حضرت سید عبداللہ شاہ الحسنی بغدادی ٹھٹھوی
ف۔ ۱۰۶۰ھ
سندھ کے معروف مرجع خلائق بزرگ ہوئے ہیں آپ کا شجرہ نسب یہ ہے۔ سید عبداللہ بن سید محمود بن سید عبدالقادر بن سید عبدالباسط ، بن سید حسین بن سید احمد بن سید شرف الدین قاسم بن سید شرف الدین یحیی بن سید بار الدین حسن بن سید علاؤ الدین بن سید شمس الدین بن سید شرف الدین یحیی بن سید شہاب الدین احمد بن سید ابو صالح انصر بن سید عبدالرزاق بن غوث اعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہم اللہ اجمعین۔
چونکہ آپ حضرت شیخ عبدالقادر الجیلانی رحمہ اللہ کی اولاد امجاد سے ہیں اس لیے آپ حسنی او حسینی دونوں نسبتوں سے مشرف ہیں، آپ بغداد شریف سے سندھ تشریف لائے شیخ المحدثین سید محمد غوث پشاوری تحریر فرماتے ہیں ‘‘وجد فقیر سید عبداللہ از بغداد چوں بملک تہتہ تشریف آور دنددر آبخا بعضے سادات مشاھیر شدے و والد فقیر ہمانجامتولد ست’’۔ ترجمہ! اس فقیر کےدادا سید عبداللہ جب بغداد سے ٹھٹھہ تشریف لائے اور کسی سید گھرانے میں شادی کی تو فقیر کے والد وہیں پیدا ہوئے تھے۔
(منقول ازقلمی رسالہ، ازشاہ محمد غوث مملوکہ یونیورسٹی لائبریری لاہور0)
ان ہی کے خاندان کے ایک بزرگ سید محی الدین جو شاہ محمد غوث کے پوتے اور خلیفہ ہیں فرماتے ہیں۔
‘‘چوں اوشاں (سید عبداللہ) بعزم سیاحت از بغداد شریف کہ وطن اصل آباؤ اجداد ایشاں بود آمدند تادر ملک تھتھہ رسید ندو آنجابمو جب قید لماء اشد من قید الحدود چندروز توقف بوقوع آمد مردم آں ملک بسیرا گرویدہ جب سید ندو آنجا بموجب قید الماء اشد من قید الحدود چندروز توقف بوقوع آمد مردم آں ملک بسیرا گرویدہ شدند معتقد شدند ہر گز نہ گذاشتدکہ اینجا بجائے دیگر تشریف فرمایند ، یعنی جب سید عبداللہ صاحب اپنے آباو اجداد کے اصلی وطن بغداد شریف سے سیاحت کے لیے او ر اتفاقاً ٹھٹھہ پہنچے تو وہیں قیام کرنا پڑگیا کیونکہ وہاں کے باشندے آپ کے بہت معتقد ہوگئے اوراس طرح آپ کو وہاں سے نکلنے نہ دیا۔’’
سید عبداللہ شاہ صحابی سے اہل سندھ کی بے انتہا عقیدت اوران کے خوارق و کرامات نیز ان کے مزار شریف کے فیوض و برکات ، ایسے حقائق ہیں جو مسلم ہیں، لیکن ان کی شخصیت کے بارے میں کچھ تاریخی مشگافیاں پائی جاتی ہیں اس سلسلہ میں ہمارے بزرگ علامہ محمد امیر شاہ قادری نے کافی تحقیقی کام کیا ہے جس پر ہم اعتماد کر سکتے ہیں اور یہ تمام قیل و قال اختصار کے ساتھ ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔
یہاں پر ایک غلطی کا ازالہ ضروری ہے جو عام طور پر کی جارہی ہے، جناب! اصغر ملک روزنامہ مشرق پشاور مورخہ ۲۳ جولائی ۱۹۷۱ء میں کہتے ہیں کہ سید حسن کے دادا بغداد شریف سے ٹھٹھہ تشریف لائے اورپھر یہ ملک صاحب روزنامہ مشرق مورخہ ۵/ستمبر/۱۹۷۱ء میں لکھتے ہیں کہ سید عبداللہ صحابی گجرات سے ٹھٹھہ تشریف لائے، اسی طرح محترم پیام شاہجہانپوری نے ایک کتاب شاہ محمد غوث کی زندگی پر لکھی ، اس میں آپ شاہ صاحب کے نام اور ہندوستان میں تشریف آوری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کے جدامجد کا نام سید محمد تھا اور بغداد سے ترک وطن کر کے ٹھٹھہ میں قیام پذیر ہوئے ، مفتی غلام سرور لاہور نے بھی حضرت شاہ محمد غوث کے جدامجد کا نام سید محمد لکھا ہے، حالانکہ یہ درست نہیں شاہ محمد غوث کےجد امجد کا نام سید محمود نہ تھا اور نہ ہی وہ کبھی سندھ تشریف لائے ، امر واقعہ یہ ہے کہ سید محمد شاہ محمد ث غوث کے کے جدامجد کے والد گرامی تھے اور وہ بغداد ہی میں رہے، اور وہیں وفات پائی، شاہ محمد کے جدامجد کا نام سید عبداللہ تھا اور یہی سید عبداللہ بغداد سے سندھ میں تشریف لائے اور ان ہی کا مزار ٹھٹھہ میں مرجع خلائق ہے۔
(تذکرہ شاہ محمد غوث ، از ہیام شاہجہا نپوری ،ص۲۰)
دوسری غلطی کا ازالہ:
دوسری غلطی کا ازالہ جو اصغر ملک صاحب نے کی وہ یہ ہےکہ سید عبداللہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ س آپ نے تمام عمر تجرد حالت میں گذاری ، معلوم نہیں کہ صاحب مضمون نے یہ غلط فقرہ کس طرح لکھ دیا کہ ‘‘تمام عمر مجرد ہے’’ حالانکہ یہ اصغر ملک صاحب نے ۲۴/ جولائی/ ۱۹۷۱ء کے روزنامہ مشرق میں لکھتے ہیں کہ ‘‘ حضرت کا اسم گرامی سید حسن اور والد کا نام سید عبداللہ تھا، آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے جاملتا ہے، اور پھر چند جملوں کے بعد لکھ دیا کہ ٹھٹھہ ہی میں سید حسن کی ولادت ہوئی، غالباً اصغر ملک صاحب کو یہ غلطی اس لیے لگی ہے کہ جناب اعجاز الحق قدوسی صاحب نے بھی آپ کے بارے میں یہ جملہ کہہ دیا ہے کہ ‘‘ چناں چہ تمام زندگی تجرد میں گذار دی’’ دراصل اس غلطی کا سر چشمہ فارسی زبان پر عبور کا نہ ہونا اور عبادت فہمی کے ملکہ سے عاری ہونا ہے، چوں کہ اکثر حضرات نے یہ احوال تحفۃ الطاہرین فارسی سے نقل کیے ہیں اور اس میں یہ عبادت موجود ہے، ورد مکلی گوشہ عزلت گزیدہ ، مجرد و حصوں بغوان اختفاء بیاد خدا اشغال داشت ۔
(تحفۃ الطاہرین ص۵۷)
اس لیے بعض حضرات نے یہ سمجھ لیا کہ آپ تمام زندگی غیر شدہ رہے، حالانکہ یہاں مجرد حصور کے معنی صرف شغل الی اللہ، یعنی تارک الدنیا کے ہیں ، نہ کہ غیر شادی شدہ کے ، اس لیے اس کی تفسیر خود مصنف نے ‘‘بعنو ان اختفاء’’سے کردی ہے ، مزید یہ کہ حصور کا لفظ مستقبل کے معنی میں قرآن کریم میں حضرت زکریا کے بارے میں بھی وارد ہے، فرمان الہٰی ہے۔ وکان سیداو حصورا۔ (مولف)
(روزنامہ مشرق۵ ستمبر ۱۹۷۱ء)
پھر یہی قدوسی صاحب تذکرہ صوفیاء سرحد میں لکھتے ہیں سید حسن کے والد کا نام سید عبداللہ گیلانی تھا، نیز تذکرہ صوفیاء پنجاب میں بعنوان شاہ محمد غوث لاہوری گیلانی کے حاشیہ پر لکھتے ہیں کہ پیر حسن پشاوری اپنے والد سید عبداللہ گیلانی کے مرید و خلیفہ تھے اور ان کے دادا سید محمود بغداد سے تشریف لاکر ٹھٹھہ میں سکونت پذیر ہوئے، سید محمود سید کے بعد ان کے صاحبزادے سید عبداللہ نے پشاور میں سکونت اختیار کی، حالانکہ یہ بات صریحا غلط ہے، سید عبداللہ ہرگز پشاور تشریف نہیں لائے، دراصل سید حسن پشاور تشریف لائے تھے، جیسا کہ خواجہ اعجاز الحق نے اپنی کتاب صوفیاء سرحد میں تسلیم کیا ہے۔
(تذکرہ صوفیاء سرحد اعجاز الحق قدوسی، ص ۳۸۷، ۳۸۶، ۳۸۸)
تیسری غلطی کا ازالہ:
ایک مضمون بعنوان حضرت عبداللہ شاہ اصحابی ٹھٹھوی انعام محمد صاحب کا روز نامہ جنگ میں شائع ہوا ہے۔ اس میں لکھتے ہیں ، جن دو حضرات کو غوث اعظم نے خواب میں ٹھٹھہ بھیجنے کا حکم دیا ہے، ان میں سے ایک سید عبدالبرکات تھے جن کے بڑے صاحبزادے بھی ہمیشہ اسلام کی تبلیغ کرتے رہے انہوں نے خصوصاً کشمیر اور پونچھ کے علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کی اور اسے اسلام کا گہوارہ بنانے کی ہمیشہ سعی کیاور ان کے (سید عبدالبرکات)پوتے جو حضرت شاہ محمد غوث کے نام سے مشہور ہوئے یہ بھی اپنے زمانہ کے نامور بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں ان کا مدفن لاہور میں ہے، افسوس کہ صاحب مضمون نے یہ مضمون بلا تحقیق لکھ دیا۔
تبلیغ اسلام:
آپ ہمیشہ یاد الہٰی زہد و عبادت میں مشغول رہتے مخلوق خدا سے یکسو رہتے اور اگر لوگوں سے ملتے تو وعظ نصیحت کرتے اور گناہوں سے توبہ کرواتے ، آپ کی نظر میں شاہ و گدا، امیر وغریب سیاہ سپید سب برابر تھے، مخلوق خدا کے ساتھ محبت پیار کا خاص و صف تھا ، یہی وجہ تھی کہ اگر کوئی غیر مسلم بھی آپ کی صحبت میں آجاتا تو وہ آپ کے اخلاق حسنہ کا گرویدہ ہوکر آپ پر پروانہ وار قربان ہوتا آپ کی استقامت فی الدین ، عالی ہمتی اور عزم راسخ کی بدولت سندھ کے علاقہ میں گمراہی اور ضلالت یکسر ہدایت و معروفت سے بدل گئی اور آپ نے قوت ولدیت محمد کی بدولت بھٹکی ہوئی روحوں کو کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی دولت سے سرشار فرمایا، آپ اور آپ کی اولاد امجاد نے بر صغیر پاک و ہند کے قریہ قریہ میں اسلام اور خاص طور پر سلسلہ قادریہ کی نشرو اشاعت کی۔
کرامت:
علامہ محمد امیر شاہ قادری اپنے جد بزرگوار سید سعید احمد شاہ قادری سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبداللہ اصحابی مکلی پر مصروف عبادت تھے کہ برہمنوں کا ایک گروہ ادھا اشنان کے لیے جارہا تھا ، یہ لوگ آپ کے قریب ہی خیمہ زن ہوئے آپ موقع مناسب سمجھ کر ان کے پاس تبلیغ کے یلے پہنچے اور اللہ کی توحید قدرت اور عظمت کا درس دیا، وہ بولے بابااب باتوں کو چھوڑو ، اگر تمہارا رب واقعی کچھ کر سکتا ہے تو ایسا ہوکہ ہم سب سوجائیں تو تمام کے تمام واردھا اشنان کرلیں اور جب ہم اٹھیں تو ہمسب کے کپڑے بھیگے ہوئے ہیں، آپ نے فرمایا انشاءاللہ میرا رب ایسا ہی کرے گا، جب صبح ہوئی تو ان کے تمام مرد زن بھیگے ہوئے اٹھے ان کو شاہ صاحب کی کرامت اورخدا کی توحید کا یقین ہوگیا، صبح کی نماز سے فارغ ہوکر آپ نے انہیں مشرف بہ اسلام کیا، انہوں نے تین باتوں کے لیے آپ سے استدعا کی، ایک تو یہ کہ ہماری اولاد کثرت سےہو، دوسرے یہ کہ ہم تجارت میں کامیاب رہیں، تیسرے یہ کہ ہم میں حسن موجد رہے، آپ نے فرمایا کہ انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔
(اگر یہ درست ہے کہ میمن حضرات یہی لوگ ہیں جو حضرت شاہ صاحب کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے تو مذکورہ تینوں باتیں اس قوم میں موجود ہیں۔ حسن اگر چہ عموماً نہیں ہوتا ہے مگر خواتین میں عموماً ہے ۔ مولف)
آپ نے انہیں حکم دیا کہ تم جہاں بھی رہو مساجد آباد رکھو اور جہاں مسجد نہ ہو وہاں خوب عالی شان مسجد بناؤ، پھر آپ نے ان کے سردار کا نام عثمان رکھا، اس کی تعلیم و تربیت بذات خود فرمائی ، اس کو خلافت سے نوازا ، اس خلیفہ کا مزار آپ کے قدموں میں ہے، یہ لوگ میمن کہلائے ،آپ کی تبلیغی مساعی سے سندھ کا چپہ چپہ مرکز ایمان و عرفان بن گیا۔
(میرا خیال ہے کہ ‘‘میمن’’ کا بگڑا ہوا تلفظ ہے ۔مولف)
صحابی کے لقب سے شہرت
آپ کو صحابی کے لقب سے کیوں یاد کیا جاتا ہے، تو اس سلسلہ میں ہمارے پاس وہ روایت ہے جو سید غلام صاحب نے اپنے رسالہ خوراق عادات میں درج فرمائی ہے اور جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ‘‘جب سید عبداللہ صاحب کو مرض وفات لاحق ہوا تو حکم دیا کہ گھر میں فرش بچھایا جائے اور چپہ چپہ معطر کیا جائے، پھر سوائے اپنے دو بیٹوں کے سب کو باہر جانے کا حکم دیا اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ حضور سرور کائناتﷺمع کبار صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم و حسنین کریمین و غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ بہ نفس نفیس اس جگہ تشریف لائے، آپ ان حضرات کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور صلوٰۃ وسلام عرض کیا، پھر عرض پر دراز ہوئے کہ زہے قسمت کہ حضور نے اس غم زدہ غلام کو اپنے قدوم فیض لزوم سے مشف فرمایا، آپ نے فرمایا! بیٹا میں تیرے استقبال کے لیے آیا ہوں، آپ نے عرض کیا یہ غلام بھی آپ کی قدم بوسی کا مشتاق ہے مگر ان دونوں غلام زادوں کی طرف سے پریشان ہوں کہ انک کیا بنے گا، آپ نے فرمایا تسلی رکھو ہم ان کے کفیل ہیں،پھر آپ نے سید حسین کا ہاتھ پکڑ کر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا کہ ان کی تربیت کرو ،یہ تمہارا بیٹا ہے، حضرت علی نے ان کا ہاتھ غوث اعظم کے ہاتھ دے دیا سید حسن فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے مجھ پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ مجھے اپنے آپ کی کوئی خبر نہ رہی یہاں تک کہ میرے والد وفات پا گئے اور ان کو دفن کردیا گیا تین دن بعد جب مجھے ہوش آیا تو لوگوں نے بتایا کہ ہم نے ہر چند آپ کو ہوش میں لانے کی کوشش کی مگر آپ ہوش میں نہ آئے، لاچار والد صاحب کودفنا دیا ،پھر آپ نے والد صاحب کے مزار پر جاکر دعا کی اس واقعہ کو اتنی شہرت ہوئی کہ سید عبداللہ کو لوگ صحابی کہنے لگے، نیز یہ بھی منقول ہے کہ جس حدیث کے بارے میں آپ کو کچھ تذبذب ہوتا تھا آپ حضورﷺ سے روبرو ہو کر اس کی تصحیح کرالیتے تھے۔
