حضرت شیخ سیف الدین باخرزی علیہ الرحمۃ
آپ شیخ نجم الدین کبرے ؒ کے خلفا میں سے ہیں۔علوم کی تحصیل و تکمیل کے بعد شیخ کی خدمت میں آئے،اور تربیت پائی۔شروع میں جب آپکی خلوت میں بٹھایا،تو دوسرے چلہ میں ان کی خلوت میں آئےاور اپنی انگشت مبارک ان کی خلوت کے دروازہ پر ماری کہ اے سیف الدین:
منم عاشق مرا غم سار دواراست تومعشوقی ترابا غم چہ کا راست
اٹھو اور باہر آؤ۔اس وقت ان کے ہاتھ کو پکڑا،اور خلوت سے باہر نکلا۔بخارا کی طرف روانہ کردیا۔ایک دفعہ شیخ نجم الدین کے لیے خطا سے ایک لونڈی لائی گئی تھی۔زفاف کی رات میں اپنے مریدوں سے کہا،کہ آج کی رات ہم مشروعہ لذت میں مشغول ہوئے۔تم لوگ بھی ہمارے موافقت کے لیے ریاضت چھوڑدو۔فراغت آرام سے سو رہو۔جب حضرت شیخ نے کہا،شیخ سیف الدین نے اس رات بڑا لوٹا پانی کا بھر لیا،اور شیخ کے خلوت کے دروازہ پر لے کر کھڑے ہوگئے۔جب صبح کے وقت شیخ باہر نکلے ،تو ان کے کھڑے ہوئے دیکھ کر کہا،کیا ہم نے یہ نہ کہا تھا کہ آج کی اپنی لذت و حضور میں مشغول رہو۔تم نے کیوں اپنے آپ کو اس رنج و ریاضت میں ڈال رکھا۔آپ نے کہا کہ حضور نے فرمایا تھاکہ جو شخص لذت اور حضور سے مشغول ہو رہےمجھے اس سے بڑھ کر کوئی لذت نہیں کہ حضرت شیخ کے آستانہ پر کھڑا ہوں۔شیخ نے کہا تجھے خوشخبری ہو کہ بادشاہ تمہاری رکاب میں چلیں گے۔ایک دن ایک بادشاہ شیخ سیف الدین ؒ کی زیارت کو آیا۔واپس جانے کے وقت شیخ سے درخواست کی کہ میں نے ایک گھوڑا شیخ کی نظر کیا ہے۔میری یہ خواہش ہے کہ شیخ تشریف لے چلیں،تاکہ میں اپنے ہاتھ سے آپ کو سوار کروں۔شیخ نے اس کی التماس قبول کی۔خانقاہ کے دروازہ تک آئے ۔بادشاہ نے اس کی رکاب پکڑی۔یہاں تک آپ سوار ہوگئے۔گھوڑے نے سرکشی کی۔لگام ہاتھ سے چھوٹ گئی ۔پچاس قدم کے قریب تک بادشاہ شیخ کی رکاب میں دوڑا گیا۔شیخ نے بادشاہ سے کہا،کہ اس گھوڑے کی سرکشی میں یہ حکمت تھی کہ ہم ایک رات شیخ الاسلام شیخ نجم الدین کی خدمت میں تھے۔آپ نے ہم کو خوشخبری سنائی تھیکہ تمہاری رکاب میں بادشاہ دوڑے گا۔اب شیخ کی بات سچی ہوئی۔آپ کے پاک کلمات میں سے یہ ہے۔
ہرشب بمثالپاسبان کویت میگروم گرو آستان کویت
باشند کہ بر آیدائے ضم روز حساب نامم زجریدہ سگان کویت
ہر چند گہے زعشق بیگانہ شوم باعا ضیتآشناوہم خانہ شوم
ناگاہ پری رخے بمن بر گزرد برگردم زاں حدیث دو دیوانہ شوم
ایک دن کسی درویش کے جنازہ پر حاضر ہوئے۔لوگوں نے کہا ،کہ اے شیخ آپ اس کو تلقین فرمائیں۔تب آپ میت کے چہرہ کے پاس آئے۔اور یہ رباعی پڑھنے لگے۔رباعی:
گرمن گنہ جملہ جہان کرو ستم لطف توامید است کہ گیرد و ستم
گفتی کہ بوقت عجز دستت گیرم عاجز ترازیں مخواہ کہ اکنوں ہستم
آپ نے ۶۵۸ھ میں انتقال فرمایا،اور آپ کی قبر بخار اشریف میں مشہور ہے۔قدس اللہ سرہ۔
(نفحاتُ الاُنس)