حضرت شیخ ابو اللیث یا قوشنچنی رحمتہ اللہ
شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ لیث قو شنجہ بزرگ و عارف تھے۔پاؤں ننگے رکھا کرتے تھےوہ فرماتے ہیں کہ پوشنگ سے ہرات میں آیا تھا۔اس سبب سے وہاں رہا تھامیں قبرستان کی کیاریوں میں سے جا رہا تھاکہ ایک عورت قبر پر بیٹھی ہوئی تھی ا ۔۔۔۔
حضرت شیخ ابو اللیث یا قوشنچنی رحمتہ اللہ
شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ لیث قو شنجہ بزرگ و عارف تھے۔پاؤں ننگے رکھا کرتے تھےوہ فرماتے ہیں کہ پوشنگ سے ہرات میں آیا تھا۔اس سبب سے وہاں رہا تھامیں قبرستان کی کیاریوں میں سے جا رہا تھاکہ ایک عورت قبر پر بیٹھی ہوئی تھی اور کہتی تھی اے ماں کی جان او رماں کے یگانہ مجھ کو اس سے حال آگیا۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ ابو وائیل شفیق بن سلمہ کوئی بزرگان تابعین سے تھےتوجہ سنتے تو رو پڑتے۔ایک صوفی کہتے ہیں۔التلذذبالبکاءتمن البکاءیعنی رونے سے لذت حاصل کرنی رونے کی قیمت ہے ۔شیخ الاسلام کہتے ہیں تیری صحبت سے باز رہاہوا حسرت کے آنسوؤں سے لذت پاتا ہے تو تیرا پانے والا کیا پائے گا۔لیث قو شنجہ کی قبر خیابان میں ہے۔
جب ان کا انتقال ہوا تو اس کے یاروں نے اس کی قبر پر ایک چھوٹا سا حجرہ بنا لیا اور مکان کےبالا خانہ پر چار طباق بنائے اس میں رہتے تھے یہاں تک کہ ایک ایک کر کہ فوت ہوگئےاور اس کے پہلومیں دفن کیے جاتے تھے۔رحمہم اللہ تعالی۔شیخ عمو کہتے تھے کہ یہ قبر فلاں انارفروش کی ہے اور یہ فلاں کی۔وہ مجھ سے اس کی یاروں کی قبریں دکھایا کرتے۔شیخ الاسلام کو ان کی یہ باتبہت اچھی معلوم ہوتی تھی کہ اس میں ان کی استقامت اور موافقت پائی جاتی تھی اور کہا کہ محمدعبداللہ گاذر کہتے تھےتمام خوبی جو اپنے میں دیکھتا ہوں اس کا سبب یہ جانتا ہوں کہ لیث قو شنجہ مجھ سے راز کی باتیں کیا کرتے تھےاور ان کا مزہ میرے حلق میں اترا کرتا تھا۔لیث قوشنجہ ایک دفعہ ہرات کی ندی میں ڈوب گئے۔تڑپتے تھے۔کہا اے خداوندا،اب تو نے مجھ کو پکڑ لیا کہ آنے کا توشہ نہیں رکھتا۔اگر تو مجھے سلامت باہر نکال لے گا تو میں تین دفعہ قل ھو اللہ پڑھوں گا۔۔کہا کہ اس سے مجھے خلاصی ہوگئی اور نو برس ہو چکے ہیں کہ اسی میں ہوں کہ پڑھوں لیکن پرھ نہیں سکتا۔جب میں کہتا ہوں احداللہ تعالی کہتا ہے میں وہی ہوں جو تو کہتا ہے لیکن جانتا ہے کہ احد کون ہےمجھ کو پھر ہوش بھلا دیتا ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)