(تذکرہ سید عبداللہ شاہ از محمد امیر شاہ قادری یکہ توت پشاور ص۲۱، ۲۵ فقیر مولف کہتا ہے کہ ایسی کرامات دوسرے اولیاء کرام سے تواتر ہیں اور یہ بھی منقول ہے کہ اس واقعہ کے بعد خاص طور پر عقیدت مند آپ کو صحابی کہنے لگے ہوں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ صحابی بالاتفاق ایک خاص اصطلاح ہے جو ان حضرات کے ساتھ مختص ہے جنہوں نے ایمان کی حالت میں حضوراکرمﷺ کی زیارت آپ کی وفات سے قبل کی ہو۔ ان حضرات کے علاوہ کسی کوصحابی کہنا جائز نہیں ہے۔)
بیعت:
آآپ اور آپ کے تمام اجداد حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ تک اپنے اپنے والد ہی کے مرید ہوتے چلے آئے، آپ کا سلسلہ بیعت بعینہ سلسلہ نسب ہے۔
وصال:
حضرت سید عبداللہ شاہ صاحب کا سن وصال بقول سید غلام صاحب ۱۰۶۰ھ ہے۔
مزار شریف:
مزار شریف مکلی پر مرجع خلائق ہے، اگر چہ مکلی پر بے شمار اولیاء اللہ کے مزارات ہیں مگر کراچی اور سندھ کے دوسرے حصوں سے قافلے کے قافلے اسی مزار کی زیارت کا عزم لے کر ٹھٹھہ حاضر ہوتے ہیں اوریہ شیخ کی عظمت کا ثبوت ہے کہ متعدد بزرگوں اور عقیدت مندوں کی قبروں کے باعث آپ کے مزار کے گرد پورا قبرستان بن گیا ہے، اس وقت مزار کے قریب ایک پرانی مسجد ہے اس پر ۱۰۹۳ھ کا کتبہ موجود ہے کتبہ پر یہ شعر کندہ ہے۔
زہے فیض مسجد کہ ازیک دعا
شود حاجت مستمدا روا
بتاریخ ہفت دھم ماہ صفر۔ ختم بالخیر و الظفر
مزار کی تعمیر جدید ۱۳۵۰ھ/ ۱۹۳۱ء میں ہوئی۔
کرامت:
بزرگان دین کی کرامات زندگی میں بھی ظاہر ہوتی ہیں اور بعد از وقات بھی کیوں کہ کرامت کمال روحانی ہے او روح بہرصورت باقی رہتی ہے، صاحب تحفۃ الکرام نے لکھا ہے کہ سید عبداللہ کی قبر پرانی ہوجانے کے باعث منہدم ہونے کو تھی اس عہد کے مشہور بزرگ حافظ اسد گجراتی کو گجرات ہی میں شیخ عبدالقادر جیلانی کا حکم ہوا کہ وہ ٹھٹھہ پہنچ کر سید صاحب کی قبر درست کریں، چناں چہ شاہ حافظ اسد اپنے خلیفہ محمد یعقوب اور خلیفہ ابو البرکات کے ہمراہ ٹھٹھہ پہنچے یہاں آکر مشہور بزرگ سیدعلی ثانی شیرازی سے حضرت غوث اعثم کا فرمان بیان کیا، آپ نے فوراً مراقبہ کیا، تھوڑی دیر بعد سر اٹھایا اور فرمایا کہ میں نے اس وقت سیدعبداللہ کو اولیاء کی محفل کی صدر نشین دیکھا ہے، پھر یہ تمام حضرات اسی وقت اٹھے اور ان سب نے مل کر حضرت عبداللہ کے مزار مبارک کی مرمت کی، شیخ محمد یعقوب اور خلیفہ ابو البرکات پتھر اٹھا کر لاتے اور سید علی شیرازی اور حضرت حافظ اس پتھروں کو مزار مبارک پر لگاتے جاتے تھے۔
(تحفۃ الطاہرین ص۵۷، ۵۸ طبع سندھی ادبی بورڈ)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )