حضرت طاہر شیخ اڈیرولال
شیخ طاہر اڈیرو لال حضرت شیخ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی کے مرید تھے، اور یہ ایک ہندو لڑکا تھا بھیک مانگ کر گزار ا کرتا تھا ، بس اچانک ایک دن دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اللہ کا نام سیکھا جائے اسی شوق و محبت میں حضرت شیخ ب ۔۔۔۔
حضرت طاہر شیخ اڈیرولال
شیخ طاہر اڈیرو لال حضرت شیخ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی کے مرید تھے، اور یہ ایک ہندو لڑکا تھا بھیک مانگ کر گزار ا کرتا تھا ، بس اچانک ایک دن دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اللہ کا نام سیکھا جائے اسی شوق و محبت میں حضرت شیخ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب شیخ کی نظر کیمیا اثر ان کے وجود پر پڑی تو دل کی دنیا بدل گئی۔ مسجد کے ممبر پر چڑھ کر خطبہ دینا شروع کردیا۔ بعد میں اپنے مرشد سے تلقین حاصل کی اور مرید ہوگئے۔ بعد میں سندھ میں قریہ (جہیجا) میں سکونت اختیار کرلی اور وہیں وفات پائی۔
میر علی شیر قانع ٹھٹھوی تحفۃ الکرام میں لکھتے ہیں کہ اس ولی کی ذات بابرکت دنیا کے عجائبات میں سے ہے، ہندو آپ کو لال اڈیرو اور مسلمان طاہر کہتے ہیں۔ ہر سال ایک خاص دن میں ہندوعورتیں پورے سندھ سے وہاں جمع ہوتی ہیں۔ بغیر کسی شرم و حیا کے عجیب و غریب حرکتیں کرتی تھیں لیکن آج کل کافی ہندو مہذب بن چکے ہیں آتے تو برابر ہیں لیکن ایسی حرکات سے اب اجتناب کرتے ہیں۔حضرت شیخ بہاؤ الدین ذکریا کے مرید ہونے کی وجہ سے اڈیرو لال کو ساتویں صدی کے رجال سے شمار کرنا چاہیے۔ اگر چہ آپ کی تاریخ وفات میسر نہیں ہوسکی ہے۔
(تذکرہ مشاہیر سندھ جلد دوم ،۳۳۳،۳۳۴)
ملا علی ٹھٹھوی نے شیخ طاہر اڈیرو لال کی شان میں ایک قصیدہ لکھا تھا جو درگاہ پر ایک پتھر پر کندہ تھا۔ (مگر اب وہ قصیدہ اور پتھر ضائع ہوچکا ہے) اور قصیدہ یہ ہے:
آن گوہر بھر وحدت حق
پروانہ نور شمع مطلق
گنجور کنوز بادشاہی!
منظور عنایت الہٰی
مقبول مقربان درگاہ!
یعنی کہ اڈیرہ بن رتن شاہ
از فیض زیارتش ہمہ غم!
واکردہ زجان جملہ عالم
(مقالات الشعراء)
اس نظم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے والد کا نام‘‘ر تن شاہ’’ تھا۔
آپ کا مزار ڈیرولال میں مرجع خلائق ہے۔ کراچی سے لاہور مین ریلوی لائن پر آپ کے نام پر اڈیرو لال اسٹیشن بھی ہے۔(ازمولف)
(تذکرہ مشاہر سندھ ص ۳۳۵، جلددوم)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )