عبدالوہاب گیلانی
بن حضرت غوث الاعظم، سیّد
اسمِ گرامی: سیّد
عبدالوہاب گیلانی۔
کنیت: ابو
عبداللہ۔
اَلقاب: سیف
الدین، فخر الاسلام، جمال الاسلام،قدوۃ العلما، فخرالمتکلمین، قدوۃ السالکین، حجۃ
علی الصادقین اور امامِ اہلِ طریق واہلِ حق۔
حضرت
سیّد عبدالوہاب گیلانی محبوبِ سبحانی
قطبِ ربانی شہبازِ لامکانی غوث الاعظم سیّدنا شیخ
عبدالقادر جیلانی کے فرزندِ ارجمند
اور جانشیں تھے۔
ولادت:
جس
دن سے آپ نے والدہ کے شکمِ مبارک میں قرار پکڑا، اُس دن سے جناب غوث الاعظم اس طرف پشت نہ
کرتے تھے۔ آپ کی ولادتِ باسعادت ماہِ شعبان المعظّم 522ھ مطابق اگست1128ء
کوبغدادِمُعَلّٰی میں ہوئی۔
تحصیلِ
علم:
آپ
نے اپنے والدِ ماجد سے علم الفقہ اورعلم الحدیث کی تحصیل فرمائی۔ اِس کے بعد
ابو غالب احمدبن علی بن احمد المعروف بہ ابن البَنّا اور ابو القاسم سعید بن
الحسین ، اور ابو بکر محمد بن الزاغوانی وغیرہ سے بھی استماعِ حدیث کیا۔ نیز طلبِ
علم کے لیے بلادِ عجم کے دُور دراز شہروں کا سفر کیا اور جیّد علمائےکرام سے
استفادہ کیا اور فاضل و متبحر ہوئے۔ سیّد سعد اللہ الموسوی الرضوی القادری نے کتاب
بحر السرائر میں آپ کے اساتذہ میں ابی منصور عبد الرحمٰن بن محمد بن الواحد اتفراز
اور ابی الحسن محمد بن احمد بن حرفا اور ابی الفضل محمد بن عمر الارموی اور ابی
الوقت عبد الاوّل بن عیسیٰ السبخری کے نام بھی تحریر کیے ہیں۔ آپ اپنے وقت کے جمیع
ائمۂ حدیث کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حدیث سماعت فرمائی (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم
اجمعین)۔ آپ نے تحصیلِ علوم
و فنون کے بعد 543ھ میں اپنے والدِ بزرگوار کے سامنے اُن کی نیابت میں مدرسۂ
سعیدیہ غوثیہ باب الازج میں درس و تدریس میں مصروف ہوگئے۔آپ کے درس
سے بہت سے علما وفضلاء ہوئے۔ایک وقت ایسا آیا کہ زمانہ آپ کو
فخرالاسلام،قدوۃ العلماء،اورفخرالمتکلمین کےالقابات سےیادکرتا تھا۔کیوں کہ
یہ حقیقت ہے۔
؏:بےعلم نتواں راخدا شناخت!
فی
زمانہ مشائخِ
عظام کے سجادہ نشیں علمِ شریعت توپڑھ نہ سکے ،اِس
لیے ’’علمِ لدنی‘‘سےگزارہ کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حضور غوث الاعظماور اُن کے
صاحبزادگان ساری زندگی ’’عُلومِ
مصطفیٰﷺ‘‘پڑھتے اورپڑھاتے رہے۔
بیعت
وخلافت:
اُنیس
(19)سال کی عمر میں 541ھ کو حضرت غوث الثقلین نے
آپ کو خلافت سے مشرف فرمایا۔آپ کی باطنی بیعت سَرورِ عالم ﷺسےتھی۔
سیرت
وخصائص:
شیخ
الاسلام والمسلمین، فخر المتکلمین، سلطان المشائخ و الاصفیا، قدوۃ العلما،مخزنِ
مشاہداتِ ربانی، مَوردِ تجلیاتِ سُبحانی حضرت سیّد عبدالوہاب گیلانی صاحبِ عُلومِ
ظاہری و باطنی تھے، حضرت غوث الثقلین شیخ عبد القادر جیلانی کے فرزندِ اکبر اور مرید و خلیفۂ اعظم و سجادہ نشین
تھے۔ آپ ظاہری علوم کی تحصیل وتکمیل کے بعد
چار سال تک وظائف واواراد میں مشغول رہے۔حضرت غوث الاعظم
کی توجہ سے قلیل عرصے میں مَراتبِ عالیہ پر فائز ہوئے۔ آپ اعلیٰ درجے کے فقیہ،
محدث، فاضل، زاہد، عابد ،شیریں کلام،مفتی اور واعظ تھے۔ آپ کے برادر ان میں سے
کوئی ایسا نہیں تھا جس کو آپ پر ترجیح دی جا سکے۔آپ نہایت با مروّت،کریم
النفس۔حلیم الطبع،منکسر المزاج،صاف گو،صاحبِ جودوسخا،اورادیبِ کامل تھے۔آپ اہلِ علم و خیر کی تعظیم کرنے والے تھے۔ بڑے عقل مند، متقی اور عزت
و فضیلت کے مالک تھے۔ واضح کرامات، قابلِ فخر مقامات، شگفتہ اسرار، روشن بصیرت،
عظیم حالات، گراں قدر احوال، خرقِ عادات و
افعال، سچی باتوں، بلند ہمتوں اور قیمتی رتبوں کے مالک تھے۔آپ کو معارف میں کمالِ
عروج، حقائق میں بہترین راستہ، بلندیوں میں بہت عالی طریقہ سابقین کے مراتب میں
پیش قدمی، اہم منازل کی طرف سبقت، انتہائی نامساعد حالات میں ثابت قدمی،
علومِ شریعت میں وسیع سینہ حاصل تھا۔ آپ حقائقِ
آیات کو ظاہر کرنے والے وسیع کشف اور مشاہدات کے معانی کو کھولنے کی زبردست قدرت
رکھتے تھے۔
آپ
اُن لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی طرف ظاہر کیا،اوران کے
سینوں میں آپ کی ہیبت اور ان کے دلوں میں آپ کی محبت بھردی، اور آپ کو خواص و عوام
کے نزدیک قبولیتِ عامّہ عطا فرمائی۔ آپ کو عالم میں تصرف عطا فرمایا، احکامِ ولایت
میں آپ کو قدرت دی، حقائقِ اشیاء کو آپ کے لیے تبدیل کر دیا۔
عادتوں کو بدل دیا، آپ کی زبان پر غیب کی باتیں جاری کیں۔ آپ کے ہاتھوں پر امور ِعجیب
ظاہر کیے۔ آپ کی زبان پر حکمتیں جاری کیں۔ آپ کو قدوۃ السالکین، حجۃ علی الصادقین
اور امامِ اہلِ طریق واہلِ حق کا لقب دیا گیا۔ آپ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے حضور غوثِ اعظم کے وصال کے بعد اُن کی اَولاد میں سلسلۂ رُشد و ہدایت کی بنیاد رکھی، اورسلف کا طریقہ
واضح کیا۔
وصال:
آپ
کا وصال 25؍ شوّال المکرم 593ھ مطابق11؍ستمبر 1197ء کو ہوا۔
مزارِ
پُراَنوار:
آپ
کامزار پرانوار بغداد ِمعلیٰ مقبرہ حلبیہ میں
ہے۔
ماخذ: شریف التواریخ۔