والد کا نام سیّد عمر بن حاجی محمد ہاشم تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ پائی تھی۔ سلسلۂ قادریہ میں بھی انہی کے مرید و خلیفہ تھے۔ ان کے علاوہ سیّد عبداللہ مکّی، سید عبدالرحمٰن، سیّد محمد[1] بن سیّد علاءالدین حسینی ایسے باکمال بزرگوں سے بھی اخذِ فیض کیا تھا۔ علومِ تفسیر و حدیث و ۔۔۔۔
والد کا نام سیّد عمر بن حاجی محمد ہاشم تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ پائی تھی۔ سلسلۂ قادریہ میں بھی انہی کے مرید و خلیفہ تھے۔ ان کے علاوہ سیّد عبداللہ مکّی، سید عبدالرحمٰن، سیّد محمد[1] بن سیّد علاءالدین حسینی ایسے باکمال بزرگوں سے بھی اخذِ فیض کیا تھا۔ علومِ تفسیر و حدیث و فقہ کی سند اپنے خالو مولانا سیّد اسماعیل گیلانی سے حاصل کی تھی۔ طب مولانا شاہ عبدالرسول زنجانی لاہوری سے پڑھی تھی۔ اپنے عہد کے باکمال عالم و عارف تھے۔ بڑے شہ زور تھے۔ شکار کا بھی شوق تھا۔ ایک دفعہ جنگل میں شیر سے مقابلہ آپڑا۔ اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر ایسا جھنجھوڑا کہ اس کے ہاتھوں کے جوڑ الگ الگ ہوگئے۔ آپ نےجہاں اپنے علمی و روحانی فضل و کمال سے دنیا والوں کو فیض بخشا وہاں طبابت سے بھی خلقِ خدا کی بڑی خدمت کی۔ صاحبِ قلم تھے۔ کتاب کشف الاسرار خورد، کتاب کشف الاسرار بزرگ اور رسالۂ اسرار الکتمانی علمِ حقائق و معارف میں آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔
بقول صاحبِ شجرۃالانوار۔ ۱۱۵۴ھ میں وفات پائی۔ مزار لاہور میں ہے۔ چار فرزند، سیّد یوسف، سیّد محمد غوث، سیّد اصغر علی صاحب ِ شجرۃالانوار، سیّد ابو صالح اولادِ امجاد سے تھے۔
قطعۂ تاریخِ ولادت و وفات:
شاہِ عالم شیخ عبدالقادر است شد عیاں تولید ’’صابر حق پرست‘‘ ۱۰۶۳ھ ارتحالش بگو ’’عالی مرتبت‘‘! ۱۱۵۴ھ
|
|
میرِِ اکبر پیشوا و رہنما! نیز فرما ’’مرشد دیں مجتبیٰ‘‘! ۱۰۶۳ھ نیز ’’مہدی متقی مقتدا‘‘ ۱۱۵۴ھ
|
[1]۔ اپنے عہد کے عالم باعمل اور شیخ کامل تھے۔ شیخ عبداللہ مولّف سراج السالکین کے مرید اور شاگرد تھے۔ سلسلۂ بیعت حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری تک منتہی ہوتا ہے۔ ڈھل محلّہ لاہور میں رہتے تھے۔ مزار محلّہ کاغذ کوباں میں ہے۔