حضرت وھیو درویش علیہ الرحمۃ
ف۔۔۔۱۰۰۱ ھ
آپ سند ھ کے چا نھیہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ،عا لم رو حا نیا ت میں بارگاہ نبوت کے حا ضر باش لو گو ں میں سے تھے،حضوراکرم ﷺ کی پیروی اور اتباع میں بلند مقام پر فائزتھے ،حب نبوی کا یہ عالم کہ سرکار والا تبار کا نام نامی سنتے ہی آپ کی حا لت غیر ہو جا یا کرتی تھی ،اگر آپ کو معلوم ہو جا تا کہ کہیں سنت نبوی کے خلاف کچھ ہو رہا ہے تو جب تک اس کی اصلاح نہ کر لیتےچین سے نہ بیٹھے تھے،اسلام کی سر بلندی کے لئے ہمہ وقت کمر کسے رہتے تھے،اعلاء کلمتہ الحق میں کسی کو خاطر میں نہ لاتے آپ کی زندگی میں وقت کے حاکم خلاف شرع کام کرنے سے خا ئف رہتے،ان پر آپ کا رعب و دبدبہ قا ئم تھا،کسی حاکم میں مجال نہ تھی کہ ظلم کا بازار گرم کرے اور لو گوں کے حقوق پامال کرے،سا دات کرام کا بے حد ادب فر ما تے تھے، عام طور پر فرش خاک ہی آپ کی خواب گاہ بنتا تھا۔
زرو دولت سے مطلق محبت نہ تھی،جو کچھ آتا غر یبوں میں تقسیم ہو جاتا،عشق نبی کا یہ عالم تھا کہ آپ کی شان میں گستا خی کرنے والے کی صو رت تک دیکھنا گوارہ نہ تھی،ایک شخص صد ھو نامی عا رفین میں سے تھے اس نے حضو ر اکرم ﷺکی شان میں کو ئی کلمہ استخاف کا کہہ دیا پھر شرمندہ ہوا اور بہت سے تحائف لے کر شیخ دھیو کی خدمت میں حاضر ہواشاید معا فی کی کو ئی صورت نکلے،جب شیخ کو اس کے آنے کی اطلاع ہو ئی جوش غضب بڑھ گیا،ملاقات سے انکار کردیانیز فرمایا کہ جب اس نے یہ بات کہی تھی اس وقت اس کو سانپ نے کیوں نہ ڈس لیا،اس کو کہو واپس چلا جائے،چنا نچہ وہ شخص واپس ہو گیا،واپسی میں شام کو ایک جگہ اترتے ہی ایک سانپ نے ڈس لیا اور رات کو مرگیا۔۱۰۰۱ ھ میں وفات پائی ،ترو کی کے مقام پر نہر سا نکرہ کے کنارے پر قبر ہے،آپ کی تا ریخ وفات عربی میں۔
مات فی عشق ہے جس کا تر جمہ در عشق جان بسرو برد
۱۰۰۱ھ ۱۰۰۱ھ
(حدیقتہ الاولیاء ص ۱۵۲ )
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )