حضرت یحی بن معاذ رازی روح اللہ روحہ
آپ پہلے طبقہ والوں میں ہیں آپکی کنیت ابو زکریا ہےاور لقب واعظ ۔حسین بن رازی کہتے ہیں کہ میں ایک سو بیس(۱۲۰)شہروں کے حکماء و علماءو مشائخ کی زیارت کے لیے گیا ہوں مگر یحی بن معاذ رازی سے بڑھ کر میں نے کسی کو بات کرنے پر قادر نہ پایا اور انکا مقولہ یہ ہے"انکسار العاصین احب الی من صولۃ المطیعین " یعنی گناہ گاروں کی عاجزی میرے نزدیک تابعداروں کے دبدبہ سے زیادہ محوب ہے ۔شیخ الاسلام نے کہا کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مرد کو بندگی میں اور وہاں سے نکال کر غرور میں ڈال دیتاہے اور خود اپنے آپ میں مغرور ہوجاتا ہے اورایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ کسی شغل میں ڈالتا ہے یا کسی گناہ میں ،پھر وہاں سے اس کو اچھی نکال لیتا ہےاور اس غفلت میں اسکو اپنی طرف مشغول کرلیتا ہے۔اپنا نظارہ اسکو عنایت کرتا ہے وہ مالک ہے جا چاہے کرتا ہے اور اکر سکتا ہے اسکے لائق یہی امر ہےاور دو باتوں پر بے فکر ہوجانا غرور اور مکر ہےکیوں کہ اسکے حکم تو جانتا نہیں اور اپنا انجام بھی تجھے معلوم نہیں۔تجھے دلیر نہ ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسی قوم کی شکایت کرتا ہے کہ جو دلیرانہ گناہ میں پڑھ جاتی ہے اور کہتے ہیں "سیغفرلنا" یعنی وہ ہم کو بخش دیگا گناہ میں اسکے حقیر جاننے سے کوئی چیز زیادہ بری نہیں اسکی حقارت کا خیال نہ کر ۔اس امر کی طرف دیکھ کہ کس کا گناہ کرتا ہے۔یحی بن معاذ سے لوگوں نے یہ کہا کہ جو قوم یہ کہتی ہے کہ ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہم کو نماز نہ پڑھنی چاہیے وہ کیسے ہیں کہا کہ وہ قبر تک پہنچے ہیں لیکن دوزخ تک پہنچے نہیں اور یہ بھی کہا ہے"صدق المحبۃ العمل بطاعۃ المحبوب" یعنی سچی محبت یہ ہے کہ محبوب کی فرمانبرداری کی جائے اور یہ بھی کہا ہے کہ زاہد لوگ دنیا کے غریب ہیں اور عارف لوگ آخرت کے غربا ء ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ حق سبحانہ و تعالیٰ جس قوم کو دوست رکھتا ہے انکے دل کو اپنی طرف لگا دیتا ہے ۔ جو شخص کسی کو دوست رکھتا ہے اسکے دل کو اپنی طرف مائل کر کے زیادہ دوست رکھتا ہے اور یہ بھی کہا ہ کہ جس شخص نے دوست سے دوست کے سوا اور کچھ دیکھا جو اسمیں دوست کو نہ دیکھا اور یہ بھی کہا ہے کہ معرفت والے خدا وحشی ہیں ۔ زمین میں انسانوں کے ساتھ محبت نہیں کرتے اور یہ بھی کہا ہے کہ محبت کی حقیقت یہ ہے کہ نیکی سے نہ بڑے اور ظلم سے نہ گھٹے "قال اھل التاریخ خرج یحیی من معاذالی بلخ و اقام بھا مدہ ثم رجع الی نیشابور ومات بھا سنۃ ثمان و خمسین و مائۃ "یعنی تاریخ دان کہتے ہیں یحی بن معاذ بلخ کی طرف گئے اور وہاں ایک مدت تک رہے پھر نیشاپور کی برف وواپس آگئے اور وہیں ۱۵۸ ہجری میں فوت ہوئے۔
(نفحاتُ الاُنس)