ابراہیم یوسف بن میمون بن قدامہ بلخی : اپنے وقت کے شیخ اجل امام اکمل محدث ثقہ صدوق تھے۔ امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں آپ کو بڑی عزت و حرمت حاصل تھی،مدت تک امام ابو یوسف کی صحبت میں رے یہاں تک کہ اپنے ہمسفر وں پر فائق ہو گئے۔ حدیث کو آپ ن سفیان بن عینیہ و وکیع واسمٰعیل بن علیہ اور حماد بن یزید سے سنا اور امام مالک سے صرف یہ ایک حدیث روایت کی، عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہما کل مسکر خمرو کل مسکر حرام۔ سبب یہ ہو اکہ جب آپ امام مالک کے پاس حدیث سننے کےلیے آئے تو وہاں قتیبہ بن سعید موجود تھے جنہوں نے امام مالک سے کہہ دیا کہ یہ شخص ارجا ظاہر کرتا ہے،پس انہوں نے تو وہاں قتیبہ بن سعید موجود تھے جنہوں نے امام مالک سے کہہ دیا کہ یہ شخص ارجا ظاہر کرتا ہے ،پس انہوں نے آپ کواپنی مجلس سے اٹھا دیا جس سے آپ ان سے صرف یہی ایک حدیث سماعت کر سکے ۔ آپ نے حدیث کو بعد فقہ کےحاصل کیا تھا۔ آپ نے امام ابو یوسف سے اس قول کو روایت کیا کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا ہےکہ کسی کوہمارے قول لیا ہے ۔ آپ کا دستو ر تھ اکہ روز مرہ بعد نماز فجر کے بلخ کے آس پاس گشت کرتے اور جو قبر گِری ہوئی دیکھتے اس کو اپنے ہاتھ سے مرمت کرتے اور راستوں دُپلوں کو صاف و درست کرتے ۔ویرانہ میں ایک مسجد تھی وہاں آپ ہمیشہ ظہر کے وقت جاکر بانگ نماز کہتے اور شہر کے فقیہ و عابدو ہاں جمع ہو کر آپ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔
ایک دفعہ بلخ امیر نے فقہاء سے کہا کہ میں تمہارے شیخ سے چند امور دریافت کر نا چاہتا ہوں مگر کیاکروں کہ وہ میرے پاس نہیں آتے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ تیرے پاس کیا بلکہ کسی کے پاس بھی نہیں جاتے ۔ اس نے کہا کہ مین چاہتا ہوں کہ ان کے پاس خود جاؤں ۔ انہوں نے کہا کہ یوں تو وہ تجھ سے بات بھی نہیں کرینگے ، اگر تو ظہر کے وقت اس ویران مسجد میں آئے او ربعد نماز کے ان سے رحمک اللہ کہے تو امید ہے کہ شاید تیری طرف متوجہ ہوں ،اس نے ایسا ہی کیا اور بعد حاصل کرنے اجو بہ اپنی مشکلا ت کے عرض کیا کہ میں بلخ کا حاکم ہوں ،اگر آپ کو مجھ سے کچھ حاجت ہو تو آپ بلا تامل ارشاد فرمائیں ۔شیخ یہ سن کر روپڑے اور کہا میرا اندرونی پانی تمام خون ہو گیا ہے کہ میں نے تیرے ایک سپاہی کو دیکھا ہے کہ اس نے اپنے بز کو ایک کبوتر پر چھوڑا تھا جس کے چنگل کے صدر سے وہ بیچا رہ خاک میں لوٹتا تھا اور وہ رحم نہیں کرتا تھا ، امیر نے یہ سن کر اپنی قلم رو میں عام حکم دے دیا کہ آئندہ کوئی شخص باز یا کتّا وغیرہ جانور شکاری اپنے پاس نہ رکھے ۔ کہتے ہیں کہ جب آپ واسطے نماز کے باہر تشریف لاتے تو کاغذ و قلم اپنے ساتھ اس خیال سے اٹھا لاتے کہ مباد ا کوئی مسئلہ پوچھ بیٹھے اور اس کو جواب حاصل کرنے میں دیری ہو ۔ امام نسائی نے اپنی صحیح میں آپ سے روایت کی اور آپ کو ثقہ بتلایا۔ وفات آپ کی ۲۴۱ھ میں ہوئی ۔’’ قلزم دین ‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)