حضرت شجاعت علی قادری سید مفتی اہل سنت
ف۔۲۹ جنوری ۱۹۹۳ء
حضرت مفتی سید شجاعت علی قادری رحمتہ اللہ علیہ بدایوں (یو۔پی) میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم مدرسہ عربیہ حافظیہ سعدیہ دادوں ضلع علی گڑھ سے حاصل کی، دس سال کی عمر میں اپنے خاندا ن کے ہمراہ ملتان تشریف لائے اور مدرسہ عربیہ انورالعلوم میں تعلیم کا آغاز کیا۔ درجہ اولیٰ سے دورہ حدیث شریف تک تمام کتب آپ نے اسی مدرسہ میں پڑھیں ۔ ۱۹۵۹ء میں آپ کراچی تشریف لائے اورمدرسہ مظہر العلوم جامع مسجد آرام باغ میں تدریس کا آغاز کیا، لیکن چند سال بعد علمائے اہل سنت کے اصرار پر آپ دارالعلوم امجدیہ میں بہ حیثیت مفتی اور صدر مدرس خدمات انجام دینے لگے، تدریس کے ساتھ ساتھ آپ نے مروجہ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا، چناں چہ آپ نے کراچی یونیورسٹی سے ۱۹۷۰ء میں ایم اے اسلامیات اور ۱۹۷۴ء میں ایم اے عربی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۸۵ء میں آپ نے اسی یونیورسٹی سے پی۔ ایچ ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
حضرت ڈاکٹر مفتی سید شجاعت علی قادری رحمتہ اللہ علیہ ، اہلسنت کے بہت عظیم عالم دین تھے، علوم دینیہ اور مروجہ علوم رسمیہ دونوں پر یکساں عبور اور مہارت رکھتے تھے، عربی اہل زبان کی طرح بولتے تھے، وہ بہت عمدہ خطیب تھے ملک اور بیرون مکل میں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کرتے تھے، انہوں نے تین مرتبہ برطانیہ کا تبلیغی دورہ کیا اور وہاں بڑے بڑے عظیم الشان جلسوں میں خطابت کے جوہر دکھائے وہ ہر موضوع پر فی البدیہہ تقریر کرتے تھے، اہل برطانیہ ان سے بہت مانوس تھے، ہالینڈ اور بھارت میں بھی متعدد جلسوں سے خطاب کیا۔ عراق اور برطانیہ کی بعض بین الاقوامی کا نفرنسوں میں انہوں نے عربی میں خطاب کیا۔ پاکستان اور بیرون پاکستان سے آئے ہوئے سوالات کے جواب میں بہت علمی اور تحقیقی فتاویٰ لکھتے تھے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے بہت مقبول مقرر تھے وہ دین کے بہت سے شعبوں میں کام کر رہے تھے، لیاقت کراچی میں سولہ سال تک پروفیسر رہے، سترہ سال دارالعلوم امجدیہ میں افتاء اور تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے، پھر انہوں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر دارالعلوم نعیمیہ کی ۱۹۷۲ء میں بنیاد رکھی اور اس کے مہتمم مفتی اور شیخ الحدیث رہے، وفاقی شرعی عدالت میں چھ سال تک بطور حج ملک و قوم کی خدمت کرتے رہے ،کراچی یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کمیٹی کے ممبر تھے، وفاقی شرعی عدالت سے الگ ہونے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بنے اور کونسل کی متعدد سب کمیٹیوں میں کام کرتے تھے۔نفاذ شریعت کمیٹی میں بھی شامل تھے، افتاء تدریس ، خطاب اور دوسری مذہبی و ملی خدمات کی تعظیم مصروفیات کے باوجود وہ تصنیف و تالیف کے لیے بھی وقت نکالتے تھے، اوردو اور عربی کی متعدد کتب ان کی یادگار ہیں ، انہوں نے درس نظامی کے طلبہ کے لیے چار حصوں میں انشاء العریبہ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو بہت سے مدارس دینیہ کے نصاب تعلیم میں شامل ہے۔ الخیرات الحسان اور شرح الصدو ر کا ترجمہ لکھا جو بہت مقبول ہوا۔ ان کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ تفسیر مظہری، اور المواب اللدنیہ کاترجمہ لکھا۔ فتاویٰ رضویہ کی پہلی جلد کے دو حصوں کی عربی عبارت کا رجمہ کیا دعوت فکر کا عربی ترجمہ کیا۔ مجددالامتہ کے نام سے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان فاصل بریلوی رحمہ اللہ کا تفصیلی تعارف لکھا جس کے ذریعے دنیا ئے عرب میں اعلیٰ حضرت کے علمی کارناموں کا تعارف ہوا۔ بعد میں اسی کتا ب کو جامعہ نظامیہ لاہور نے ‘‘من ھو امام احمد رضا’’ کے نام سے شائع کیا۔ فقہی مسائل پر مشتمل ایک کتاب فقہ اہلسنت لکھی۔ اس کا پہلا حصہ شائع ہو چکا ہے۔ جوطہارت اورنمازکے مسائل پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد اس کی تکمیل کے لیے زکوٰۃ روزہ اور حج کے مسائل پر مشتمل اس کتاب کے مزید تین حصے لکھے۔ اس میں عبادت کے ضمن میں مسائل عصر حاضر سے بحث کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے موضوعات پر متعد علمی اور گراں قدر مقالے لکھے جو ملک کے بہت سے رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔
مفتی صاحب رحمہ اللہ کی شدید خواہش تھی کہ عربی میں علم حدیث پر کوئی وقیع کتب لکھیں۔اس سلسلے میں انہوں نے اما م محمدرحمہ اللہ کی کتاب الاثار کی عربی میں مبسوط شرح لکھنے کا آغاز کردیا تھا ۔ وہ اس کتاب میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی علم حدیث میں خدمات کونمایاں طور پر پیش کرنا چاہتے تھے کہ تقدیر نے ان کو اس کام کی تکمیل کی مہلت نہیں دی۔ انہیں تو انشاء اللہ اپنی نیت کا ثواب مل جائے گا لیکن ہم ایسے شنگان علم ان کے فیوض سے استفادہ کرنے سے محروم رہ گئے ۔ انہوں نے کم عمر پائی لیکن ان کی خدمات اور ان کے کارنامے ان کی عمر سے بہت زیادہ ہیں۔ وہ بظاہر ایک شخص تھے لیکن حقیقت میں ایک ادارہ تھے۔ وہ بہت اعلیٰ اور بلند اخلاق کے مالک تھے۔ بہت شگفتہ مزاج ،بذلہ سنج اورحاضر جواب تھے، وہ ہر بزم کی رونق اور ہر محفل کی جان تھے۔ وہ قادرلکلام تھے اور بہت فصیح و بلیغ گفتگو کرتے تھے۔ جو لوگ ہر وقت ان کی خلوت اور جلوت میں رہنے والے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ان کی زبان سے بے قابو! ان کا حوصلہ ار حلم ثانی تھا۔ وہ ہمیشہ سلام میں سبقت کرتےتھے۔ تلامذہ کا بھی تعظیم اور توقیر سے ذکر کرتے تھے۔ ہمیشہ چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھےاور انہیں کام کرنے اور آگے بڑھنے کا ولوہ فراہم کرتے تھے۔
اہلسنت کے افتراق اور انتشار سے بہت پریشان رہتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ جماعت اور تنظیم کی کوشش کی۔ تنظیم اللمدرس(اہلسنت) پاکستان کو وجود میں لانے کے لیے کراچی سے لاہور گئے۔ وہاں مختلف علماء سے ملاقات کی اور ان کو تنظیم کی افادیت سے آگاہ کیا اور یہ انہی کی مساعی کا تنیجہ ہے کہ آج تنظیم المدارس (اہلسنت) قائم ہے۔ جماعت اہلسنت کراچی کو بھی ابتداء میں انہوں نے قائم کیا ا وراس کی نشاءۃ ثانیہ بھی انہی کی کوشش سے ہوئی۔ وہ خود عملی سیاست سے الگ رہتے تھے لیکن اس کے باوجو د سیاسی طور پر سنیوں کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھنے کے بہت خواہشمند تھے اور اس کے لیے حتی المقدور کو شش کرتے رہتے تھے۔ ان کی مثال شائستگی اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے ہر طبقہ میں ان کا بے حد احترام تھا۔ ان کی زندگی بھی عزت کی زندگی تھی اور ان کی موت بھی عزت کی موت تھی۔ اورانشاء اللہ ان کی عاقبت میں بھی عزت اور جاہت ہوگی۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )