ام الخیر سلمیٰ بنتِ صخر رضی اللہ عنہا
(والدہ محترمہ سیدنا صدیق اکبر)
آپ کا نام سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مر اہ اور کنیت ام الخیر ہے، یہ لفظاً اور معنًی دونوں طرح ام الخیر یعنی بھلا ئی کی اصل ہی ہیں اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کے چچا کی بیٹی ہیں،ابتد ائے اسلام میں ہی خا تمہ المر سلین،رحمت اللعلمین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہو گئیں تھیں، پھر مدینہ منورہ میں ہی اسلام پر دنیا فانی سے تشریف لے گئیں،آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال حضرت سیدنا ابو قحافہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پہلے جمادی الثانی سن ۱۳ ہجری میں ہوا۔(تاریخ مدینتہ دمشق ،ج ۳۰ ،ص ۱۴ ،الا صا بۃ فی تمییز الصحابہ، کتاب النسا ء، ،ج۸ ،ص۳۸۶ ،الر یاض النضر ۃ ،ج ا ،ص ،۷۳)
آپ کا قبول اسلام:
آغاز اسلام میں جب اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے صحابہ کی تعداد اڑتیس ہو گئی تو حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے اعلان وا ظہا رِ اسلام کے لئے اجازت طلب کی، اجازت ملنے پر حضرت سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کو خطبہ اسلام دینے کے لیے کھڑے ہو ئے اور وہاں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم بھی تشریف فرما تھے، مشر کین مکہ نے جب مسلمانوں کو کھلم کھلا دعوت اسلام دیتے دیکھا توا ن کا خون کھول اٹھا اور وہ حضرت سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ و دیگر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے مسلما نوں کو مارنا پیٹنا شروع کردیا، حضرت سیدنا ابو بکر صد یق رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی نہایت ہی بری طرح تکلیف پہنچا ئیں کہ آپ کا چہرہ پہچا نا نہیں جا تا تھا۔
نیز آپ رضی اللہ تعالی عنہ بے ہو ش ہو گئے، آپ کی والدہ اور ام جمیل بنت خطاب یہ دونوں آپ کو سہا را دے کر سرکار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں لے گئیں،حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم، میر ی والدہ آپ کی خدمت میں آئی ہیں ان کا اپنے والدین کے ساتھ رویہ بہت اچھا ہے،آپ عظیم ہستی ہیں میں چاہتا ہوں آج یہ یہاں سے محروم نہ جا ئیں لہذا آپ ان کے لئے دعا فرما ئیں اللہ تعالی انہیں دولت ایمان سے سر فراز فر مائے ، مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی آپ کے وسیلہ سے انہیں دوزخ کی آگ سے محفوظ فرمائے گا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی اور انہیں اسلام کی دعوت دی،چنا چہ وہ مشر ف بہ اسلام ہوگئیں۔ (تاریخ مدینہ دمشق ،ج ۳۰ ص ۴۹ البد ایہ،تسمیہ ابی بکر ،ج ۲ ص ۳۶۹)
تصدیق کے سبب بخشش دیا گیا:
حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ ماجدہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان لانے کا تفصیلی واقعہ کچھ یوں ہےکہ حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ رات کے ابتد ائی حصہ میں اپنی والدۂ محترم کے ساتھ سرکارِدو عالم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے،نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سےکچھ گفتگو فرمائی،رات طویل اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ ماجدہ سو گئیں،جب انہوں نے لوٹنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے استفسار فرمایا، تمہارا کیا حال ہے، عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم میں تو خیریت سےہوں مگر یہ میر ی ماں ہے ،اس کے بغیر میرا چارہ نہیں،اے تمام لوگوں کے سردار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم آپ ان کےلئے دعا فر مائیے کہ اللہ عزوجل ان کو اسلام کی تو فیق عطا فرمادے، پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے اپنے کو کشا دہ کیا، ہونٹوں سے دھیمی دھیمی آواز نکالی اور ان کے لئے دعا کی تو وہاں موجود ایک صحابی رسول کا کہنا ہے کہ اللہ عزوجل کی قسم ہم نے حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ ماجدہ کو حالت نیند میں کلمۂ شہادت پڑھتے سنا، اور جب وہ بیدار ہوئیں تو بلند آواز سے پڑھا: اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد اعبد ہ ورسولہ یعنی میں گو اہی دیتی ہو ں کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں اور (حضرت سیدنا)محمد صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ ماجدہ کو کلام رسول اللہ کی تصد یق کی وجہ سے بید اری سے پہلے ہی بخش دیا گیا۔