تمام مٹکے خالی پائے حالانکہ اس شراب خانہ میں شراب کے ۴۰ مٹکے موجود تھے میں بڑا تعجب کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے میں نے وہ حال دوستوں سے چھپائے رکھا اور جگہ سے شراب لایا اور انکے سامنے رکھی ۔پھر میں نے بہت جلد دراز گوش پر سوار ہو کر زر کی طرف روانہ ہوا کیونکہ وہاں میں نے شراب رکھی ہوئی تھی کہ جلد لاؤں۔ جب میں دراز گوش پہ سوار ہو کر چلا تو چلنے میں سست ہوگیا ۔لیکن میں اسکو خوب مارتا تھا کہجلد واپس آؤں کیونکہ میرا دل دوستوں میں لگا ہو تھا ۔ اتفاقا میرے کان میں سخت آواز آئی کہ اے احمد اس حیوان کو کیوں ناحق ستاتا ہے۔ہم اسکو حکم نہیں دیتے کہ وہ چلے کوتوال سے عذر کرتا ہےتو وہ مانتا نہیں،ہمارے سامنے کیوں عذر نہیں کرتا کہ ہم وہ عذر قبول کر لیں۔ تب میں نے زمین پر منہ رکھ دیا اور کہا ،خدا وندہ میں توبہ کی اور کہا کہ اس کے بعد کبھی شراب نہ پیوں گا۔ اس دراز گوش کو حکم دیں تاکہ میں جاؤں اوراس قوم کے سامنے شرمندہ نہ ہوں ۔اسی و قت دراز گوش چل پڑا۔جب میں شراب انکے سامنے لے گیا تو انہوں نے کچھ تھوڑی شراب میرے سامنے رکھی ،میں نے کہا میں توبہ کر چکا ہوں ،وہ کہنے لگے احمد کیا ہم سے ہنستے ہو اور میرے بہ درپے ہوئے ۔ اتفاقًا میرے کان آواز آئی کہ اے احمد لے لے اور پیلے اور یہ پیالہ سب پیجا۔ میں نے وی پیالہ پی لیا ،وہ سب خدا کے حکم سے شہد تھا ۔ جو میں نے پیا اور موجودہ تمام دوستوں کومیں نے چکھایا ۔ سب نےاس وقت توبہ کی اور سب اس وقت پراگندہ ہوئے ۔ہر ایک اور کسی چیز کی طرف متوجہ ہوا،لیکن میں دیوانوں کی طرح پہاڑ پر آگیا۔عبادت ،ریاضت اور مجاہدہ میں مشغول ہوا۔جب کچھ عرصہ پہاڑ میں رہا تو میرے دل میں دل یوں معلوم ہوا کہ احمد خدا کی راہ میں ایسے ہی چلا کرتے ہیں جس طرح تو چلتا ہے۔صاحب فرض قوم تو نے چھوڑ دیا ہے جن کا حق تم پر واجب ہے ان کو تم نے بیکار چھوڑ دیا ہےبعدازاں ایک اوربعد دل میں آئی کہ گھر میں باہر کی اورچیزون کے علاوہ چالیس مٹکے شراب کے ہیںجو کچھ وہ رکھتے ہیں ان سے کہدے کہ وہ اپنے سر پر خرچ کریں جب تو جان لے کہ اور کچھ نہیں رہا تو ان کی غم خوارگی میں مشغول ہو ۔ جب ایک گھڑی گزر گئی تو میرے دل میں یوں آیا کہ اےاحمد تو خدا کی راہ میں بہت اچھا چل رہا ہےکہ شراب کے مٹکوں پر توکل کر رہا ہے۔ارے تو راستہ بھول گیا ہے کیوں خدا کی عنایت پر توکل نہیں کرتا تاکہ تیرے صاحب فرضوں کو اپنے فضل کےخزانے سے روزی پہنچائےکہ در حقیقت وہی رزاق ہے۔توشراب کے مٹکوں پر بھروسہ کرتا ہے ۔یہ بھی خوب ہےمیرے سر میں بڑا صفراء پیدا ہوا ۔بے خود پہاڑ سے نیچے اترا اور ان مٹکوں کے مکان میں گیا،لکڑی ہاتھ میں لی اور ان مٹکوں کو توڑنا شروع کیا گاوؤں کے کوتوال کو خبر دی گئی کہ احمد پہاڑ سے آئے ہیں اور جنون ان پر غالب ہے،مٹکوں کو توڑتا ہے اور گراتا ہے،کوتوال نے آدمی بھیجے اور مجھ کو گھر سے باہر نکالا،گھوڑوں کے تبیلے میں رکھا ۔میں گھوڑوں کی کھرلی پر بیٹھ گیا ہاتھ مارتا تھا اور یہ شعر پڑھتا تھا۔
اشتربخراس مے بگر دو صد گرو تونیز زبھر دوست گروی درگر
گھڑوں نے کھانے سے سر اٹھا لیا اور دیوار پر سر مارنے لگے،انکی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے۔سائیں نے دیکھا تو کوتوال کے پاس دوڑتے ہوئے آئے کہنے لگا کہ ایک دیوانے کو لائے ہیں اور گھوڑے کی پچھاڑی اسکو جگہ دییہاں تک کہ گھوڑے بھی دیوانے ہوگئے۔گھاس سے سر اٹھا کر دیوار پر سر پٹختے ہیں کوتوال آیا اور مجھ کو باہر نکالامجھ سے معافی مانگی ۔میں پہار کی طرف پھر چلا گیا اور چند ساعت باہر نہ آیا ۔حق سبحانہ وتعالیٰ اپنے فضل کے خزانے سے ہر روز میرے متعلقین کو جن کو مجھ پر فرض تھا ،ایک سیر گیہوں کا دیا کرتاجو ان کے سرہانے نکل آتی ۔چنانچہ سب کو کفایت کر جاتی تھی اور اگر مہمان آجاتے تو ان سب کو بھی کفایت کرجاتی بلکہ کچھ بڑھ جاتی۔
خواجہ ابوالقاسم گروایک بزرگ مرد تھے،مالدار اور باخبر تھے ۔وہ کہتے ہیں کہ مجھ کو ایک ایسا حادثہ پیش آیا کہ جو کچھ میرے پاس تھا سب مجھ سے جاتا رہا ۔ میرا حال بہت ہی ابتر ہوگیا ۔میرا کنبہ بہت تھا میں کسی کو نہیں جانتا تھا ، ہمیشہ علماء اور مشائخ کے مزارات پر جایا کرتا تھا اور ہمت طلب کرتا تھا کیونکہ مخلوق کی احتیاج کی مجھے طاقت نہ تھی ۔ایک دن میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا میرا دل بڑا تنگ تھا۔ایک پیر دروازے میں سے آیا اور دو رکعت نماز پڑھیپھر میرے پاس اور مجھے سلام کہا ۔مجھ کو اس سے بڑی دہشت معلوم ہوئی کیونکہ وہ برا نورانی اور بڑا ہیبت ناک تھا ۔پھر پوچھا کہ تم تنگ دل کیوں ہو؟ میں نے اپنا قصّہ ان سے کہا فرمایا کہ احمد بن حسن اس پہاڑ میں ہیں ۔تم انکو جانتے ہو؟میں نے کہا !وہ تو میرے پرانے دوست ہیں ،کہا!اٹھ اور ان کے پاس جا ،کیونکہ وہ مرد صاحب کرامت ہے۔ممکن ہے کہ تم اپنے درد کا علاج نا کے پاس پاؤ۔دوسرے دن اٹھا۔ان کے پاس گیا اور سلام کہا۔جواب دیا اور پوچھا کیا حال ہے ؟میں نے کہا،مت پوچھئے۔اپنا قسہ ان کے سامنے بیان کیا۔انہوں نے کہا کہ چند روز ہوئے ہیں کہ میری طبیعت تمہارے ملنے کو چاہتی تھی۔مجھ کو معلوم ہوا کہ تمہیں ایک کام پڑگیا ہےجا اور تسلی رکھ ۔خدائے تعالی آسان کرے گا۔میں نے تمہاری بات مان لی ۔آج کی رات خدا کی جناب میں عرض کروں گا۔دیکھے کیا جواب ملتا ۔دوسرے دن صبح کے وقت پھر ان کی خدمت میں پہنچا۔جب نا کی مبارک آنکھ مجھ پر پڑی تو کہا کہ آگے آکہ خدائے تعالی نے تیرے کام کو آسان کردیاہے۔پھر فرمایا کہ ہر روز تمہیں کس قدر خرچ کافی ہوگا؟میں نے کہا چار دانگ۔فرمایا کہ تم کو اس پتھر کے حوالہ کیا گیاہے۔اس کے پاس آتے رہو اور لیتے ہو۔اس زمانہ میں بعض فاضل تمہیں کہتے ہیں ۔
ابوالقاسم گرد شاہ چویک سر مضطر بکشاد بروکرامت احمد در
کروند حوالہ کفافش سحجر ہر روز چہار دانگ می آئی و بیر
میں اس پتھر کے پاس گیا میں نے دیکھا میں نے ایک ٹکڑا سونے کا پتھر سے باہر نکالا ہے ۔میں نے اٹھا لیا اور شیک کی خدمت میں لے گیامیں نے کہا میں تو بڈھا ہو چکا ہوں ۔ بچے چھوٹے ہیں جب میں مر جاؤں گا تو ان کا کیا حال ہوگا ۔فرمایا کہ جب تک خیانت نہ کریں گےتمہارے فرزندوں میں سے جو آئے گااٹھائے گا ۔ اس کے بعد مدت تک اس کے فرزند لے جاتے رہے لیکن جب ایک فرزند نے خیانت کی تو پھر وہ بات جاتی رہی۔ایک دفعہ شیخ نے ہرات کا قصہ کیا۔جب موضہ شکیبان میں پہنچے تو ہرات کے بزرگوں کی ایک جماعت وہاں رہتی تھی ۔پوچھنے لگی کہ حضرت شیخ ہرات میں آجائے گے۔شیخ نے فرمایا کہ اگر وہ نہ لے جائے گے تو نہیں جاؤں گا۔کیونکہ پہلے مشائخ ہرات کے شہر کو باغیچہ انصاریا کہا کرتے تھے۔یہ خبر جابر بن عبداللہ کو پہنچی۔انہوں نے کہا کہ ہم جائے گے۔
شیخ الاسلامکو کندھوں پر اٹھا کر شہر میں لائے گے۔تب حکم دیاکہ ان کے باپ شیخ عبد اللہ انصاری علیہ الرحمۃ کی ڈولی نکالیں اور شہر میں مانادی کر دیں کہ تمام بڑے بڑے لوگ شیخ احمد کے استقبال کے لیے شہر سے باہر آئیں۔جب موضہ شکیباں میں پہنچے تو حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ان کی نظر مبارک نا پر پڑی تو آپ اپنی جگہ پر ٹہرے رہے۔بڑی حالتیں لوگوں کو ہوئی دوسرے دن ڈولی لائے اور التماس کی کہ ہم نے یہ ٹھان لیا ہے کہ آپ کو کندھوں پر اٹھا کر شہر تک لے جائیں۔آپ کرم فرمائے اور ڈولی میں بیٹھ جائیں۔حضرت شیخ نے مان لیا اور ڈولی میں بیٹھ گئے۔اگلے دونوں بازوؤں کو شیخ جابر بن عبداللہ اورقاضی ابوالفضل یحیحیٰ نے اٹھایااور پچھلے دونوں بازوؤں کو امام ظہیر الدین زیاد اور امام فخر الدین علی ہفیم نے پکڑا اور روانہ ہوئے اور کسی کو نہ دیتے تھے۔اگر شیخ چپ تھے یہاں تک کہ تھوڑی دیر چلے پھر فرمایا کہ ڈولی کو رکھ دو کہ میں ایک بات کہو گا جب ڈولی کو رکھ دیا تو فرمایا کہ آپ جانتے ہو عقیدت کس کا نام ہے سب نے کہا آپ ہی فرمائے،فرمایا عقیدت دراصل فرمانبرداری کو کہتے ہیں ۔سب نےکہا ہاں بےشک آپ درست فرماتے ہیں فرمایا جب بات یہ ہے تو آپ سوار ہو جاؤاور لوگ اٹھالیں گےہر ایک کا حصہ ہو جائے۔بڑے مشائخ تو سوار ہو گئے اور دوسروں نے ڈولی کو اٹھایااس قدر لوگ شہر اور باہر کے جمع ہو گئے تھے کو بہت لوگوں کو ڈولی اٹھانے کی باری نہ آئی۔
جب شہر میں پہنچے تو شیخ الاسلام عبد اللہ انصاری کی خانقاہ میں قیام فرمایا۔ شہر ہرات میں ایک مرد تھا جس کا نام شیخ عبداللہ زاہد تھا۔اس نے تیس سال تک وصال کا روزہ رکھا مشہور و معروف صاحب قبول تھا۔ایک خواجہ نے اپنے فرزند کو خوش اعتقاد ی کی وجہ سے ان کا فرمانبردار بنایا ہوا تھا اور ۱۲سال تک اسکے گھر میں کنوارا رہا تھا۔جب شیخ الاسلام احمد ہرات میں پہنچے اس زاہد نے اپنی بیوی بڑھیا سے کہا میرے کپڑے لاتاکہ شیخ احمد کے پاس جاؤں اور دیکھوں کہ اس کا کیا حال ہے ۔ ضعیفہ نے کہا اگر امتحان کے لیے جاتا ہے تو ہر گز مت جا کہ وہ ایسا مرد نہیں جیسا تم نے تصور کیا ہے اور اگر تمہیں ملنے کا شوق ہے تو جاؤ لیکن جو کچھ وہ حکم دیں اس کو کرنا تک جاؤورنہ مت جاؤ۔
ان کے پاس بھی نہ بھٹکنا ورنہ نقصان کھاؤ گے ۔ زاہد نے کہا تم جاؤ کپڑے لاؤ تمہیں کیا خبر۔زاہد نے کپڑے پہنے اور شیخ کی خدمت میں آکر سلام کہا تھا ۔ شیخ نے فرمایا تم نے ہمارے سلام کا قصد کیا تھا تو تم کو معلوم ہےاس عورت نے کیا کہا تھا حکم مانیں گا۔زاہد نے کاہ جب آپ شیخ کہتے ہیں تو میں کیونکر حکم نہ مانو گا ۔ شیخ نے حکم دیا کہ واپس جاؤ اور پھر گلی میں جا کر محمد قصاب مروزی کی دکان پر دیکھو کہ گوشت کی ایک ران کیلی پر لٹکتی ہے وہ لو اور کچھ شیرہ خورمہ اور روغن بنئیے سے لینا یہ سب ہاتھ میں لو اور گھر پر جاؤ کیونکہ من حمل سلعتہ فقد بریمن الکبریعنی جس نے اسباب اٹھایا وہ تکبر سے بچ گیا۔پھر گھر میں کہو کہ اس گوشت کا قیمہ بنائیں اور اس شیرہ اور روغن سے شربت تیار کریں ۔پھر اس عورت کے ساتھ افطار کرو اور اس ۱۲ سال سے جو اس کا حق تم پر واجب ہے ادا کراور پھر حمام میں جا کر غصل کر پھردیکھنا کہ جس بات کا اتنے سال تک طالب تھا اور وہ نہیں ملی تھی اگر اسی وق ت نہ مل جائے تو احمد کا دامن آکر پکڑ لینا ۔ تب وہ اس کی ذمہ داری سے بری ہوگا ۔ جب شیخ نے یہ بات کہی تو زاہد نے دل میں کہا کہ مجھ کو ایسا کام کہا ہے جس کی تعمیر میں نہیں کر سکتا۔کیونکہ ان تیس سالوں میں مجھے بلکل طاقت(جماع)کی نہیں رہی۔باکراہ عورتکے ساتھ کس بل پر جماع کروں گا۔ شیخ نے زاہد کے دل میں خطرہ کو معلوم کر کے فرمایا اجی حضرت جایئےڈریے مت ،سب کام آسان ہوجائے گااگر ضرورت ہو تو احمد سے مدد لے لینا۔
زاہد اٹھا اورجو کچھ شیخ نے فرمایا تھا وہ کا م کیا قیم حلوا بنایا گیا اور باہم مل کر کھالیا ۔کھانا کھاتے کھاتے بدن میں شہوت کی حرکت پیدا ہوئی۔چاہا کہ جماع کرے۔ عورت نے کہا اس قدر ٹہریے کہ ہم کھانا کھا لیں جب کھانا کھا چکے۔زاہد نے چاہا کہ جماع کروں مگر پھر قوت نے جواب دے دیا ۔اس وقت شیخ سے مدد چاہے شیک جماعت میں بیٹھے ہوئے ہنس پڑے اور کہا ں اے زاہد ہاں ہاں کام کیجیے ڈریے نہیں کہ سب ٹھیک ہوگا ۔ زاہد نے اپنا مقصود حاصل کیا یعنی جماع کیا،پھر حمام کی طرف جا کر پورے طور پر غسل کیا۔اسی وقت جو کچھ شہر کی چار دیواری میں تھا اس پر سب کھل گیا۔جب شیخ کی خدمت میں آیا تو شیخ نے فرمایا جب تمہاری ہمت شہر کی چار دیواری سے زائد نہ تھی ۔تواحمد کا اس میں کیا قصور ہےورنہ اگر شہر کی چار دیواری ہوتی تو وہ بھی کھل جاتی۔
ایک دن شیخ الاسلام عبداللہ انصاری ؒ کی خانقاہ سے حضرت شیخ کو ایک دعوت پر لیے جاتے تھے جب خادم نے شیخ کی جوتی سیدھی کی تو شیخ نے فرمایا ذرا ٹہر جا ایک کام آپڑا ہے۔تھوڑی دیر بعد ایک ترکمان اپنی بیوی کے ساتھ حاضر ہوا۔بارہ سال کا لڑکا نہایت خوبصورت اس کے ہمراہ تھا لیکن اس کی دونوں آنکھیں اندھی تھیں ۔ وہ عرض کرنے لگا اے شیخ حضرت حق سبحانہ تعالی نے ہم کو مال دولت بہت کچھ نعمتیں دی ہیں لیکن صرف یہی ایک لڑکا ہے ۔خدائے تعالی نے اور سب کچھ دیامگر اسکی آنکھیں نہیں ہیں اس کی آنکھوں کے لیے ہم نے تمام دنیا کی خاک چھان ڈالی ہے۔جہاں کہیں بزرگ یا طبیب سنا ہے گئے ہیں لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔اب ہم کو ایسا معلعم ہوا ہے کہ حضور جو کچھ خدائے تعالی سے مانگتے ہیں وہ عنایت کرتا ہے ۔اگر ہمارے فرزند کی نسبت توجہ فرمائیں اور اس کی آنکھیں روشن ہوجائیں تو ہم اپنا سب مال آپ پر قربان کرکے آ پ کے غلام بن جائیں ،اور اگر ہمارا مقصود حاصل نہ ہوگا تو اسی خانقاہ پر ٹکڑیں مار کر مرجائیں گے۔
شیخ نے فرمایا یہ عجیب کام آپڑا ہے مردہ زندہ کرنا یہ نابینا کو بیا کرنا،برص کا علاج کرنا یہ تو عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا۔احمد یہ بات فرما کر کھڑے ہوئے اور چل دیے۔اس مرد عورت نے اپنے سر زمین پر مارنے شروع کردیے۔جب آپ خانقاہ کے دالان تک پہنچے تو ایک بڑی حالت آپ پر واقع ہوئی آ پ کی زبان پر گزراہم کرتے ہیں ،ہم کرتے ہیں ۔چنانچہ اس بات کو چند اماموں نے جو حاضر تھے سن لیا۔پھر حضرت شیخ واپس ہوئےاور خانقاہ میں آئے۔صفہ کے کنارے پر بیٹھ گئے اور حکم دیا کہ اس بچہ کو لاؤ۔پھر آپ نے اپنے دونوں انگوٹھے اس بچہ کی دونوں آنکھوں پر رکھے اور کھینچ کر کہا انظر باذن اللہ عزوجلیعنی خدا بزرگ کے حکم سے دیکھ۔ اسی وقت اس کی دونوں آنکھیں بینا ہوگئیں۔اس کے بعد اماموں کی ایک جماعت نے شیخ سے پوچھا کہا اول آپ کی زبان مبارک پر یہ گزرا کہ مردوں کا زندہ کرنا ۔مادر زاد اندھوں اور ابرص کا اچھا کرنا علیہ السلام کا معجزہ ہے۔
