آل احمد اچھے میاں، شمس الدین، ابو الفضل، سید شاہ ، رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: سید آل احمد۔ کنیت: ابوالفضل۔ لقب: اچھےمیاں۔ سلسلۂ نسب اس طرح ہے: حضرت سیدآل احمد اچھے میاں بن حضرت سیدشاہ حمزہ بن سیدشاہ آل محمدبن سیدشاہ برکت اللہ بن سیدشاہ اویس بن سیدعبدالجلیل بن سیدمیرعبدالواحدبن سیدابراہیم بن سیدقطب الدین بن سید ماہربن سیدشاہ بڈہ بن سیدکمال بن سیدقاسم بن سیدحسن بن سیدنصیربن سیدحسین بن سیدعمربن محمدصغریٰ بن سیدعلی بن سیدحسین بن سید ابوالفرح واسطی بن سیدداؤد بن سیدحسین بن سید یحیٰ بن سیدزیدسوم بن سیدعمر بن سیدزید دوم بن سیدعلی عراقی بن سید حسین بن سیدعلی بن سیدمحمدبن سید عیسیٰ بن سید زید شہید بن امام زین العابدین بن سید الشہداء حضرت امام حسین۔(رضی اللہ عنہم)۔(تاریخ خاندان برکات: 7)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت28/رمضان المبارک 1160ھ مطابق اکتوبر1747ء کو مارہرہ مطہرہ(انڈیا) میں ہوئی۔
قبل از ولادت بشارت: حضور صاحب البرکات سید شاہ برکت اللہ نے یہ بشارت دی تھی کہ مجھے بفضل الٰہی چار واسطوں کے بعد ایک لڑکا عنایت ہوگا جس سے رونقِ خاندان دوبالا ہوگی بعدہٗ حضور صاحب البرکات قدس سرہٗ نے اپنا ایک خرقہ عنایت فرمایا اور حکم دیا کہ یہ اس صاحبزادے کےلیے ہے۔ حضرت سیدنا شاہ آل محمد (حضور صاحب البرکات کے بڑے شہزادے )نے حضور اچھے میاں قدس سرہ کو تسمیہ خوانی کے وقت گود میں بٹھا کر ارشاد فرمایا کہ یہ وہی شہزادے ہیں جن کی بشارت والد ماجد نے دی تھی۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ:358)
تحصیلِ علم: آپ نے علومِ ظاہری و باطنی و منازل سلوک کی تکمیل اپنے والد ماجد سے فرمائی، اور آپ کے روحانی معلم حضور سیدنا غوث اعظم محی الدین شیخ عبد القادر جیلانی تھے۔اس کے علاوہ آپ نے فن ِطب باقاعدہ کلیم نصر اللہ صاحب مارہروی سے حاصل فرمایا تھا۔مگر اس علم سے سوائے سِتر تصرُّفات کام نہ لیا جاتا تھا، بظاہر ہر مریض کو معمولی دوایا کسی درخت کے پتے تجویز فرماتے،مگر حقیقتاً خود چارہ سازی فرماتے۔(ایضا:358)
آپ علوم ظاہر ی و باطنی علوم کے بہترین عالم تھے۔اکثر علماء و فضلاء آپ کے خدام تھے۔علماء کے دقیق و مشکل مسائل ایسی خوبی سے حل فرمادیتے کہ عقلیں حیران رہ جاتیں۔ ایک بار حضرت کے آخری عہد میں حضرت مولانا شاہ عبد المجید عین الحق بدایونی جوآپ کے اجلہ خلفاء میں سے ہیں۔عرض کیا کہ مسئلہ ِقرطاس میں ہر چند علماء نے جواب دئے ہیں لیکن حضور میری تسکین ِخاطر فرمادیں؟حضرت نے دوات قلم کا حکم فرمایا معاً حضرت شاہ عین الحق پر مسائل کی تحقیق وارد ہوئی اور فرمایا کہ فقیر پر ہدایات شافی مل چکے ہیں۔۔
ایک شخص نے حضرت نقیب الاشراف بغداد کی خدمت ِبابرکت میں حاضر ہوکر مسئلہِ وحدۃ ُالو جودسمجھنا چاہا۔ حضرت نے ہندوستان کے سفر کی ہدایت فرمائی۔ وہ صاحب علما ومشائخ سے ملتے ہوئے حضرت شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی کی خدمت میں پہنچے، مدعا عرض کیا،مگر تشفّی نہ ہوئی،حضرت محدث دہلوی نے فرمایا۔ آپ مارہرہ شریف حضرت اچھے میاں کی خدمت میں جایئے،وہ آپ کی تسکینِ خاطر فرمادیں گے۔ حضرت کے فضائل و مناقب حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے ’’ملفوظاتِ عزیزی‘‘ میں بلند کلمات کے ساتھ موجود ہیں۔(تذکرہ علمائے اہل سنت:17)
بیعت وخلافت: سلسلہ عالیہ قادریہ میں والد ِ گرامی حضرت شاہ حمزہ مارہروی کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور مجاہدات و ریاضات کے بعد خلافت و اجازت مشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: قدوۃ الکاملین ،قطب العارفین ،عاشق خدا،محبوبِ سرکارِ مصطفیٰ، مظہرِغوث الوریٰ،فخر الاولیاء ، شمس الدین ابو الفضل حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں۔آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے چھتیسویں امام و شیخ طریقت ہیں۔آپ بڑے باکمال و عارف باللہ تھے،کرامات و تصرفات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔علوم ظاہر و باطن میں بحرِ بےکنار تھے۔آپ نے سخت ترین ریاضتیں کیں اور مجاہدات و سلوک میں ایک خاص شان کے حامل تھے۔ غلاموں کی حفاظت وکفالت خود فرماتے اور اخلاقِ نبویﷺکے پیکر تھے۔حضرت عبادت و ریاضت میں بہت بلند رتبہ کے حامل تھے۔آپ ہمیشہ اکتساب اذکار و مراقبات و اشغال میں مصروف رہتے یہاں تک کہ فرائضِ پنچ وقتہ کے علاوہ حَبس کبیر،صلوۃ ِمعکوس و صوم و نوافل اور مجاہدات قویہ و ریاضات باطنیہ کا التزام رکھتے تھے۔ اور طاعات پر طاعات بجا لاتے تھے۔
عادات و معمولات: حضور قدوۃ السالکین سید شاہ آل احمد اچھے میاںرات کے آخری حصے میں میں اٹھ کر حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتے،پھر وضو فرما کر نماز تہجد ادا کرتے بعدہٗ دست مبارک اٹھا کر دین کی ترقی اور متوسلین کے لیے دعائے مغفرت فرماتے،جب دعا سے فارغ ہوجاتے تو فقراء گیارہ مرتبہ ذکر کلمۂ شریف بآواز بلندسے کرتے، اس وقت دروازہ بند ہوجاتا تھا، اور کسی غیر کو خلوت خاص میں باریابی کی مجال نہ ہوتی۔بعدہٗ محل سرا میں تشریف لے جاتے،تھوڑی دیر بعد خانقاہ میں رونق افروز ہوتے اور درویشوں کو طلب فرما کر سب کی قلبی کیفیات کے بارے میں استفسار فرماتے اور بقدر حوصلہ ہر ایک کی اصلاح فرماتے،پھر درگاہ شریف جاکر پہلے اپنے والد ماجد کے مزار پر فاتحہ و قدم بوسی کےلیے حاضر ہوتے،اور پھر والدہ ماجدہ ، جد امجد و عم مکرم کے مزارات پر فاتحہ خوانی کرتے اکثر اوقات درگاہ معلیٰ سے متصل پائیں باغ میں تشریف لے جاتے اور جامن کے درخت کے نیچے دری بچھا کر جلوہ افروز ہوتے وہاں سے اٹھ کر خانقاہ تشریف لے جاتے،اس وقت دربار عام ہوتا، ہر ایک اپنا اپنا مطلب عرض کرتا، آپ اپنے غلاموں کو سخت محنت اور ریاضت سے بچاتے اہل حاجات کو بھی وظائف و اعمال بہت کم مرحمت فرماتے ،زبانی عرض یا عرضی پر حکم ہوتا اورکا م پورا ہوجاتا۔ اپنے اکابر کی طرح تصرفات میں پوشیدگی فرماتے ،دوپہر کے وقت کھانا طلب ہوتا تو گیہوں کی دو یا تین ہلکی چپاتیاں شور بہ یا مونگ کی دال کے ساتھ تناول فرماتے۔اسی طرح آپ کے تمام معاملات ذکر و فکر اور عبادت وریاضت،اور دکھی انسانیت کی خدمت میں گزرتے۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ:360)
فضل و کمال: آثار احمد ی میں لکھا ہے کہ بخارا کا رہنے والا ایک شخص مارہرہ شریف حاضر ہوا ۔اور نماز ِظہر خانقاہ شریف میں پڑھ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ:’’حضرت کا نام سن کر طلب ِحق کے واسطے یہاں آیا ہوں کیونکہ مجھ میں مجاہدہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔حضور کی توجہ سے بے محنت اس عظیم سے مشرف ہونا چاہتا ہوں۔حضرت نے تبسم آمیز لہجے میں فرمایا کہ اتنی بڑی دولت اس قدر جلدی چاہتے ہو؟ حاضرین میں سے ایک شخص نے طعنہ دیا کہ یہ بھی کوئی حلوہ ہے۔ جو تمہارے منہ میں رکھ دیا جائے؟حضرت نے فرمایا ایسا نہ کہو، خدا سے کیا بعید ہے۔پھر اس نوجوان کو ایک درود شریف مع ترکیب تعلیم فرما کر کہا کہ آج رات کو پڑھنا؟ اس نے حسبِ حکم پڑھا۔درود شریف پڑھنے کی حالت میں رسول مقبول ﷺکی زیارت سے مشرف ہوئے اور ایک حالت اس پر طاری ہوگئی جس سے اس کا عقدۂ باطنی کُھل گیا۔صبح کو حضرت کی خدمت بابرکت میں آکر عرض کرنے لگا۔سبحان اللہ! رسول ﷺنے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ہر صدی کے بعد میری امت میں ایک شخص ایسا ہوگا جو میرے دین کو زندہ کرے گا تو وہ ذات مقدس آج اس صدی میں حضور آپ (حضرت اچھےمیاں)کی ہے۔(ایضا)
خزانۂ غوثیہ:حضرت کی تحویل میں ایک چھوٹا سا خزانہ تھا جسے غلہ غوثیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی وسعت کی کوئی انتہا نہ تھی ہزار ہا روپے کے انعام و عطیات اسی خزانۂ غوثیہ سے ادا ہوتے ، صدہا خدام تھے۔ جن کی کفالت خود حضرت فرماتے تھے۔اور اسی خزانہ سے آستانہ کے حاضرین خدام کی جملہ آسائش کا سامان منگواتے باوجود ان اخراجات کے عطیۂ غوثیہ میں کمی نہ ہوتی جو حضرت کی ایک عظیم کرامتوں میں سے ایک زندہ کرامت تھی۔
تین بیٹوں کی بشارت: خلیفہ محمد ارادت اللہ بدایونی نامی آپ کے ایک مرید تھے جو ہمہ وقت اسی فکر میں رہتے تھے کہ خدا وند تعالیٰ ایک بیٹا عطافرمائے۔ایک مرتبہ حضور صاحب البرکات کے عرس میں اپنے مرشد کے رُوبرو کھڑے تھے ۔دریائے سخاوتِ عرفانی جوش پر تھا ۔ارشاد فرمایا: ’’ارادت اللہ کیا چاہتے ہو؟انہوں نے عرض کیا کہ غلام کا کوئی فاتحہ خواں (یعنی بیٹا) نہیں ہے۔آپ نےدعا کی: ’’یارب کریم ہمارے ارادت اللہ کو فرزند دیدے‘‘۔ اس کے بعد فرمایا: خلیفہ! پہلے بیٹے کا نام کریم بخش رکھنا،دوسرے کا رحیم بخش اورتیسرے کا نام الٰہی بخش رکھنا۔ خلیفہ موصوف قدموں میں گر پڑے اور عرض کرنے لگے: ’’حضور ! مجھے تو ایک کی بھی اُمید نہیں تھی ‘‘۔ توآپ نے اپنے سرمبارک کا کلاہ (ایک خاص قسم کی ٹوپی)دینے کے بعد ارشاد فرمایا: ’’خدا کی ذات سے مجھ کو امید ہے‘‘۔خلیفہ ارادت اللہ واپس ہوئے ۔جلد ہی خدا کی قدرت ظاہر ہوئی اوران کے ہاں بیٹا پیدا ہو ا۔ خلیفہ نے اس کا نام کریم بخش رکھا ۔یہاں تک کہ تین سالوں میں 3 بیٹے ہوئے اور تینوں کا نام حضرت کے حکم کے مطابق رکھا ۔(ایضا: 363)
تصانیف و علمی خدمات:آپ کی تصانیف کے بارے میں حضرت علامہ مولانا شاہ سید محمد شاہ مارہروی قدس سرہٗ فرماتے ہیں۔ کہ حضرت کی تصنیف و تالیف سے سب سے بڑی ضخیم کتاب ’’ آئین احمدی‘‘ ہے۔سنا ہے کہ اس کی چونتیس ، بروایتے ساٹھ جلدیں بہت مبسوط اور مختلف علوم و فنون میں تھیں۔ آپ نے علوم متداولہ میں سے کوئی علم و فن ایسا نہیں چھوڑا تھا جو اِس میں بیان نہ کیا گیا ہو۔ اس کی بہت سی جلدیں تلف ہوگئی۔چند خانقاہ شریف اور خاندان کے مختلف حضرات اور خلفاء کے پاس ہیں۔ (2)بیاض عمل و معمول دوازدہ ماہی(3)آداب السالکین مطبوعہ (4)مثنوی اشعار، تصوف میں(5)دیوان ِ اشعار فارسی۔وغیرہ۔آپ کی اولادمیں ایک صاحبزادی اور ایک صاحبزادے ہوئے دونوں کا بچپن میں انتقال ہوگیا۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ:364)
تاریخِ وصال: بروز جمعرات، 17/ربیع الاول 1235ھ مطابق 30/دسمبر1819ء،بوقتِ چاشت، بعمر 75سال، بعارضۂ سرطان اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔آپ کا مزارِ مقدس حضور صاحب البرکات قدس سرہٗ کے مزار مبارک کے دائیں جانب(مارہرہ مطہرہ) میں مرجع جلائق ہے۔
شجرہ شریف میں آپ کا ذکر اس طرح منظوم ہے:
؏: دل کو اچھا تن کو ستھرا جان کو پر نور کر۔۔۔۔۔۔۔اچھے پیارے شمسِ دیں بدر العلیٰ کے واسطے
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
؏: یا ابوالفضل آل احمد حضرت اچھے میاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاہ شمس الدین ضیاء الاصفیاء امداد کن