سید بہاءالدین بہاول شیر کی اولادِ امجاد سے تھے۔ حضرت صفی الدین سیف الرحمٰن کی کوئی اولادِ نرینہ نہ تھی اور اس وقت تمام خاندان میں آپ ہی جوہرِ قابل تھے اس لیے متفقہ طور پر سجادہ نشین مقرر ہوئے۔ ذاتی فضل و کمال کے باعث اپنے عہد کے مشائخ قادریہ میں ممتاز الوقت تھے۔
صاحبِ تذکرہ حضراتِ حجرہ لکھتے ہیں۔ شیخ اشرف لاہوری جو صاحبِ دعوتِ اسمائے الٰہی اور امرائے عالمگیری سے تھے انہوں نے رؤ سائے قوم کھو کھر میں سے ایک شخص کی حسین و جمیل دختر کے ساتھ نکاح کرنا چاہا مگر ا س کا باپ اس امر پر راضی نہ ہوا کیونکہ وہ اپنی لڑکی کی شادی مشائخ سادات میں کرنا چاہتا تھا اور اس غرض کے لیے سجادہ نشین حضرت گنج شکر کی خدمت میں بھی حاضر ہوا مگر وہ بھی آمادہ نہ ہوئے۔ اسی طرح دیگر اکابر نے بھی شیخ اشرف لاہوری کے اثر و رسوخ کے باعث انکار کردیا۔ آخر وہ ہر طرف سے مایوس ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس کی لڑکی کو اپنے نکاح میں قبول کرلیا۔ شیخ اشرف نے جب یہ خبر سنی تو عالمگیر کے پاس شکایت کی اور خود نکاح کے دعویدار ہوا۔ بادشاہ نے آپ کو دہلی طلب کیا۔ آپ دہلی پہنچ کر شہر کے باہر اپنے خیمہ میں ٹھہرے اور اپنے آنے کی اطلاع بادشاہ کو دی۔ آپ کا ایک ارادت مند بادشاہ کے خاص ملازمین میں سے تھا اس نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کی بادشاہ شیخ اشرف لاہوری کی پاسداری و لحاظ کی وجہ سے آپ کے متعلق کچھ اور ہی خیال رکھتا ہے اگر حکم ہو تو آج رات ہی بادشاہ کا کام تمام کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا: ہر گز نہیں، بادشاہ باسبانِ خلق ہے اپنی حد سے تجاوز نہیں کرے گا۔ اگر اس نے ایسا کیا تو میں نے اللہ تعالیٰ سے چاہا ہے کہ اس کی بجائے کسی اور کو بادشاہ مقرر کردے۔ اس اثنامیں شیخ عالمگیر نے شیخ اشرف مدعی کو حکم دیا کہ وُہ بھی شہر کے باہر جا کر جس جگہ سیّد محمد امیر مدعا علیہ نے خیمہ لگایا ہوا ہے۔ وہیں جا کر اپنا خیمہ لگائے اور مقدمے کے فیصلے تک وہیں رہے۔ وُہ اس وقت قصرِ شاہی میں مقیم تھا اس نے انتقالِ مقام کو اپنی ذلت و شکست تصور کیا اور مقدمہ سے دست بردار ہوگیا۔ آپ مظفر و منصور واپس آئے۔ جن دنوں آپ دہلی میں قیام پذیر تھے آپ کے علمی و روحانی فضل و کمال کا شہرہ سُن کر عالمگیر بھی ایک روز آپ کی ملاقات کے لیے خیمہ میں حاضر ہوا۔ آپ نے جب بادشاہ کے آنے کی اطلاع پائی تو اٹھ کر بیت الخلا میں چلے گئے اور وہاں سے ایسے غائب ہوئے کہ کسی کو کچھ پتہ نہ چلا۔ بادشاہ نے کچھ عرصہ انتظار کیا پھر آپ کے فرزند سیّد نور الدین محمّد کو دریافتِ حال کے لیے بھیجا۔ جب انہوں نے بیت الخلاء کے دروازے پر آکر آواز دی تو نہ کچھ اشارہ ہُوا اور نہ جواب آیا۔ آپ نے واپس آکر بادشاہ سے حقیقتِ حال بیان کی، چنانچہ وُہ بغیر ملاقات کے واپس آگیا۔ پھر حضرت کی تلاش شروع ہُوئی۔ معلوم ہوا کہ آپ قطب مینار پر تشریف فرما ہیں آپ نے صاحبزادہ کو قوالوں کی قوالی کرنے کا حکم دیا۔ جب قولی کی آواز آپ کے کان میں پڑی، نیچے تشریف لے آئے۔
نقل ہے: آپ بادشاہ کے حکم سے دہلی تشریف لاتے ہوئے ایک رات منزل گاہ میں آرام کر رہے تھے کچھ خدام اپنی اپنی جگہوں پر سو رہے تھے۔ ایک خادم آپ کے پاؤں دبا رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ آپ کے پاؤں کی جانب ایک عجیب و غریب شکل کا انسان کھڑا ہے۔ خادم نے عرض کیا: حضرت! یہ کون شخص ہے؟ فرمایا: تجھے اس سے کیا کام، جا تُو آرام کر۔ وُہ جا کر اپنی جگہ لیٹ گیا مگر خوف کے مارے رات بھر اسے نیند نہ آئی۔ صبح کو پھر حضرت سے دریافت کیا۔ فرمایا: وہ جنّوں کا بادشاہ تھا اور کہتا تھا کہ اگر ارشاد ہو تو ابھی سب کچھ درہم برہم کردوں۔ مگر میں نے اُسے اجازت نہیں دی اور اپنے کام کو خدا کے حوالے رکھا۔
۱۱۰۲ھ میں بعہدِ اورنگ زیب عالمگیر وفات پائی۔ مزار حجرہ میں زیارت گاہِ خلق ہے۔
شد بہ جنّت چو میر بالا پیر!! |
|
طرفہ سالش زخامہ تحریر است |