حضرت خواجہ عبیداللہ ادام اللہ برکات وجودہ علی مفارق الطالبین علیہ الرحمۃ
آپ آیات الٰہی کےمظہر طبقہ خواجگان کی ولایات کرامات"ان کے وجودکی برکتیں خدا تعالٰی ہمیشہ طالبین کے سر پر رکھے کا مجمع ان کے سلسلہ شریف کے انتظام کا واسطہ اور پیوند کا رابطہ حضرت خواجہ پیر مرشید اور ان کے جو مخلص نیاز منہ ہیں مجھے ایسی امید ہےکہ ان کے وجود شریف کی برکت سے اس سلسلہ کا انتظام وپیوند قیامت تک چلاجائےگا۔اگر چہ فقیر کی اس قسم کی باتیں گستاخی ہیں"لیکن جس قدر کہ میں سوچتاہوں اپنے میں یہ حوصلہ نہیں پاتا کہ میرا دل اس پرقرار پکڑے کہ یہ مجموعہ جس کے جمع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ان حضرات کے معاف کا ذکر اور اس گروہ کےمناقب کا شہرہ ہو۔حضور کے ذکر سے خالی رہے۔اس لیے اس سلسلہ شریفہ کے حالات و مناقب کی شرح کو آپ کے پاکیزہ کلمات سے جس کو آپ کی قلم معرفت لکھنے والی نے لکھا ہے۔بطور مسک الختام یعنی کستوری کی مہر لگانے کے کردیا۔دل کا حق سبحانہ کے غیر سے قطع تعلق کرنا"اور خالی ہونا۔اس بات کی دلیل ہے کہ دل خدا کی تجلی کا احدیث کے وصف سے کہ اسماء و صفات کے حقائق کے معارف کا پالینا اس مطلب کے بغیر مشکل ہے۔مظہربن گیا ہےکیونکہ تجلیات ذات کے انوار کے عکس کے قبول کرنے کی قابلیت بغیر اس کے کہ دل کو تمام حدوث کے عیب کی توجہ سے خالی کر دیا جائے حاصل نہیں ہوسکتی اور دل کا خالی ہونا اس پر موقف ہے کہ ذات کی تجلی احدیث کے وصف کے ساتھ ہواور اس مطلب کا حاصل ہونا یوں ہو سکتا ہے کہ پہلے تو اللہ اور اس کے رسول اور جو کچھ کہ وہ خدا کے پاس سے لائے ہیںاور جو کچھ کہ رسولﷺ سے حاصل ہوا ہے۔خدا اور اس کے رسول کی مراد کے مطابق ان سب پر ایمان لایا جائےاور پھر اس کے بعد اسباب یعنی ریاضت ،مجاہدات کہ جس سے شریعت نے منع نہیں کیا استعمال میں لانا۔پھر ذکر کا ہمیشہ کرنا ،بشرط اعتقاد مذکور انکساری کے جس میں ریانہ ہو،اور رسولﷺ کی متابعت پر پورا خضوع ہو،لیکن اس نسبت کے حاصل کرنے میں اس امر سے بڑھ کر کوئی قویٰ کوئی سبب نہیں کہ پورے صدق کے ساتھ ایسی جماعت کی مجلس اپنے وقت کے لیے لازم پکڑے کے جن کا باطن اس تجلی کا مظہر ہوگیا ہو،اس تجلی کے غلبہ سے غیر کا وجود ان کی آنکھوں کے سامنے سے کس طرح اٹھ گیا ہو۔
غیر کے شہود سے پوری طور پر آزاد ہوگیا ہو۔حقیقی فنا میں اپنے غیر کے شعور کے مزاحمت سے خلاصی پاچکا ہو۔جب مقام فناکا یحقق ہوجائے تو اللہ تعالی ان کو اپنے پاس سے ایسے وجود سے مشرف کرتا ہے کہ جو خدا کا دیا ہوتا ہے ۔ اس میں بےخودی اور سکھ سے افاقہ حاصل کرکے پھر وہ اوروں کے لیے سعادت حقیقہ کا جس کو بقا و فنا کہتے ہیں واسطہ بنتے ہیں۔اس مقام پر ممکنات میں سے کوئی چیز ان کو حق سبحانہ کی حضوری سے پردہ نہیں کرسکتی۔پس داناؤں پر یہ امرواجب ہے کہ اپنے دل کی خلاصی میں جو موجودات کو وجود سے کہ در حقیقت اسی گرفتاری کا نام حجاب ہے۔ایسی چیزوں سے جو اس کی خلاصی کا سبب ہوسکتی ہیں۔چمٹ جائے اور مرنے سے پہلے اس کوخلاصی دے دیں۔اگراپنی استعداد کے موافق ذکر سے مشغول رہیں،تو قصور اور درگزر کرنے کو دخل نہ دیں۔اگر اپنے میں یہ استعداد سمجھیں کہ ارباب شہود یعنی اہل اللہ کی صحبت دل کی گرفتاری سے جلد رہائی ہو جائے گی،تو اپنے آپ کو ان برگزیدوں کی صحبت کا آداب صحبت نگہداشت کے احترام کریں۔دل کا غیر حق کی گرفتاری کا زمانہ ہی حقیقت میں وصول شہود کا زمانہ ہے۔جب دل نے وجود غیر کے شعور کی مزاحمت سے خلاصی پائی تو حق سبحانہ کے شعور کی گرفتاری کے اور کچھ نہ ہوگا
بلاؤ محنت شیریں کہ جزبا آن نیا سائی
بعد اس کے کہ دل نفی ماسوائے اللہ کے غلبہ کی وجہ سے غیر حق کے التفات کے غبار سے آزاد ہوگیا۔تو آپ سوائے حق کے اثبات کے اور کچھ نہ رہا۔
تیغ لا در قتل غیر حق براند در نگر زاں پس کہ غیر حق چہ ماند
ماند الا اللہ باقی جملہ رفت شادباش اے عشق شرکت سوز گفت
ماسوائے اللہ سبحانہ سے غائب رہنے کا زمانہ در حقیقت شہود وجود کے وصول کا زمانہ ہے۔اس سے بڑھ کے نہیں کہبحکم انما الا عمال بخو اتیھماکے معنے عمال کا اعتبار خاتموں پر ہوا کرتا ہے ۔کشف و وجود والوں نے اسی سبب میں قدرت پانے سے پہلے ذوق والوں کو اس مقام عالی تک پہنچنے والوں میں سے شمار نہیں کیا ۔اس معنی کا ظہور فناء کا مقدمہ ہے اور اس بات کی خوشخبری سناتا ہےکہ وصول کی سعادت کی صبح کی روشنی احدیث کے مطالعہ سے ظاہر ہوئی ہےجس کا مطلب یہ ہے کہ ذات کے شہود میں ہلاک اور غرق ہوجانا اور غیر کے موجود کا شعور تک نہ رہے،بلکہ اس مقام میں اگر ترقی واقع ہو تو تجلیات اسماء کے ذوقسے بھی شعور جاتا رہے۔آپ نے اس سے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہوسکتا ہے سالک حق سبحانہ کے اوصاف سے متصف ہوجائے،لیکن وہ اب تک اس معنے تک نہیں پہنچے گا۔کیونکہ وصل سے تو وہ شہود ذاتی ہے کہ جس میں کثرت کے وجود کی شعور کی مزاحمت نہ ہو۔اوصاف سے متصف ہونے کا مرتبہ کہ تجلیات صفات کا مرتبہ ہے۔کثرت کے بغیر ایک طرح سے مشکل ہے۔اگر تم چاہتے ہو کہ حق سبحانہ کے حضور کے مقام میں شیطان کے وسوسہ اور مکر سے آزاد ہوجاؤ۔بلکہ ملک کو تیرے حضور کی اطلاع نہ ہو۔بلکہ خود تیرے نفس کو تیرے حضور پر موقوف نہ ہو،تو تم پر لازم ہے کہ مردان خدا کے ساتھ ہم نشینی کرو۔کیونکہ ان کے دل و جان ذار الہی کے ذکر میں گرق ہو چکے ہیں۔اپنے سے رہائی پا چکے ہیں۔بعض نے اس مطلب کی تعبیر شہود کے ساتھ بعض نے وجود کے ساتھ،بعض نے تجلی ذات سے ،بعض نے یادداشت کے ساتھ کی ہے۔اگر یہ سعادت حاصل ہو تو چاہیے کہ ذکر کا طریقہ خواجگان کے جذبہ کو مان کر اپنے آپ کو پورے طور پر اس طریقہ کے طرز پر پہنچائے تاکہ اس دولت عظمیٰ تک جس سے بڑھ کر کوئی دولت مقصود نہیں پہنچ جائےلیس وراء المنتھی ولیس وراء عبادان قریۃیعنی سوائے خدا کے اور کوئی انتہا نہیں،اور عباد(عرب میں ایک گاؤں کا نام ہےجس کے پرے کوئی گاؤں نہیں ہے)ان کے پرے کوئی گاؤں نہیں۔نظم
عاشقاں راشادمانی و غم اوست مزد کارو اجرہ خدمت ہم اوست
غیر معشوق ارتماشائی بود عشق نبود ہر زہ سودائی بود
عشق آن شعلہ است کوچوں برفروخت ہرچہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
شغل کی نگہداشت میں اس قسم کی خبرداریہو کہ سانس کے بہر آنے جانے سے واقف ہو کر حضور مع اللہ کی نسبت میں کوئی فتور واقع نہ ہو۔یہاں تک کہ ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ اس کی نگہداشت کی تکلیف کے سوا ہی یہ نسبت اس کے دل میں حاضر ہو اور اس صفت کو تکلیف کے ساتھ دل سے دور نہ کرسکے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کو پورے طور پر خودی سے لے لیتے ہیں۔اس کو نہ اپنی خبر ہوتی ہے نہ دل کے مقصود سے واقفی ۔جب اس کو ہوش میں لائیں تو یہ چاہیے کہ مقرر طریق پر خبرداری کی نسبت کی نگہداشت میں پورے طور پر سعی کریں تاکہ کسی قسم کانقصان عوارض نفسانیہ کی وجہ سے وہاں تک نہ پہنچ سکے۔ہمیشہ التجا و احتیاج انکساری کی صفت سے خدا کی جانب میں اس نسبت کی پائیداری میں بہت بڑاقویٰ سبب چاہیے کہ ہمیشہ حق سبحانہ سے عاجزی کے وصف سے اس صفت کابقا ڈھونڈے۔اگر ہمیشگی کی عمر کے ساتھ اس نسبت کی نگہداشت میں سعی کرے تب بھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتا۔غریم لا یقضی دینہیعنی وہ قرض ہے کہ ادا نہیں ہوسکتا۔گویا اسی نسبت کی شان میں ہے۔مشاہدہ کا یہ مطلب نہیںہے کہ حق سبحانہ کو آنکھ کے حاسہ سے دیکھ سکیں۔جب اروا و اشیاء پر بے بہا انوار کا ایک پر توہ پڑتا ہےتو سب کے سب ایسے نیست ہوتے ہیں۔کان لم یکنیعنی گویا کہ تھے ہی نہیں۔ان کا نام و نشان باقی نہیں رہتا ۔بلکہ یہ اس معنی کار ہےکہ جب دل کا حضور ذکر کی حقیقت کے ساتھ ہو جو کہ حرف و آواز سے پاک ہے تو ذکر کے دوام کی وجہ سے اسی درجہ پر ترقی کرتا ہےکسی اور چیز کی درحقیقت دل میں گنجائش نہیں رہتی۔اس حال میں دل کو مشاہدہ کہتے ہیں اور خدا کو شاہد ۔اس مشاہدہ سے کمال ذوق جب حاصل ہوتا ہے کہ اسکی آگاہی حضور کے وصف سے ہواور ایک حضور شہور کی مزاحمت کے بغیر ہوتا ہے ۔کیونکہ جس قدر حضور کے شعور کے موافق حضور حق سبحانہ میں فتور واقع ہوگا۔اس کی مقدس ذات اس سے بلند ہےکہ دل کی آنکھوں میں آئے پھر کیونکر حسن میں نظر آئے۔یہی وجہ ہے کہ وصال کے پانی کے پیاسوں کی پیاس باطنی مشاہدہ سے ہر گز تسکین نہیں پاتی ، بلکہ ان کی پیاس اور برھتی جاتی ہے۔وللہ اعلم۔
حقائق اشیاء کی بابت ایک رات محبت ذاتیا میں باتیں ہوتی تھیں کہ محبت ذاتیا اس بات کا نام ہے کہ حق سبحانہ سے تعلق و عشق ہو بغیر اسکے کہ اس کا کوئی سبب جانےیہ کوئی وجہ پہچانے۔بلکہ ایک ایسا میلان و جذب ہو کہ اس کے روکنے پر قدرت نہ ہو۔آپ نے فرمایا کہ دو لڑکوں میں تا شکنہ کے اطراف میں ہم نے اس نسبت کو پایا۔ایک تو ہمیشہ ہمارے اصحاب کے حلقہ کے گرد پھرتا رہتا تھااور دور ہو کر بیٹھا رہتا تھا ۔ گردن تیڑی رکھتا تھا ۔میں ایک دن وضو کے لیے اٹھا ، تو اس نے وضو کے لوٹے کی طعف جلدی کی ۔ جب میں فارغ ہوچکا،تو میں نے اس سے پوچھا،تمہارا یہاں آنے کا کیا باعث ہے؟اور تم ایک عرصہ سے یہاں پھرتے ہے۔اس نے کہا میں بھی نہیں جانتا"ہاں اس قدر جانتا ہوں کہ جب یہاں آتا ہوں تو خدا کی طرف ایک قسم کی کشش اپنے دل میں پاتا ہوں" اور پھر میں اپنے آپ کو تمام ضروریات سے خالی پاتا ہوں اور اس سے مجھے ایک بڑی لذت حاصل ہوتی ہے اور جب باہر جاتا ہو تو اس تعلق سے خالی ہوجا ہوں۔دوسرا لڑکا بہت ہی خوبصورت تھا۔ہمارے اصحاب سے ملا رہتا تھااور اس اطراف میں بہت لوگ اس کا خیال رکھتے تھے۔ہمارے اصحاب کو متہم کرتے تھے۔میں نے کہا اس کو عزر کرکے رخصت کردو۔انہوں نے ہر چند اس میں مبالغہ کیا ۔مگر فائدہ نہ ہوا ۔ وہ لڑکا رونے لگااور سخت بے قرار ہوا۔کہنے لگا آخر اس میں آپکا کیا ہے کہ میں یہاں نہ آیا کروں۔باہر لوگ مجھے پریشان کرتے ہیں"اور اس جمیعت خاطر کے تعلق سے کہ یہاں مجھے خود بہ خود حاصل ہے دور رہوں گا۔دوستوں نے اس کو معذور رکھا ۔ اس کا کام یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نسبت کا مغلوب ہوگیا۔ایسا کہ میں بارہ اپنے گھر کا راستہ بھول جاتا اور جب ہمیں اس سے کام پڑتا تو وہ گھر سے نکل آتا یا گھر کے دروازہ پر ہوتا یا راستہ میں ہوتا اور جب ہم چاہتے کہ اس کو کچھ کام بتائیں تو وہ کام کیا ہوتا یا کردیتا ۔مرغ لاہوتی کا جو کہ ناسوتی کے پنجرے میں مقید ہے جذبہ کی تاسیر کے بغیر کہ مقام محبوبی کے لیے لازم ہے اور وہ متابعت شریعت مصطفوی میں بندھا ہوا ہےچھوٹنا نہیں ہوسکتا۔فعلیک بانباعہﷺ ان کنت متوجھا الی حقیقۃ الحقائق التی لھا وجہ فی کل موجود وبہ تحققت المو جودات۔یعنی اگر تم ان حقائق کی حقیقت کی طرف کے جس کا ہر موجود کی طرف چہرہ ہے اور اسی سے موجودات کا یحقق ہےمتوجہ ہوتے ہو۔تو تم کو چاہیے کہ آنحضرتﷺ کی اتباع کو ضروری سمجھو ۔گویا کہ اس آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔وللہ المشرق و المغرب فا ینما تو لو افثم وجہ اللہیعنی اللہ ہی کے لیے مشرق مغرب ہے ۔پھر جدھر تم متوجہ ہوگے۔وہین خدا کی ذات ہے ۔یہاں سمجھ لے وھو معکم ۔یعنی وہ تمہارے ساتھ ہے کہا ں سے ہے۔
اوبما ازما بسےنزدیک تر دانہ آنکس کوز خود دا روخبر
زندگی سے فائدہ اس شخص کو ہے کہ جس کا دل دنیا سے سرد ہوگیا ہواور خدا کےذکر سے گرم ہو۔اس کے دل کی حرارت اس کو نہیں چھوڑتی کہ دنیا کی محبت اس کے دل کے گرد پھر سکے۔اس کا حال یہاں تک ہوجاتا ہے کہ اس کا اندیشہ و فکر خدا کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔پہلے قبض کے لیے بہت سے مظاہر ہیں۔جو کچھ موجود ہے اس کا ذات کی تجلی سے حصہ ہے ۔جس کی خاص وجہ کہتے ہیں۔اس وجہ کا جذب توجہ کہ دوام کے سبب حق سبحانہ کے ساتھ وابسطہ ہےاگر الہادی اسم کی تاسیر کے ساتھ اسم مضر کے تصرف سے نجات پائے تو اس کے ذات مقدسہ کے جذب کے ساتھ دوام کی وجہ سے اپنے آپ سے پورے طور پر نیست ہوجاتا ہے ۔ اس میں گمراہ کرنے والا مل کر حق سبحانہ کے غیر کونہ دیکھتا ہے اور نہ جانتا ہے۔خدا کی پناہ اگر اسم مضر کی تاسیر سے جذب ذات کے مستقیم طریق کو کھودے تو اپنا گرفتار ہو کر اپنے سوا اور کچھ نہیں دیکھتا اور نہ کچھ جانتا ہے ۔سب کچھ وہی کرتا ہےکہ جس سے سیاہی پر سیاہی بڑھتی جاتی ہے۔ہمیشہ شہود و حدت سے پردہ میں اور رکا ہوا رہتا ہےنہ اسے بندگی میں مزہ آتا ہے۔بلکہ وہ بندگی ہی نہیں ہوتی۔بلکہ دنیاوی،آخروی صوری معنوی عذابوں کے لیے مستعد و تیار ہوجا تا ہے۔ان بلاؤں کی خلاصی کے اسباب میں وہ خالص توجہ اعمال صالحہ کا کرنا سب سے بہتر یہ ہے کہ صدق نیت سے ایسے گروہ کی خدمت میں جنہوں نے ذاتی محبت کی وجہ سے اپنی ہستی سے رہائی پا چکے ہیں،حاضر ہوجائے۔یہاں تک کہ اپنے آپکو پورے طور پر ان میں گم کردے۔رزقنا اللہ وایا کم۔خدا ہم کو اور تم کو یہ نعمت نصیب کرے ۔تمہیں معلوم ہے کہ پیر کون ہوتا ہے۔پیر وہ ہے کہ جس کام میںرسولﷺ کی مرضی نہیں اس سے وہ جاتی رہے،اور جو کچھ آنحضرت ﷺ سے نہیں ہوا،وہ اس میں نہ رہے۔بلکہ وہ اور اس کی سب ضروریات جاتی رہیں اور وہ ایساآئینہ ہوجائےکہ اخلاق و اوصاف نبی ﷺ کے سوا میں کچھ نہ ہو۔اس مقام میں صفات نبویہ سے موصوف ہونے کے سبب حق سبحانہ تعالی کی تصرف کا مظہر بن جائے،اور خدائی تصرف سے مستعد لوگوں کے باطن میں تصرف کرےاور اپنے سے پورے طور پر خالی ہو کر حق سبحانہ کے مقصود کے لیے کھڑا ہوجائے۔
