سید بایز ید ہاشمی سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ
آپ کے والد مکرم کا اسم گرامی قاضی رفیع الدین تھا جن کی رہائش ماتھلہ میں تھی،آپ حضرت عبد الجلیل چوہڑ بند گی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے اور طریقہ سہروردیہ میں آپ سے بیعت تھے، اور کافی عرصہ تک آپ کی خدمت میں حاضری دے کر فیوض و برکات حاصل کیئے۔
تذکرہ قطبیہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پیرو مرشد نے جس طرح حضرت موسیٰ آہنگر رحمتہ اللہ علیہ کو دو بیگھ زمین عطا کی تھی اسی طرح آپ کو بھی ایک بیگھ زمین عطا فرمائی، یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ کا مزار بنا، نیز حضرت قطب عالم رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو شیخ محمود مدنی رحمتہ اللہ علیہ کی خا نقاہ متصل رسول کوٹ پر چلہ کشی کا حکم صادر فرمایا تھا۔
مخدوم غلام دستگیر نامی اپنے مضمون ،لاہور کے سہروردی مشائخ،ماہ اکتو بر ۱۹۵۸ء میں تحریر فرماتےہیں کہ حضرت عبد الجلیل قطب عالم رحمتہ اللہ علیہ کے دوسرے خلیفہ شیخ بایزید رحمتہ اللہ علیہ تھے، ان کو بھی آپ نے ایک بیگھ زمین عطا کی تھی اور اس میں ان کا قبہ دار مزار تھا جو مسلمانوں کی غفلت کی وجہ سے میکلو ڈ روڈ ہی پر ریلوے پولیس کے دفتر کے پیچھے مشن میں ملبہ کےنیچے دبا ہوا ہے اور محکمہ آثار قدیمہ کی تو جہ کا مستحق ہے۔
تذکرہ قطبیہ مصنف حضرت جمال الدین ابوبکر رحمتہ اللہ علیہ بر ادر حضرت عبد الجلیل سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی وفات کےبعد آپ کامزار دریائے راوی کے کنارے بنا جو ان ایام میں ریلوے پولیس لائنز کے نشیب میں واقع تھا اور اس کی گز ر گاہ تھی، یعنی حضرت عبد الجلیل رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ کے شما لاً جنو باً واقع تھی، روزنامہ امروز مورخہ ۶۷،۷،۱۸کی اشاعت میں غلام دستگیر نامی نے ،آثار قدیمہ کی نگہد اشت ،کے زیر عنوان اس گرے ہوئے مقبرہ کی مرمت پر حکومت سے استد عا کی تھی جو آج تک قبولیت کا درجہ نہیں پاسکی اور شاید نہ پاسکے قبل ازیں ہفت روزہ، لیل و نہار،لاہور کی اشاعت مورخہ ۶۱،۹،۱۷ میں بھی یہی درخواست کی گئی تھی۔
مزار اقدس نولکھا چرچ ایمپرس روڈ میں واقع ہے جو کہ نہایت خستہ حالت میں ہے، گنبد گرا ہوا ہے،مگر حکومت پاکستان محکمہ آثار قدیمہ یا محکمہ اوقاف اس کی طرف قطعاً توجہ نہیں فرماتے،قد یم ایام میں آپ کا مزار کوٹ کروڑ اور مزار شیخ کا کو چشتی رحمتہ اللہ علیہ ریلوے پولیس لائنز میکلو ڈ روڈ اور لنڈ ا بازار کے درمیا ن تھے۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)