حضرت عمدۃ المدرسین علامہ سیّد محمد زبیر شاہ، چکوال علیہ الرحمۃ
استاذالعلماء حضرت علامہ مولانا سیّد محمد زبیر شاہ بن سیّد محمد مہدی شاہ، ضلع کیمبلپور کے موضع لنگر میں پیدا ہوئے۔ آپ نسباً سیّد ہیں اور آپ کے والد اور نانا رحمہما اللہ اپنے وقت کے جیّدِ عالم تھے۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے علومِ اسلامیہ کی کتب متداولہ مختلف مساجد میں پڑھنے کے بعد جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام فیصل آباد میں کتب حدیث پڑھ کر سندِ فراغ اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔
آپ کو جن مایۂ ناز اکابرِ اہلِ سنّت کی شاگردی کا شرف حاصل ہے، ان میں محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد، مولانا محمد دین بدھوی المعروف منطقی بابا رحمہما اللہ اور حضرت مولانا فضل حق خطیب فتح جنگ کے اسماء گرامی شامل ہیں۔
تائیدِ غیبی:
آپ چکوال میں مولوی محمد سلیمان (دیوبندی) کے ہاں زیرِ تعلیم تھے کہ محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار صاحب قدس سرہ ایک تبلیغ جلسہ سے خطاب کرنے کے لیے تشریف لائے۔ حضرت شاہ صاحب کو تقریر دل پذیر کا شوق سماع جلسہ گاہ میں جانے پر مجبور کر رہا تھا جبکہ مولوی محمد سلیمان نے آپ کو کمرے میں بند کرکے دروازے پر اپنی چار پائی بچھالی، بایں ہمہ آپ کی سعادت مندی نے یاوری کیا ور آپ حضرت محدثِ اعظم کی خدمت میں حاضر ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ تقریر سے متاثر ہوکر شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ حضرت محدث اعظم نے آپ کو فیصل آباد میں حصولِ تعلیم کا مشورہ دیا اور یوں اہل سنّت کا یہ مجاہد تائیدِ ایزدی سے صحیح سمت روانہ ہوا اور اہلِ باطل کے لیے ننگی تلوار بن کر چمکا[۱]۔
[۱۔ یہ واقعہ استاذِ محترم حضرت مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری نے بیان فرمایا۔(مرتّب)]
تدریسی زندگی:
آپ نے تدریس کا آغاز پاکپتن شریف سے کیا، کچھ عرصہ دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور (ہزارہ) میں پڑھانے کے بعد ایک سال دارالعلوم اشرف المدارس اوکاڑہ میں مسندِ تدریس پر فائز رہے۔ کچھ مدت مدرسہ اشاعت العلوم چکوال میں تدریس فرمانے کے بعد چکوال ہی میں جامعہ اسلامیہ غوثیہ کے نام سے ایک دارالعلوم جاری فرمایا، جہاں چند سالوں سے علوم و فنون کا فیض جاری کیا ہوا ہے علاوہ ازیں تین سال سے آپ رمضان المبارک میں قرآن کریم کی تفسیر (دورۂ تفسیر) بھی پڑھا رہے ہیں۔
تبلیغِ دین:
آپ اہلِ سنّت کے عظیم بے باک اور نڈر مبلغ ہیں، چنانچہ ہری پور مین قیام کے دوران آپ نے مخالفتوں اور سازشوں کے باوجود ہزارہ ڈویژن کے اطراف و اکناف میں بڑی موثر تبلیغ فرمائی اور عقائدِ باطلہ کے پرچار کی وجہ سے مکدر ہونے والی فضا کو صاف کرکے گم گشتہ راہ لوگوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن فرمایا۔
قاتلانہ حملہ:
عقائدِ صحیحہ کی ترویج و اشاعت مبتدعین کو ایک آنکھ نہ بھائی، چنانچہ اسی جلن کی وجہ سے چکوال کے مبتدعین نے ایک جامع منصوبے کے تحت آپ پر اس وقت حملہ کردیا، جب آپ ایک دینی جلسہ گاہ سے خطاب کرکے واپس تشریف لا رہے تھے۔ اگرچہ کافی زخم آئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس عظیم مبلغ کو اپنے فضل و کرم سے بچالیا اور دشمن خائب و خاسر ہوئے[۱]۔
[۱۔ یہ واقعہ مرتب سے استاذ محترم مولانا عبدالحکیم شرف قادری نے تفصیلاً ذکر فرمایا۔]
بیعت و خلافت:
آپ کو اپنے استاذ محترم حضرت محدّث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل ہے۔
مشہور تلامذہ:
فراغت کے بعد آج تک آپ کا وقت تدریس میں گزرا اور کافی تعداد میں علماء نے آپ سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ چند تلامذہ کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
۱۔ مولانا مفتی محمد ریاض الدین مہتمم جامعہ غوثیہ معینیہ کیمبل پور
۲۔ مولانا قاری محمد افضل خطیب قلعہ لچھن سنگھ لاہور
۳۔ مولانا سیّد محمد انور شاہ، صدر مدرس جامعہ نوریہ غوثیہ ہری پور ہزارہ
۴۔ مولانا محمد بشیر، مدرس جامعہ حنفیہ قصور[۱]
[۱۔ مندرجہ بالا دو حوالوں کے علاوہ دیگر تمام کوائف حضرت شاہ صاحب نے مرتب کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمائے۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)