ازبس کہ درکنار ہمے گیرد آن نگار بگرفت بوئے یار ورہا کرو بوئے طین
مرید وہ ہے کہ ارادت کی آگ کی تاثیر سے اس کی ضروریات جل جائیںاور اس کے مقصودات میں سے کچھ نہ رہا ہو۔اس کا قبلہ پیر کا جمال پیر کی غلامی اور خدمت میں آزادی سے فارغ ہوگیا ہو۔نیاز کا سر پیر کے آستانہ کے بغیر اور کہیں نہ رکھے،بلکہ نیستی کی رقم اپنے وجود کی پریشانی پر کھینچ دی ہو۔پیر کےغیر کے وجود کے تفرقہ کے شعور سے چھٹ گیا ہو۔
آن کس کے درسرائے نگاریست فارغست ازباغ و بوستان و تماشائےلالہ زار
اگر پوچھیں کہ توحید کیا چیز ہے تو کہہ دے کہ دل کا خالی کرنااور اس کا غیر حق سبحانہ کے واقفیت سے مجرد ہوجانا۔اگر پوچھیں کہ وحدت کیا چیز ہے تو کہہ دے کہ حق سبحانہ کے دیدار سے اپنے آپ سے خلاصی پا جاتا ۔اگر پوچھیں کہ دب بختی کیا ہے ،تو کہہ دے کہ اپنے میں پرے رہنا،اور خدا سے رہ جانا۔اگر پوچھیں وصل کیا چیز ہے تو کہہ دے کہ وجود حق کے نور سے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو بھول جانا۔اگر پوچھیں کہ فصل کیا ہے تو کہہ دے کہ غیر حق سبحانہ سے باطن کا جدا کردینا۔اگر پوچھیں کہ سکر کیا ہے تو کہہ دے کہ دل پر ایک ایسا حال ظاہر ہو جانا کہ دل اس کو پوشیدہ نہ رکھ سکے۔جس کو اس حال سے پہلے چھپانا ضروری تھا۔خواجہ عبید اللہ فرماتے تھے کہ مولانا حسام الدین شامشی امیر حمیر حمزہ فرزند امیر سید کلالؒ کے صحاب میں سے تھےرحہم اللہ تعالی ان کو پورا استغراق رہتا تھا۔بخارا کی فضا کے لیے ان کو تکلیف دی گئی۔میں ان کی کچہری میں حاضر ہوتا تھا۔ان کے مقابلہ میں ایک پنجرہ تھا کہ میں ان کو دیکھا کرتا تھا ۔لیکن وہ مجھے نہ دیکھتے تھے۔میں وہاں بیٹھ کر ان کا نظارہ کیا کرتا تھا۔میں نے ان سے کبھی غفلت اور سستی معلوم نہ کی تھی۔آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ مولانا حسام الدین رحمتہ اللہ یہ فرماتے تھے کہ اس کام کے لیے کوئی لباس اس سے بڑھ کر نہیں کہ فائدہ استفادہ کے لیے اہل علم کی صورت میں رہے آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ خواجہ بزرگوار علیہ الرحمۃ کو میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھ کو توجہ کرتے تھے۔میں بے خود پڑ گیا تھا۔جب مجھے ہوش آیا تو خواجہ شریف لے گئےتھے۔میں نے چاہا کہ آپ کے پیچھے جاؤں،لیکن میرے پاؤں لڑکھڑا گئے۔بڑی محنت سے خواجہ کی خدمت میں پہنچا ۔آپ نے فرمایا کہ تم کو مبارک ہو۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ خواجہ پارسا علیہ الرحمۃ کو میں نے خواب میں دیکھا۔انہوں نے چاہا کہ مجھ میں توجہ کریں،لیکن یہ نہ ہوسکا،شاید کہ یہ وجہ ہو کہ خواجہ بزرگ تصرف کر چکے تھے۔یہ فقیر جب بخارا میں گیا تھااور مولانا حسام الدین مولانا حمید الدین شاشی کی خدمت میں پہنچا تو اس فقیر میں اضطراب اور بے قراری تھی۔آپ نے فرمایا کہ مراقبہ در حقیقت انتظار ہے اور مراقبہ کی حقیقت اسی انتطار سے ہے۔نہایت میسر ایسے انتظار کی تحقیق کے بعد کہ جس کا ظہور غلبہ محنت کی وجہ سے ہے۔اس انتظار کے حصول کا نام ہے۔اس انتظار کے سوا اور کوئی راہبر نہیں۔
گرندارم از شکر جز نام بہر اس بسے بہتر کہ اندر کا م زہر
آسمان نسبت بعرش آمد فرود ورنہ بس عالی است پیش خاک تود
جب کہ ہم جیسے فقیروں کو ذوق کے طریق پر یہ مطلب میسر نہیں۔تو ایسی باتوں میں گرفتاری بڑی شیریں معلوم ہوتی ہے کہ اور باتوں میں مشغول ہوجائے ۔رزقنا اللہ وایا کم انتظار ابہ یغنینا عنا بحر مۃ محمدﷺخدائے تعالی ہم کو اور تم کو اسی کا انتظار نصیب کرے۔جس کے سبب اوروں سے ہم کو محمد ﷺ کے طفیل و برکت سے بے پروا کردے۔اب یہاں پر خواندہ خواجگان کے احوال و اقوال کا ذکر کرتے ہیں،اور ان کے روشن طریقہ کا بھی قدس اللہ تعالی اسرار ہم۔یہ معلوم رہے کہ ان کا طریقہ اہل السنت و الجماعت کا اعتقاد ہے۔شریعت کے احکام کی اتباع کرنا سید المرسلین صلے اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنا۔ہمیشہ عبادت کرنا کہ جس سے وجود غیر کی مزاحمت کے شعور کے بغیر حق سبحانہ کی ہمیشہ معرفت حاصل کرتا ہے۔اب جوگروہ ان عزیزوں کی نفی کرتا ہے تو وہ اس سبب سے ہوگا کہ ہوی و بدعت کی ظلمت نے ان کے ظاہر و باط نکو گھیر رکھا ہے۔حسب اور تعصب کی آلائش کے غبار نے ان کی بصیرت کی آنکھوں کو اندھا کر رکھا ہے ۔اس لیے ہدایت کے انوار ولایت کے آثار ان کو نظر نہیں آتے،اور یہ لوگ ان کو انوار و آثار کے انکار کرنے سے جنہوں نے مشرق سے لے کر مغرب تک گھیررکھا ہے ،اپنے اندھے پن کا اظہار کرتے ہیں۔افسوس قطعہ۔
نقشبندیہ عجب قافلہ سالا رند کہ برانداز رہنپہاں سجرم قافلہ را
ازدل سالک رہ جاذیہ صحبت شان میں بردو سوسہ خلوت و فکر شلہ رہا
قاصرے گرزند ایں طائفہ راطعن قسور حاش للہ کہ بر آرم بزبان ایں گلہ را
ہمہ شیران جہاں بستہ ایں سلسلہ اند روبہ از حیلہ چساں بگسلدایں سلسلہ را
(نفحاتُ الاُنس)