حضرت سید شاہ جمال لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ حسینی سادات میں سے تھے،شجرہ مرشدی آپ کا حضرت بہا ء الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ سے اس طرح ملتا ہے کہ حضرت شاہ جمال مرید شیخ ککو ابیگ رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ شاہ شرف رحمتہ اللہ علیہ کے،وہ شاہ صد رالدین کے رحمتہ اللہ علیہ، وہ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کے،وہ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ حضرت حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ حضرت داؤد طائی رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے اور وہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ کے۔آپ نہایت جامع کمالات بزرگ تھے،ہز ارہا غیر مسلم آپ کے ہاتھوں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، مظہر جلال اور مصو ر کمال ہونے کے علاوہ علوم ظاہری و باطنی میں بھی یکتائے روزگار تھے، حضرت شاہ جمال اور حضرت شاہ کمال دونوں حقیقی بھائی تھے اور اصلی معنوں میں صاحب جمال اور کمال تھے۔
مفتی غلام سرور لاہور ی لکھتے ہیں، شیخ بود جامع کمالا ت ظاہری و باطنی و جمال صورت و مصنوعی مظہر جلال و مصد ر کمال مرید شیخ ککر ابود
تعمیر دمدمہ
جب آپ دمدمہ کی تعمیر شروع کی تو اس وقت اس کے گرد و نواح میں بے شمار بادشاہی عمارات اور محلا ت تعمیر ہو رہے تھے یعنی سرائے گولیاں والی بن رہی تھیں جن میں تقریباً بیس ہزار آدمی سما سکتے تھے اور راج مزدور مل نہیں رہے تھے تو آپ نے ان سے کہا کہ وہ دن کو شاہی کا م میں مصروف رہیں اور رات کو دمدمہ کی تعمیر کریں چنا نچہ اسیا ہی کیا گیا اور یہ دمدمہ ساتھ منزلہ مکمل ہوگیا جو کہ بہت اونچا بن گیا جب شاہی محلا ت میں اس کی خبر پہنچتی تو سلطان بیگم ہمشیرہ شہنشاہ اکبر نے جس کا باغ دمدمہ کے قریب تھا آپ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ کا دمدمہ بہت اونچا ہے اس سے ہمارے محل پر نظر پڑتی ہے اس پر توجہ فرما دیں چبا نچہ ایک دن سماع کی محفل میں جب آپ پر وجد ہوا اور رقص کیا تو چار منز لیں دمدمہ کی زمین کے اندر غرق ہوگئیں اور تین باقی رہ گئیں، سکھوں کی عملد اری میں اس مقبرہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا کیونکہ سکھ اس مقبرہ کے پاس آنے سے ڈرتے تھے حالانکہ انہوں نے سرائے گولیاں والی پر قبضہ کرکے ایک توپ خانہ بھی قائم کرلیا تھا اور شاہی باغات اجاڑ دیئے تھے مگر آپ کے دمدمہ کی طرف رخ کرنے کی ان میں ہمت نہ پڑسکی۔
آپ کی اولاد سیالکوٹ میں رہائش پذیر تھی،عہد جہانگیر ی میں خانقاہ کے لیئے بائیس گھما ؤں اراضی مخصو ص تھی جو حکومت انگریزی کے دور تک قائم رہی، مہاراجہ شیر سنگھ کے عہد حکومت میں کنواں درگاہ کا گر گیا تھا جس کی مرمت راجہ دھیان سنگھ نے کروائی تھی۔
وفات
آپ کی وفات ۱۶۳۹ء بمطابق ۱۰۴۹ھ بعہد شہاب الدین شاہجہان لاہور میں ہوئی اور آبادی اچھرہ میں مدفون ہوئے، فیروز پور روڈ پر جواب نئی آبادی معرض وجود میں آئی ہے اس کو شاہ جمال کالونی کہتے ہیں اور اس میں آنجناب کا مقبرہ ہے جہاں سالانہ عرس ہوتا ہے،مفتی غلام سرور لاہوری نے آپ کی تاریخ وفات ۱۰۴۹ھ تحریر کی ہے،سبز گنبد پاکستان بننے کے بعد میاں خیر الدین جوہری امر تسری نے تعمیر کروایا ہے۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)