رئیس العلماء حضرت مولانا سید محمد سلیمان اشرف بہاری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: سید سلیمان اشرف بہاری۔لقب: رئیس المتکلمین، شمس المحققین۔ سلسلۂ نسب: مولانا سید سلیمان اشرف بہاری بن مولانا حکیم سید محمد عبد اللہ قدس سرہما۔والدہ محترمہ حضرت بی بی صائمہ خواہر ِ حقیقی ( سگی بہن) حضرت غوث العالم مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کے خلف وفرزند ودرویش حضرت مخدوم سید دوریش بھیہ شریف کی اولاد امجاد سےخاندانی تعلق ہے۔(حیات ِ مخدوم الاولیاء محبوب ربانی:425)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1295ھ مطابق 1878ء کو ’’محلہ میر داد، قصبہ بہار شریف،ضلع نالندہ(انڈیا) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: فارسی اور ابتدائی عربی درسیات پڑھنے کے بعد اسکول میں داخل ہوئے۔آپ کےابتدائی استاذ مولانا قاری نور محمد چشتی نظامی فخری (م 1316ھ)تھے،اورانہیں سے بیعت ہوئے۔مولانا فضل حق خیر آبادی کے نامور شاگرد مولانا محمد احسن استھانویسے متوسطات تک درسِ نظامی پڑھ کر کانپور گئے۔وہاں حضرت استاذا لعلماء حضرت مولانا ہدایت اللہ رام پوریکی خدمت میں رہ کر علوم وفنون میں مجتہدانہ بصیرت حاصل فرمائی۔پھر مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت میں شیخ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتیسےدورۂ حدیث کیا۔آپ کےہم درسوں میں ایک نام صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمیکابھی ہے۔(ایضا:425)
فائدہ: سلیمان ندوی نے تحریر کیا ہے کہ آپ نےدارالعلوم ندوۃ العلماء میں بھی پڑھا ہے،جبکہ ندوۃ العلماء کا ابتدائی درجہ 9/جمادی الاولیٰ 1316ھ/16ستمبر1898ء میں کھولاگیا تھا۔حضرت موصوف تکمیل علوم کےبعد 1314ھ میں مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت سے دورۂ حدیث کرکے وطن آگئے تھے۔ربیع الاول 1318ھ میں مدرسہ حنفیہ کےآغاز وافتتاح کےوقت افتتاحی تقریر بھی فرمائی۔اسی طرح آپ کو استاذالعلماء حضرت مولانا یار محمد بندیالویکےشاگردوں میں شمار کیا جاتاہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا سید سلیمان اشرف نے جس مدرسے کی افتتاحی تقریر فرمائی،اسی مدرسے میں محرم 1323ھ میں مولانا بندیالوی شرح اشارات مع المحکمات،شرح مطالع،تلویح توضیح، طحاوی شریف،حاشیہ بیضاوی پڑھتے تھے۔(ایضا:425)
بیعت وخلافت: سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ سلیمانیہ میں حضرت مولانا قاری نور محمد چشتی نظامی سےبیعت ہوئے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلویسے خلافت واجازت حاصل تھی۔مخدوم الاولیاء، شبیہِ غوث الاعظم، حضرت سید شاہ علی حسین اشرفیسےبھی خلافت واجازت حاصل تھی۔(تذکرہ علمائے اہل سنت:101/عظمتوں کےپاسباں:95/حیات مخدوم الاولیاء:425)
سیرت وخصائص: رئیس المتکلمین،شمس المحققین،سندالعلماء الکاملین،جامع المنقول والمعقول،فخر اہل سنت،محسنِ ملت، حضرت علامہ مولانا پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاری۔آپ چودہویں صدی کےجید عالم دین،اور عصری ودینی علوم کا حسین امتزاج تھے۔آپ کی ہمہ گیر اور مثالی شخصیت کا اگر تحلیل وتجزیہ کیا جائے تو علم وفضل،زہدوتقویٰ،شرافت ونجابت،اور ذوق و وجدان کی نفاست، آپ کی شخصیت کےعناصر اربعہ قرار پاتےہیں۔علم وحکمت،فضل وکمال،مال ومنال،جودونوال،تقریر وتحریر،تعلیم وتدریس،تحقیق وتنقید،تنقیح وتدوین، غرض کہ ہر جہت سے آپ اعلیٰ واشرف تھے۔عالم،فاضل،ادیب وکامل،نقاد ومحقق،اور ماہر لسانیات کی حیثیت سےآپ کی عظمت مسلم ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم عصر علماء ومشائخ اور بعد کےارباب ِ علم وبصیرت نے آپ کےفضائل ومحاسن اور کمالات کاکھلے دل سے اعتراف کیاہے۔آپ کی جاذب نظر شخصیت نےصرف دینی طبقے کونہیں بلکہ کالجز،یونیورسٹیز،کےادباء ومحققین،اور اپنوں کے علاوہ بیگانوں نےبھی آپ کی علمی وروحانی شخصیت کو خراج ِ تحسین پیش کیاہے۔آپ1908ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کےشعبۂ اسلامک اسٹڈیز کےچیئرمین مقر ہوئے۔ یونیورسٹی آف علی گڑھ کے خلاف جب ابوالکلام آزاد،مولوی محمود الحسن دیوبندی اورمولانا محمد علی جوہر نے زبردست تحریک چلائی توآپ نےمولانا حبیب الرحمٰن شیروانی اور ڈاکٹرسرضیاء الدین کے ساتھ مل کر اس ادارےکی بھرپورحمایت اورمکمل دفاع کیا۔بالخصوص اگر آپ میدان میں نہ آتے تو جوملک وملت کا نقصان ہوتاوہ سب کےسامنےعیاں ہے۔آپ نے تا حیات بڑے جاہ وجلال کے ساتھ فرضِ منصبی ادا کیا۔قدرتِ ایزدی نے آپ کو حیرت انگیز صلاحیتوں سے نوازاتھا۔خطابت میں بلا کا زور تھا۔جس وقت گفتگو فرماتے تو دریا کی روانی کا نقشہ سامنے آجاتا تھا۔جون پور کے ایک جلسہ میں آپ تقریر فرما رہے تھے،استاذ العلماء مولانا ہدایت اللہ رام پوری کا ادھر سے گذر ہوا،آپ کی آوازسن کر رک گئے،جب آپ تقریر ختم کر چکے تو استاذ العلماء منبر کے قریب آئے،اور فرط خوشی سے بادیدۂ تر آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور ہاتھ چومے۔فاضل بریلوی مولانا شاہ احمد رضا نے جمعیۃ علماء کا جلسہ منعقدہ بریلی میں مولوی ابو الکلام آزاد جیسے تیز لِسان کے مقابلے میں آپ کو منتخب فرمایاتھا۔مولوی ابو الکلام نے آپ کی تقریر کا وزن محسوس کیا۔آپ نےدوقومی نظریئےسےمنحرف گانگریسی مولویوں کی خوب خبر لی۔
دوقومی نظریے کی ابتدا:1921ء میں جمعیۃ العلماء ہند کااجلاس بریلی میں ہونا طے پایا۔پروپیگنڈے کے طور پر دو اشتہار سامنے آئے۔ایک اشتہار بنام’’زندگی مستعار کی چند ساعتیں‘‘اور دوسرا اشتہار بہ عنوان’’آفتاب صداقت کا طلوع‘‘ شائع ہوا۔بڑا شور شرابہ کیا گیا۔مسلم ہندو اتحاد کےمخالفین کولعن طعن کا نشانہ بنایاگیا۔ان اشتہارات کےجوابات میں جماعت رضائے مصطفی بریلی کی جانب سے صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی نے ستر سوالات پر مشتمل اعلان مناظرہ بنام ’’اتمام حجت‘‘ شائع کرکے جمعیہ علماء ہندکے ناظم کو بھیج دیا۔لیکن باربار تقاضوں کے باوجود عمائدین جمعیۃ مناظرہ کےلئے تیار نہ ہوئے اور بلنگ بانگ دعاوی کو صاف نظر انداز کرگئے۔13رجب 1339ھ کو مولانا سید سلیمان اشرف بہاری ابوالکلام آزاد کےپاس تشریف لےگئے،لیکن وہ ان سوالات کےجوابات دینے کی بجائے غیر متعلقہ مسائل کا تذکرہ چھیڑ دیااور کسی طرح ان نزاعی مسائل پر گفتگو کرنے پر تیار نہ ہوئے۔
بالآخر 14/رجب کو حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں،صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی،صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد بادی،ملک العلماء مولانا ظفر الدینم بہاری،مولانا برہان الحق جبل پوری وغیرہ حضرات شان وشوکت کےساتھ جمعیۃ العلماء ہند کےپنڈال میں تشریف لےگئے۔صدر جلسہ مولوی ابوالکلام آزاد نے جماعت رضائے مصطفیٰ کےاراکین کو خطاب کا وقت نہ دیا اور مولانا سید سلیمان اشرف بہاری کوپینتیس منٹ کاوقت اس لئے دیا کہ ان کےنام دعوت نامہ پہنچ چکاتھا۔اس اجتماع میں مولاناسید محمدسلیمان اشرف نے خطاب فرمایااور علماء اہل سنت کا موقف بڑی خوبی سے واضح کیا۔اس خطاب میں آپ نےفرمایا : ’’بت پرست اور بت شکن کا اتحاد نہیں ہوسکتا۔لعنت ہے ایسی سلطنت پر جو دین بیچ کر حاصل کی جائے‘‘۔(عظمتوں کے پاسبان:100)۔یہ تقریر جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی نےتحریراً شائع کی۔اس تقریر کو پڑھ کر مولانا کی حق گوئی،صلابت رائے اور چھا جانے والی شخصیت کا گہرا احساس دل پر نقش ہوجاتا ہے۔
صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی نےامام اہل سنت امام احمد رضا خان کےنام ایک مکتوب میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:’’ جناب مولانا سید شاہ سلیمان اشرف بہاری نےاس خوبی سے تقریر فرمائی کہ اپنے اعتراض بھی پیش کردیئے اور ان کی غلطیاں بھی دکھلائیں،اور مجمع میں کوئی بےچینی بھی نہ ہوئی، بلکہ مجمع قبول کےکانوں سے حضرت مولانا کی تقریر سنتا رہا۔بار بار اللہُ اکبرکےنعرےاور تحسین وآفرین کی صدائیں سننے میں آرہی تھیں۔مولانا سید سلیمان اشرف صاحب نےا س بحث (گائےکی قربانی ترک کرنے،شعائر اسلام کو چھوڑنے،اور شعائر ِ کفریہ میں مبتلا ہونے)پر نہایت چست اور زبردست ومؤثر تقریر فرمائی۔میں اپنی مسرت کااظہار نہیں کرسکتا،جو مجھےاس فتح سے حاصل ہوئی۔میدان مولانا سلیمان اشرف صاحب کے ہاتھ رہا۔حضرت کےغلاموں کی ہمت قابلِ تعریف ہے‘‘۔(عظمتوں کے پاسبان:106)۔یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نے فرمایا:’’مولانا سلیمان اشرف،جب تنقیحات کرتےہیں تو مخالفین کو شکست ہوجاتی ہے‘‘۔(علامہ سید سلیمان اشرف بہاری اہل علم کی نظر میں:8)
یہی وہ دو قومی نظریہ کانعرہ تھا جو پہلے پہل علماء اہل سنت کی طرف سے بلند ہوااور اسی نظریئے کی بناء پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔اعلیٰ حضرت کی کی بلند پایہ تصنیف ’’الحجۃ الموتمنہ‘‘اور مولانا سید سلیمان اشرف کی تصنیف لطیف’’النور‘‘ اور ’’الرشاد‘‘ کامطالعہ کیجئے یہ حقیقت بےنقاب ہوکر سامنے آجائےگی۔ علامہ اقبال مرحوم نےدوقومی نظریہ1930ءکو پیش کیا،اورعلماء اہل سنت نے1920ء بلکہ اس سے بھی پہلے پیش کرچکےتھے۔اُس وقت عوام تو عوام خواص بھی گانگریسی لیڈر اور ان کےہمنواملاؤں کی باتوں میں آچکےتھے۔انہوں نےاس بات پر یقین کرلیاتھا کہ جوکچھ یہ کہ رہےہیں وہی سو فیصد درست ہے،اور وہ وقت ایسا تھا کہ ان کی بدمعاشی، مالی وافرادی قوت سب پرواضح تھی۔لیکن علماء اہل سنت نےجان ومال کی پرواہ کیے بغیر حق کادامن نہ چھوڑا۔جوں جوں وقت گزرتاگیا،یہ احساس یقین کی حدکوپہنچنےلگا کہ اس افراتفری کےدور میں علماء اہل سنت نےکوکچھ کہا تھا،وہی حقیقت تھا۔
پروفیسر خورشید احمد صدیقی لکھتےہیں:’’سیلاب گزرگیا،جوکچھ ہونےوالاتھا،وہ بھی ہوا۔لیکن مرحوم (مولانا سید سلیمان اشرف) نےاس عہد سراسیمگی میں جو کچھ لکھ دیا تھا،بعد میں معلوم ہوا کہ حقیقت وہی تھی،اس کاایک ایک حرف صحیح تھا،آج تک اس کی سچائی اپنی جگہ پر قائم ہے،سارےعلماء (وہابی ودیوبندی،گانگریس کے) سیلاب کی زدمیں آچکےتھے،صرف مرحوم اپنی جگہ پرقائم تھے‘‘۔ مولانا سید محمد سلیمان اشرف مشرکین ہنود سے کس قدر متنفر تھے ،اس کاندازہ ذیل کےواقعہ سےبخوبی لگایا جاسکتاہے۔جناب ڈاکٹر عابد علی عابد بیان کرتےہیں: ایک مرتبہ علی گڑھ یونیورسٹی کی مسجد میں بعض لوگوں نے گاندھی کو تقریر کےلئے بلایا،تو مولانا سید سلیمان اشرف بہاری نےبعد میں خود اپنے ہاتھ سےساری مسجد کودھوکر صاف کیا۔(عظمتوں کےپاسبان:99)
مولانا سید محمد سلیمان اشرف بہاری کی تصنیف وتالیف میں بھی عظیم خدمات ہیں۔ان میں سےایک اہم کتاب ’’المبین‘‘ ہے۔یہ کتاب عربی زبان کی فضیلت وبرتری میں اپنی مثال آپ ہے۔مشہور مشترق پروفیسرمسٹر’’براؤن‘‘ نے’’المبین‘‘ کو دیکھ کر کہا: ’’مولانا نے اس عظیم موضوع پر اردو میں یہ کتاب لکھ کر ستم کیا،عربی یا انگریزی میں ہوتی تو کتاب کا وزن اور وقار بڑھ جاتا۔مولانا نےالمبین کاایک نسخہ ڈاکٹر اقبال کو بھی بھجوایا تھا۔اتفاقاً کچھ دن بعد علامہ اقبال،علی گڑھ گئے تو دوران ِ ملاقات اس کتاب کی بڑی تعریف کی اور کہا:’’مولانا آپ نے عربی زبان کے بعض ایسے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے،جن کی طرف پہلے کبھی میرا ذہن منتقل نہیں ہواتھا‘‘۔(ایضا:108)
الغرض! مولانا سید سلیمان اشرف بہارینےعلمی،قلمی،اور فکری لحاظ سےجہاد کاحق ادا کردیا اور مسلمان قوم اور ان کی نسلوں ، اور اسلامی درس گاہوں کوبچانے کےلئےاپنے آپ کو وقف کردیاتھا۔آپ نےقومی وملی فریضے کو بخوبی نبھایا۔اس میں کسی مصلحت پسندی ،اور ابن الوقتی کاشکار نہ ہوئے۔آپ کی عظیم خدمات ہیں،اور یہ صفحات تفصیل سےقاصر ہیں۔مزید تفصیل کےلیے’’عظمتوں کے پاسباں۔حیات سید سلیمان اشرف بہاری‘‘ کامطالعہ مفید ہے۔
تاریخِ وصال: 5/ربیع الاول 1358ھ مطابق 25/اپریل 1939ء کوآپ واصل باللہ ہوئے۔علی گڑھ کےقبرستان میں آرام فرماہیں۔
ماخذ ومراجع: عظمتوں کے پاسبان۔سید سلیمان اشرف بہاری اہل علم کی نظر میں۔تذکرہ علمائے اہل سنت۔حیات مخدوم الاولیاء۔