حضرت سلطان ولد علیہ الرحمۃ
آپ نے سید برہان الدین محقق اور شیخ شمس الدین تبریزی کی لائق خدمتیں کی ہیں ،اور شیخ صلاح الدین کے ساتھ جو کہ ان کی بیوی کے باپ تھے،اچھا عقیدہ رکھتے تھے۔۱۱ سال تک چپلی حسام الدین کو اپنا قائم مقام اور باپ کا خلیفہ بنایا تھا۔کئی سال تک اپنے ولد کا کلام کی فصیح زبان اور فصیح بیان سے تقرر کیا کرتے تھے۔ان کی ایک مثنوی ہے،جو کہ حدیقہ حکیم سنائی کے وزن پر ہے۔بہت سے معارف و اسرار اس میں لکھے ہیں۔بارہا مولانا ان کو خطاب کرتے۔انت اشبہ الناس بی خلقا و خلقا یعنی تم مجھ سے خلق اور خلق میں بہت مشابہ ہو۔ان سے بہت محبت کرتے۔کہتے ہیں کہ آپ نے موٹے قلم سے مدرسہ کی دیوار پر لکھ رکھا تھاکہ ہمارا نہاؤالدین نیک بخت ہے،خوش زندگی اور خوش چلتا ہے۔واللہ اعلم کہتے ہیں کہ ایک دن ان پر مہربانی فرماتے تھے،اور کہتے تھے،اے بہاؤالدین ! میرا اس عالم میں آنا،تمہارے ظہور کی وجہ سے تھا۔یہ باتیں میرے قول ہیں اور تیرے فعل۔ایک دن مولانا نے کہا،دمشق میں جاؤ،اور مولانا شمس الدین کو تلاش کرو۔اس قدر سونا چاندی اپنے ساتھ لے جاؤ،اور اس سلطان کی جوتی میں گراؤ،اوران کی مبارک جوتی کو روم کی طرف پھیر دے۔جب تم دمشق میں پہنچو،تو صالحیہ میں ایک مشہور سرائے ہے،جس کو کسرہ کہتے ہیں۔وہاں جانا کہ ا کو وہاں پاؤ گے۔جو فرنگی بچہ کوبصورت کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوں گے۔جب آپ بازی جیت لیتے ہیں،تو سونا اس لیتے،اور جب وہ جیت جاتا ہے،تو آپ تھپڑ کھاتے ہیں۔خبردار انکار نہ کیئو کہ وہ لڑکا بھی اسی گروہ میں سے ہے،لیکن وہ اپنے آپ کو جانتا نہیں۔آپ چاہتے ہیں کہ اس کو اس بات کا آشنا کردے۔جب سلطان ولد دمشق کی طرف گئے،تو مولانا شمس الدین کو وہیں پایا۔جہاں کہ آپ نے ان کا پتہ بتایا تھا۔اسی بچہ سے شطرنج کھیل رہے تھے۔آپ نے ہمراہیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان کے سامنے سر رکھ دیااور بڑی عاجزی کی ۔اس فرنگی بچہ نے جب یہ حال دیکھا،تو ان کی بزرگی کو معلوم کرلیا۔اپنی بے ادیبوں سے نادم ہوا۔سربرہنہ کیا،اور ایمان لایا اور انصاف سے کھڑا ہوگیا۔چاہا کہ جو کچھ رکھتا ہے،اس کو لٹا دے۔مولانا شمس الدین ے نہ چھوڑا،اور فرمایا کہ فرنگستان میں جا،اور اس ملک کے عزیزوں کو مشرف باسلام کر اور اس جماعت کا قطب بن۔بعد ازاں سلطان ولد نے جو کچھ سونا چاندی کے لائے تھے،ان کی جوتی میں ڈال دیا،اور ان کی جوتی روم کی طرف پھیر دی،اور مولانا روم کے تمام مخلصین کی طرف سے درخواست کی۔آپ نے قبول فرمایا۔جو گھوڑا کہ آپ رکھتے تھے۔اس کو کسا۔مولانا شمس الدین سوار ہوئے،اور سلطان ولد پیادہ ان کی رکاب میں روانہ ہوئے۔مولانا شمس الدین نے فرمایا کہ بہاؤ الدین سوار ہو جاؤ۔انہوں نے زمین پر سر رکھا اور کہا کہ بادشاہ بھی سوار اور غلام بھی سوار یہ ہر گز جائز نہیں۔دمشق سے قونیہ تک آپ کی رکاب میں پیادہ گئے۔جب قونیہ پہنچے۔تو مولانا شمس الدین نے مولانا کی خدمتیں مولانا سے بیان کیں،اور کہتے تھے کہ میں نی اس کو یوں کہا،اور اس نے مجھے یوں جواب دیااور بڑی خوشی ظاہر کرتے تھے۔پھر کہا کہ مجھ کو خدائے تعالی کی بخششوں میں سے دو چیز عنایت ہوئی ہیں۔سر اور سر اور سر تو مولانا کی راہ میں اخلاص کے ساتھ مین نے فدا کر دیا،اور سر کو بہاؤالدین ولد کو بخش دیا،اگر بہاؤالدین کی عمر نوح علیہ السلام کے برابر ہوتی۔اور سب کو اس راہ میں صرف کر دیتا،تو وہ بات میسر نہ ہوتی۔جو اس کو اس سفر میں مجھ سے ملی ہے۔امید ہے کہ تم سے بھی حصے لے گا۔جب مولانا انتقال فرماگئے،تو بعد ساتویں دن کے چپلی حسام الدین اٹھے،اور تمام اصحاب کے ساتھ سلطان ولد کی خدمت میں آئے ،اور کہا، میں چاہتا ہوں کہ آج کے بعد باپ کی جگہ پر آپ بیٹھیں۔مخلصوں اور مریدوں کو ارشاد کرواور ہمارے سچے شیخ بنو،اور میں آپ کی رکاب میں کندھے پر زمین پوش اٹھا کر چلوں گا اور غلامی کروں گا۔یہ شعر پڑھا۔
برخانہ دل اے جاں آں کیست کہ استادہ برتخت شاہ کہ باشد جزشاہ شاہزادہ
سلطان ولد نے سر رکھا اور بہت روئے اور فرمایا۔الصوفی اولی بخر قتہ والیتیم احری بخر قتہ۔یعنی صوفی یادہ لائق ہے،اپنے خرقہ کے ساتھ ،اور یتیم زیادہ لائق ہے،اپنے جلن کے ساتھ۔جس طرح تم میرے والد بزر گوار کے زمانہ میں خلیفہ اور بزرگوار تھے۔ویسے یہ اس زمانہ میں ہمارے خلیفہ اور بزرگ ہو۔آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن میرے والد نے کہا،بہاؤالدین! اگر تم چاہتے ہو کہ ہمیشہ بڑے بہشت میں رہو،تو سب کے بنے رہو۔کسی کا غصہ دل میں نہ رکھواور یہ رباعی پڑھی۔رباعی۔
بیشی طلبی زہی بیچکس بیش مباش چوں مرہم وموم باش چون نیش مباش
خواہی کہ زہی بیچکس بتوبد نرسد بدگوئی و آموز وبد اندیش مباش
تمام انبیاء علیہ السلام نے یہی کہا،اور اس عادت کو صورت میں لائے ہیں۔اس لیے تمام لوگ ان کے اخلاق کے مغلوب ہوگئے،اور ان کی مہربانی کے گرویدہ ہوگئے۔جب دوستوں کو یاد کرتا ہے۔تو تیرے دل کا باغ خوشی سے کھل جاتا ہے،اور پھر ریحان سے بھر جاتا ہے،اور جب دشمنوں کا ذکر کرتا ہے،تو تیرے دل کا باغ کانٹے اور سانپ سے بھر جاتا ہے،اور پژمردہ خاطر ہوجاتا ہے۔کہتے ہیں کہ وفات کی رات میں نے خود یہ بیت سنا ہے۔
امشب شب آنست کہ بینم شادی دریا بم ازخدائے خود آزادی
آپ ہفتہ کی رات کو ۱۰ شہر رجب ۷۱۲ھ میں فوت ہوئے ہیں۔
(نفحاتُ الاُنس)