مگر دوبارہ حضور نے فرمایا کہ ہم کرتے ہیں۔یہ دونوں باتیں درست کیسے ہوئیں۔شیخ نے فرمایا کہ اول جو کہا گیا تھا وہ احمد کی بات تھی اور اس کے سوا نہیں ہوسکتا تھا لیکن ہم دالان میں پہنچے تو مجھ کو یہ جتلایا گیا کہ احمد ٹھہر جا کیا مردہ کو عیسیٰ زندہ کرتے تھے اور نابینا اور کوڑھے کو عیسیٰ اچھا کرتے تھے؟ہم کیا کرتے ہیں یہاں تک مجھ کو بلن آواز سے کہا گیا واپس جاؤ کیونکہ اس بچہ کی روشنائی تمہاری ذات میںہم نے رکھی ہے۔یہ بات مجھ پر غائب ہوئی کہ زبان پر جاری ہوئی پس یہ قول و فعل خدا کا تھا لیکن احمد کے ہاتھ اور نفس پر ظاہر ہوا۔ایک دن ہرات کے بڑے عالم آپ کیخدمت میں حاضر ہوئے ان میں توحید ومعرفت میں باتیں ہونے لگیں۔ شیخ نے فرمایا کہ تم یہ بات تقلیدا"کیتے ہو۔وہ سب اس بات سے خفا ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہم سب کے پاس صانع جل شانہ کی ہستی پر ہزاروں ولائل حفظ ہیں پھر ہم کو مقلد کہتے ہیں۔
شیخ نے فرمایا کہ اگر ہر ایک دس ہزار دلیل رکھتا ہے پھر بھی مقلدہے یہ لوگ کہنے لگے کہ اس بات پر ہم کو واضح دلیل ہونی چاہیے۔شیخ نے خادم سے کہا موتیوں کے تین دانے اور ایک طشت حاضر کرو" حاضر کر دیا گیا۔ شیخ نے فرمایا موتی کی اصل کیا ہے۔کہنے لگے بار ان نیسان کے قطرے ہیں کہ جن کو سیب نے اپنے پیٹ میں لے لیا ہے۔پھرخدائے تعالٰی کی قدرت کا ملہ سے موتی بن گئے ہیں۔شیخ نے ان موتیوں کوطشت میں ڈال دیا اور فرمایا جو شخص کہ تحقیق کے طور پر اس طشت کی طرف منہ کرے اورکہےبسم اللہ الرحمٰن الرحیم تو یہ تینوں موتی پانی بن جائیں گے اور ایک دوسرے میں مل جائیں گے اماموں نے کہا یہ تو تعجب کی بات ہے" آپ کہیے۔ شیخ نے فرمایا پہلے تم کیو جب میری باری آئے گی میں بھی کہوں گا انہوں نے باری باری سے بسم اللہ پڑھی موتی جوں کے توںرہے۔جب شیخ کی باری آئی تو آپ پر ایک طاری ہوگئی اور فرمایا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم فوراً تینوں موتی پانی ہوگئے اور ایک دوسرے میں دوڑنے لگے۔طشت میں چکر کھانے لگے۔ شیخ نے فرمایا اسکن باذن اللہ یعنی خدا کے حکم سے ٹھہر جا اسی وقت ناسفتہ موتی کا ایک دانہ بن گیااور جم گیا سب حیران رہ گئے اور جو کچھ حضرت نے فرمایا تھا اس کا اقرار کیا۔حضرت شیخ کی ولادت ۴۴۱ ھ میں ہوئی ہے اور آپ کی وفات ۵۳۶ھ میں ہوئی تھی۔(قدس اللہ سرہ)
(نفحاتُ الاُنس)