حضرت سکندر ذو القرنین علیہ الرحمۃ
ذوالقرنین کا ذکر قرآن میں سورۃالکھف کی کچھ آیات میں آیا ہے۔ ذیل میں اُن آیات کا ترجمہ دیا گیا ہے۔
اور اے محمدؐ، یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سناتا ہوں (83)
ہم نے اس کو زمین میں اقتدار عطا کر رکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے (84)
اس نے (پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا) سر و سامان کیا (85)
حتیٰ کہ جب وہ غروب آفتاب کی حَد تک پہنچ گیا تو اس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا اور وہاں اُسے ایک قوم ملی ہم نے کہا "اے ذوالقرنین، تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ اِن کے ساتھ نیک رویّہ اختیار کرے" (86)
اس نے کہا، "جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا (87)
اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اُس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے" (88)
پھر اُس نے (ایک دُوسری مہم کی) تیاری کی (89)
یہاں تک کہ طلوعِ آفتاب کی حد تک جا پہنچا وہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جس کے لیے دُھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے (90)
یہ حال تھا اُن کا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اُسے ہم جانتے تھے (91)
پھر اس نے (ایک اور مہم کا) سامان کیا (92)
یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سمجھتی تھی (93)
اُن لوگوں نے کہا کہ "اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں تو کیا ہم تجھے کوئی ٹیکس اس کام کے لیے دیں کہ تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کر دے؟" (94)
اس نے کہا " جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں (95)
مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو" آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیانی خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ حتیٰ کہ جب (یہ آہنی دیوار) بالکل آگ کی طرح سُرخ ہو گئی تو اس نے کہا "لاؤ، اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا" (96)
(یہ بند ایسا تھا کہ) یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہ آ سکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لیے اور بھی مشکل تھا (97)
ذوالقرنین نے کہا " یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئیگا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا، اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے" (98)
ترجمہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا نقل کیا گیا ہے
ذوالقرنین کون؟[ترمیم]
تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد لوگوں نے ذوالقرنین کی شخصیت سے متعلق مختلف اندازے لگائے ہیں۔
ذوالقرنین: سکندر اعظم[ترمیم]
بہت سے قدیم علماء اور مفکر سکندر اعظم کو ہی ذوالقرنین مانتے ہیں۔مگر بہت سے اس کا انکار کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سکندر اعظم نبی نہیں تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ زمین کی مشرقین اور مغربین تک نہ پہنچ سکا۔
ذوالقرنین: سائرس اعظم[ترمیم]
جدید زمانے کے کچھ مفسر و مفکر جن میں مولانا مودودیاور غلام احمد پرویز شامل ہیں ذوالقرنین کو سائرس کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں۔مولانا مودودی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں[1]۔ یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ’’ ذوالقرنین‘‘ جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے ، کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا ، لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مدکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس(خسرو یا سائرس) کی طرف ہے ، اور یہ نسبۃً زیادہ قرین قیاس ہے ، مگر بہر حال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔
قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں :
اس کا لقب ذو القرنین(لغوی معنی ’’دو سینگوں والا‘‘ ) کم از کم یہودیوں میں ، جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تھا، ضرور معروف ہونا چاہیے۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ ’’ دو سینگوں والے ‘‘ کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔
وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں ، اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں۔ ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی۔
اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج و ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی در ے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں ، اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے
اس میں مذکورہ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔
ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے ، کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایک میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک منڈھے کی شکل میں دکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے۔ یہودیوں میں اس ’’ دو سینگوں والے ‘‘ کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور نبی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی (تفہیم القرآن سورہ نبی اسرائیل ، حاشیہ 8
دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے ، مگر پوری طرح نہیں۔ اس کی فتوحات بلا شبہ یہ مغرب میں ایشیاۓ کو چک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں با ختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں ، مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے ، حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے ، تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے ، کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کاکیشیا(قفقاز) تک وسیع تھی۔
تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولی، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات تعمیر کیے گۓ تھے۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ خورس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے۔
آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جا سکتی ہے تو وہ خورس ہیں ہے۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر’’ ذو القرنین‘‘ کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں ، لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین قرار دے دیتے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے۔ تا ہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا خورس ہے۔
تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج 549 ق۔ م۔ کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (یشیاۓ کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد 539 ق، م، میں بابل کو بھی فتح کر لیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغد (موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک، اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہو گیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا) اور خوار زم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔
ذوالقرنین : حضرت سلیمان علیہ السلام[ترمیم]
صرف ایک ہی اسلامی محقق محمد اکبرصاحب نے ذوالقرنین کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا دوسرا نام کہا ہے [2] ۔ اپنے جو دلائل ذوالقرنین کے حضرت سلیمان علیہ السلام ہونے کے بارے میں دئیے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔
حضرت سلیمان ہی زمین کی مشرقین اور مغربین کا سفر کرسکتے تھے کیونکہ ہوا اُن کے تابع تھی اور اُن کی صبح اور شام کی سیر ہی ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی۔
ذوالقرنین کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ تھا تبھی اُن کو کہابذریعہ وحی کہا گیا کہ چاہے تو عذاب کرے چاہے تو چھوڑ دے ۔ اس لیے ذوالقرنین بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی تھے اور حضرت سلیمان بھی بادشاہ بھی تھے اور نبی تھے۔
حضرت سلیمان نے یاجوج ماجوج کی قوم سے بچاؤ کے لیے بنائی جانے والی دیوار کا کوئی معاوضہ لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اُن کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ اس میں بے شمار تانبا وغیرہ بھی شامل ہے۔ بہت بڑے بڑے کڑہاؤ بھی، یہی چیزیں دوسری جگہوں پر حضرت سلیمان پاس بتائی گئی ہیں۔
ذوالقرنین اور حضرت سلیمان سے اللہ تعالیٰ کا طرز تخاطب ایک جیسا رہا ہے۔
قرآن میں سورۃ النمل کی آیت 16 کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی زبان کا بھی علم دیا گیا تھا۔ سورۃ کہف آیت 93 کے مطابق ذولقرنین جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو وہاں کے رہنے والوں کو ذوالقرنین کی فوج کی زبان نہیں آتی تھی، مگر اگلی آیت 94 میں انہوں نے ذوالقرنین سے دیوار کی تعمیر کی درخواست کی جسے ذوالقرنین نے سمجھا بھی اور اس کا جواب بھی دیا۔ حضرت سلیمان ہی ایسی شخصیت تھے جو حتیٰ کہ جانوروں کی زبان بھی سمجھ لیتے تھے اس لیے اُ ن کے لیے اس قوم کی بات سمجھنا مشکل نہ تھا۔
بائبل میں جو دعا حضرت سلیمان کے لیے کی گئی ہے وہ ویسی ہی بادشاہت کی ہے جیسی ذوالقرنین کو ملی تھی۔
بائبل سے حوالہ دیا ہے کہ حضرت سلیمان کے دور میں سر پر سینگوں والا تاج پہنا جاتا تھا اس لیے حضرت سلیمان کا دو سینگوں کا تاج پہننا کوئی بڑی بات نہیں۔