حضرت سلطان مجدالدین طالبہ علیہ الرحمۃ العزیز
کہتے ہیں کہ وہ ایک لشکر کے سپاہی تھے ۔ترک دنیا تجرید توکل میں یکتا تھے۔درویش محمد چرگر کہ ایک ابدال میں سے ہیں ۔جامع ہرات میں رہا کرتے تھے۔ایک دن مسجد میں سو رہے تھےپانی کا لوٹا گرا دیا تھا۔مسجد کے خادم نے سمجھاک ۔۔۔۔
حضرت سلطان مجدالدین طالبہ علیہ الرحمۃ العزیز
کہتے ہیں کہ وہ ایک لشکر کے سپاہی تھے ۔ترک دنیا تجرید توکل میں یکتا تھے۔درویش محمد چرگر کہ ایک ابدال میں سے ہیں ۔جامع ہرات میں رہا کرتے تھے۔ایک دن مسجد میں سو رہے تھےپانی کا لوٹا گرا دیا تھا۔مسجد کے خادم نے سمجھاکہ انہوں نے پیشاب کیا ہے اس کو اس قدر مارا کہ ان کے اعضاء زخمی ہوگئے۔چرگر نے ایک آہ نکالی اور چل دیے۔مسجد لکڑی کی تھی۔اس کو آگ لگ گئی جس سے تمام مسجد جل گئی۔وہ وہاں سے اس بازار میں کہ جس کہ چلہ فروش کابازار کہا کرتے تھےآگئے۔سلطان مجد الدین طالبہ کو اس سے خبر دی گئی۔۔چرگر کے پیچھے روانہ ہوئے۔جب ان سے ملے تو کہا۔
اےچرگر مسلمانوں کے شہر کو کیوں جلاتے ہو۔چرگر واپس ہوئے اور اپنی آنکھ سے آنسو آگ پر گرائے۔آگ بجھ گئی اور گم ہوگئی۔یہ رباعی کہنے لگے۔رباعی
آن آتش دوشین کہ برا فروختہ بود او سوختن ازدل من آموختہ بود
گر آب دو چشم من ندادی یاری چہ جملہ فروشاں کہ ہرےسوختہ بود
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سیلاب آیا قریب تھاکہ ہرات کو بہا لے جائے۔سلطان مجد الدین کو خبر دی گئی کہنے لگے کہ میرے خرقہ کو سیل کے سامنے رکھ دو۔جب ایسا کیا گیا تو سیلاب واپس ہوگیا۔امام فخرالدین رازی ان کے وقت میں تھےاور ان کی صحبت میں تقرب تبرک ڈھونڈا کرتے تھے۔جب ان کی وفات کا وقت آیا تو شہر میں خشک دروازہ اور فیروزہ باد کے درمیان دفن کیا۔شیخ محمود اشنویؒ اور یہ شیخ محمود مولاناشمس الدین محمد بن عبدالملک دملچیؒ بڑے مشائخ محقق کے اصحاب اور شاگردوں میں سے ہیں اور زمانہ کی حقیقت میں جو باتیں ان کی تصنیف میں ہیں اوروں کی تصانیف میں کم ملیں گے۔
(نفحاتُ الاُنس)