خطیب جامع مسجد بغدادی گلبرگ فیصل آباد (پاکستان)
ولادت
حضرت مولانا علامہ ابو الفیض سید زاہد علی شاہ قادری رضوی بن سید شاہد علی ۱۳۵۳ھ؍۱۹۳۴ء میں پیلی بھیت (یوپی انڈیا) کے محلہ کھکرا میں سادات کے ایک علمی وروحانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مولانا سید زاہد علی کے جد امجد مولانا حافظ سید شوکت علی پیلی بھیت کی مشہور شخصیت تھے۔ مرکزی جامع مسجد کی خطابت وامامت کے علاوہ ایک دینی مدرسہ بھی قائم کیا ہوا تھا۔ جہاں کثیر تعداد میں طلبہ اکتساب چیض کرتے تھے۔
تعلیم وتربیت اور اساتذہ
حضرت مولانا سید زاہد علی قادری نے اُردو کی ابتدائی اور تجوید وقراءت کی تعلیم پیلی بھیت کی جامع مسجد میں اپنے جد امجد مولانا حافظ سید شوکت علی، مولانا قاری عبدالحفیظ (خطیب سنہری جامع مسجد پیلی بھیت) اور قاری نوشے علی سے حاصل کی۔
۱۹۵۰ءمیں ہجرت کر کے سکھر(پاکستان)تشریف لائے۔ اور ۱۹۵۳ء میں جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد میں داخل ہوئے۔ فارسی اور صرف کی ابتدائی کتابیں مولانا سید منظور حسین شاہ سے پڑھیں، جبکہ اصول الشاشی اور سلم العلوم حضرت مولانا عبدالقادر سے، شرح ملا جامی مولانا حافظ احسان الحق سے، مختصر المعانی اور حسامی حضرت مولانا مفتی مختار احمد سے، ہدایہ مولانا مفتی محمد امین سے، مشکوٰۃ شریف، میر زاہد اور رسالہ قطبیہ حضرت مولانا مفتی نواب الدین سے، ہدیہ سعیدیہ ومیبذیٰ حضرت مولانا علامہ ولی النبی سے اور توضیح تلویح، سراجی، شرح عقائد اور دورۂ حدیث (کتب احادیث) حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد رضوی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھ کر ۱۹۶۲ء میں سند فراغت و دستار حاصل کی۔
پنجاب یونیورسٹی سے عربی کا پہلا امتحان (ادیب عربی) بھی پاس کیا۔
امامت وخطابت
فراغت سے لر کر تادم زیست مولانا سید زاہد علی جامع مسجد بغدادی گلبرگ فیصل آباد میں فرائض خطابت انجام دیتے رہے۔
تدریس
مولانا سید زاہد علی نے تدریس کا آغاز جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد سے کیا۔ ایک سال بعد حضرت محدث اعظم پاکستان کے حکم سے جامع مسجد بغدادی میں دارالعلوم نوریہ رضویہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جہاں آپ نے وقتاً فوقتاً درس نظامی کی تمام اسباق پڑھائے۔ اس وقت جامعہ ایک مرکزی حیثیت کا حامل ہے جہاں دس مدرسین اور ڈیڑھ سو طلباء درس نظامی، تجوید وقراءت اور حفظ قرآن کے شعبوں میں تعلیم وتعلم میں مصروف ہیں۔ دینی درس گاہ کے علاوہ آپ نے ایک پرائمری اسکول بھی قائم کیا جہاں قرب وجوار کے بچے اردو تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
تبلیغی دورہ
مولانا سید زاہد علی تبلیغ دین کے سلسلے میں ملک کے تقریباً ہر حصے میں تشریف لے جاتے۔ کوئٹہ کراچی اور پشاور تک، آزاد کشمیر میں عباس پور، راولاکوٹ اور مظفر آباد میں مولانا سید زاہد علی نے تبلیغی دورے کیے۔
سیاسی کردار
مولانا سید زاہد علی نے تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفیٰ میں بھر پور حصہ لیا۔ سیاسی طور پر آپ کا تعلق سوادِ اعظم کی نمائندہ جماعت جمیعت علماءِ پاکستان سے تھا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے موقع پر آپ جمعیت علماءِ پاکستان فیصل آباد شہر کے صدر تھے۔ انتخابی سر گرمیوں کے سلسلے میں جگہ جگہ تقاریر کر کے جمعیت کے منشور، نظامِ مصطفیٰ کے نفاذ اور مقامِ مصطفیٰ کے تحفظ سے عوام کو روشناس کرایا۔
مکتبہ نوریہ رضویہ
مولانا سید زاہد علی نے دینی کتب کی نشرواشاعت کی خاطر مکتبہ نوریہ رضویہ قائم فرمایا۔ اس مکتبہ کے ذریعے ۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۵ء تک اردو کتب کی طباعت ہوتی رہی اور اب ۱۹۷۵ء سے یہ مکتبہ نایاب عربی کتب کی طباعت کا اہتمما کر رہا ہے۔
الحمدللہ! حضرت مولانا سید زاہد علی کی شبانہ روز محنت سےبہت سی نایاب عربی کتب چھپنے سے اہلِ علم حضرات کے لیے اچھا خاصا علمی ذخیرہ مہیا ہوچکا ہے۔ مولانا سید زاہد علی نے جن نایاب عربی کتب کی طباعت کا انتظام کیا وہ یہ ہے:
۱۔ الحادی للفتاویٰ
۲۔ الخصائص الکبریٰ
۳۔ حجۃ اللہ علی العٰلمین
۴۔ شفاء السقام
۵۔ الحدیقۃ الندبہ فی شرح الطریقۃ المحمدیہ
۶۔ مطالع المسرات بجلاء دلائل الخیرات
۷۔ جلاء الافہام فی صلوٰۃ خیر الانام
۸۔ الوفاء باحوال المصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم)
بیعت وخلافت
مولانا سید زاہد علی نے حضرت محدث اعظم مولانا محمد سردار احمد رحمۃ اللہ کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ پھر ۱۹۶۱ء میں کسی دینی کام کام سے بریلی شریف حاضر ہوئی تو حضرت محدث اعظم کے حکم پر موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتئ اعظم مولانا علامہ مصطفیٰ رضا نوری سے نسبت روحانی حاصل کی۔ حضرت مفتئ اعظم نےمولانا سید زاہد علی کو تمام وظائف، اور ادو اعمال اعلیٰ ح ضرت وسلسلۂ قادریہ کی اجازت وسندِ خلافت بھی عطا فرمائی۔
حج وزیارت
مولانا سید زاہد علی نے چار مرتبہ حج بیت اللہ شریف اور روضۂ رسول صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔
انتقال
مولانا سید زاہد علی فروری ۱۹۷۸ء میں جامعہ امجدیہ کراچی کی دعوت پر امام اہلِ سنت الشاہ احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کے عرسِ مبارک میں شمولیت کی خاطر کراچی تشریف، وہاں پہنچتے ہی دل کا دورہ پڑا اور مولانا سید زاہد علی نے جان جاں آفریں کے سپرد کی۔ اللہ تعالیٰ مولانا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین [1]۔