حضرت مسعود علی قادری سید مفتی علیہ الرحمۃ
و ۱۹۰۹ء ف ۱۳۲۷ھ/ ۱۳۹۳ھ/۱۹۷۳ء
رشد و ہدایت اور علم و عمل کے پیکر عظیم استاذ العلماء حضرت مفتی سید مسعود علی ابن مولوی حافظ سید احمد علی بن سید قاسم علی بن سید ہاشم علی رحمہم اللہ اجمعین سر زمین ہند کے ایسے خانوادے سے متعلق ہیں، جو علم اور عمل کے دونوں میدانوں کا شہسوار تھا، مولانا قدرت اللہ جنگ آزادی ہند کے ایک عظیم ہیرو، آپ کے اسلاف میں سے تھے۔
آپ علی گڑھ (ہند) کی ایک بستی بوڑھا گاؤں میں ۱۹۰۹ء/۱۳۲۷ھ کو پیدا ہوئے آپ کی تعلیم کی ابتدا مارہر (ہند) میں ہوئی۔ ۱۹۱۹ء میں آپ جامعہ لطیفہ علی گڑھ میں داخل ہوئے یہاں مولانا عبدالرحمٰن سے شرف تلمذ ہوا، ۱۹۲۱ء میں مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں (علی گڑھ) میں داخل ہوئے، جہاں شیخ المحدثین مولانا وجیہہ الدین خان رامپوری مدظلہ العالی نعمانی، قاری محی الدین وغیرہم سے پڑھا، ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۱ء تک مدرسہ عالیہ رامپور میں شیخ فضل حق رامپوری شیخ افضال الحق رامپوری سے پڑھا اور یہیں حضرت مولانا وجیہہ الدین رامپوری سے حدیث کی سند لی، فراغت کے بعد اپنے استاذ حدیث کے حکم پر مدرسہ نعمانیہ دہلی شریف لے گئے جہاں تدریس کے فرائض انجام دیئے، ۱۹۳۴ء میں مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں (ضلع علی گڑھ) میں بحیثیت مدرس و مفتی مقرر ہوئے، پھر ہجرت پاکستان تک یہیں درس و تدریس اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا، ۱۹۵۱ء میں ملتان (پاکستان)تشریف لائے تو مدرسہ انوار العلوم ملتان میں بحیثیت مفتی و مدرس مقرر ہوئے، بعد میں نائب مہتمم ہوئے، پھر مرض قلب لاحق ہوگیا تو اپنے صاحبزادے مفتی سید شجاعت علی قادری کے پاس کراچی تشریف لے آئے یہاں دارالعلوم امجدیہ میں بحیثیت مفتی، تادم آخر خدمات انجام دیں۔
آپ سلسلہ قادریہ میں حضرت مکھن میاں بریلوی مدظلہ العالی کے دست حق پرست پر بیعت کی اور انہیں سے خلافت لی، ۵ /محرم/۱۳۹۳ھ مطابق ۹/فروری/۱۹۷۳ء مسجد قصاباں صدر کے مکان میں نماز جمعہ پڑھانے کے بعد بعارضہ قلب وفات پائی، دو مرتبہ نماز جنازہ ہوئی ایک مرتبہ شہر میں حضرت مولانا شاہ احمد نورانی الصدیقی نے پڑھائی اوردوسری مرتبہ میں مفتی سید شجاعت علی قادری نے ، آپ کے لیے نارتھ ناظم آباد کے قبرستان میں ایک الگ قطعہ زمین حاصل کیا گیا ، جس میں آپ آسودہ خواب ہیں۔
(ماخوذاز مقدمہ مجدد الامہ ، عربی طہ مرکزی انجمن اشاعۃ الاسلام میٹھاور کراچی ، پاکستان)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )