حضرت سید سمن شاہ بخاری (سرکار مجذوب) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت سید سمن بخاری سرکار مجذوب علیہ الرحمتہ کے آباء واجداد بخارا سے سندھ میں تشریف لائے آپ جدا مجد حضرت سید گل شاہ بخاری علیہ الرحمتہ تقریباً ۱۲ صدی ہجری میں سندھ میں تشریف فرما ہوئے تھے۔ آپ کا سلسلہ اوپر جاکر حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملتا ہے، آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے۔
سید سمن شاہ سرکار بن سید گل شاہ ذثانی سید قربان علی شاہ بن سید علی بخش شاہ بن سید گل شاہ غازی۔
حضرت سید سمن سرکار کا ابتدائی جو دور تھا وہ یہ کہ آپ حسن و جمال، خوبصورت لباس کے شائق ، میلوں ملاکھڑوں پر جانے والے، ساز سرور کی محفلوں میں شریک ہونے والے انسان تھے ، پرانے جھڈو گودام (جو آ پ ہی کی بددعاء سے ویران ہوا) کے ایک محلہ میں سکونت پذیر تھے آپ کے محلہ میں ایک کنبھار بھی رہا کرتا تھا جس کی بیٹی از حد حسین تھی جس پر آپ کی اچانک نظر پڑی گئی، اور ہوش و حواس کھو بیٹھے ، عشق مجازی کا آغاز ہوگیا جو آگے چل کر عشق حقیقی کا سبب نبا۔ اپنے محبوب کے وصال میں اس قدر محو ہوگئے کہ ہر چیزسے بے نیاز ہوگئے نوبت یہاں تک پہنچی کہ کپڑے تک اتار دیئے لوگوں نے دیوانہ کہنا اور مزاح کرنا شروع کردیا لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ سمن شاہ آپ نے کپڑے کیوں اتار دیئے ہیں تو آپ نے ان کے جواب میں سرائیکی زبان میں یہ فرمایا ‘‘رب پاک دے فرض تمام گھنے، ڈٹھو سے اسائن نہ پھتو سے پچھیں کپڑے لا ہے چھوڑیوں سے’’ یعنی اللہ کے ہم نے بہت زیادہ فرض دیکھے ہیں ہم ان کو نہیں پہنچ سکے پھر ہم نے کپڑے اتار دیئے، ایک دن آپ کی محبوبہ اچانک آپ کے پاس آگئی تو آپ نے اس سے کہا ‘‘امڑتوں ھن ونج اساندا مطلب پورا تھی گیا’’یعنی اے میری ماں اب آپ چلی جائیے اب ہمارا مطلب تو پورا ہوگیا۔بس آپ اس ماں کو ماں بنا کر جنگل کی طرف راہی ہوگئے۔ اب لوگوں نے آپ کو مزید ستانا شروع کر دیا اور آخر آپ نے غصہ میں آکر یہ کہہ دیا ‘‘جھڈا تھی سیں بھڈا مروے مردود ’’ یعنی اے جھڈا تو ویران ہوجائے اے مردود تو مرجائے۔ اور آج وہی جھڈا کھنڈر بنا ہوا ہے۔ایک مکان تک وہاں موجود نہیں ہے۔
حضرت سید سمن شاہ علیہ الرحمۃ اکثر و بیشتر آگ کا بڑا مچ بنا کراس کے قریب ہوکر بیٹ جایا کرتے تھے، کبھی آسمان کی طرف نظر اٹھا کر اشارہ کیا کرتے تھے جب آپ کے پاس کوئی سائل آتا تو آپ اس کو یوں فرمایا کرتےتھے ‘‘ ونج اساں کر چھوڑ یا’’ یعنی آپ جائیں ہم نے آپ کا کام کردیا۔ آپ کچھ عرصہ کے لیے ‘‘ خیر پور گنبو’’ میں بھی رہے تھے لیکن وہاں بھی لوگوں کے ستانے سے خیر پور کو بد دعا کرتے ہوئے (خیر پور کھانی ان نکو پانی) ‘‘اس وقت سے لے کر خیر پور تباہ ہے ’’ پنگریو میں آکر رہنے لگے آپ کی کرامت دیکھ کر یہاں کے لوگ آپ سے بڑے متاثر ہوئے۔ آپ نے پنگریو میں آکر رہنے لگے آپ کی کرامت دیکھ کر یہاں کے لوگ آپ سے بڑے متاثر ہوئے۔ آپ نے پنگریو کے لیے دعاء فرمائی، ‘‘پنگریو کڈھیں دہلی تھی سیں’’ یعنی پنگریو کبھی دھلی بنے گا آج آپ کی دعاء کی برکت سے پنگریو ایک شاندار شہر ہے۔ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی خدمت میں ۔ گلاب رائے’’ نامی ہندو شخص رہا کرتا تھا ، ایک دن اس سے خوش ہوکر کہنے لگے اے گلاب ‘‘توں مدینہ داگل تھی سیں’’ یعنی اے گلاب تومدینہ کا گل بنے گا۔ شاہ صاحب کی وفات کے بعد وہ حج پر گیا ایک بزرگ کے ہاتھ پر مسلمان ہوا اور سات حج کیے اور وہیں اس کا انتقال ہوا جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ حضرت سید سمن سرکار کی بے شمار کرامات ہیں، طوالت کے خوف سے صرف نظرکرتا ہوں ، آخر میں اس اللہ کے ولی نے ۱۴ رجب المرجب ۱۳۴۹ھ۔ دسمبر ۱۹۲۹ء میں داعی اجل کو لبیک کہا آپ کا مزار پر انور پنگریو شہر سے تین میل کے فاصلہ پر مشرقی جانب تحصیل ٹنڈو باگو ضلع بدین میں مرجع خلائق ہے۔ ہزار ہا انسان پورے ملک سے آپ کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں اور قبلی سکون حاصل کرتے ہیں آپ پوری زندگی مجرد رہے آپ کے بھتیجے سید پیر شاہ نے آپ کے مزار پر شاندار گنبد بنوایاہے۔ راقم بھی کئی مرتبہ زیارت کے لیے گیا ہے۔
(شکریہ مکتوب جناب عزیزی مولانا حافظ محمد یوسف جمال حال مدرس تعلیم الفرقان ڈیئی شہر نزد پنگریو ضلع بدین)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ)