مشائخ و فقراء کے قطب، ائمہ و علما کے پیشوا اوتاد کے جائے پناہ، عابدوں زاہدوں کے ذریعہ فخر خواجہ شیخ محمد چشتی ہیں (خدا تعالیٰ ان کے مرقد کو پاک کرے اور ان کا مشہد و مزار منور درخشاں فرمائے) جوانواع کرامات سے آراستہ اور درجات مشاہدات سے پیراستہ تھے۔ آپ نے خرقہ ارادت خواجہ احمد چشتی کی خدمت سے زیب تن فرمایا تھا۔ منقول ہے کہ خواجہ محمد چشتی اکثر اوقات عالم تحیر میں ڈوبے رہتے تھے اور سالہا سال آپ کا مبارک پہلو زمین پر نہ پہنچتا تھا آپ مجاہدہ کے اتنہائی درجہ اور غلبۂ شوق میں سرنگوں ہوکر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ آپ کے مکان میں ایک عمیق اور نہایت گہرا کنواں تھا جس میں الٹے لٹک کر عبادت الٰہی میں مصروف رہتے۔ منقول ہے کہ ایک دن آپ دجلہ کے کنارے پر بیٹھے ہوئے اپنا خرقہ مبارک سی رہے تھے کہ اسی اثناء میں خلیفۂ وقت کے فرزند رشید کا اس طرف سے نہایت شان و شوکت سے گذر ہوا۔ جب اس کی پر شوق نظریں آپ پر پڑیں تو کو کبئہ خلافت سے علیحدہ ہوکر اور گھوڑے سے اتر کر خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور زمین کو بوسہ دے کر مؤدب بیٹھ گیا۔ خواجہ نے اس کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بڑھیا عورت کسی ملک میں ایک رات بھی فاقہ سے سو رہے گی تو وہ قیامت کے دن حاکم وقت کا دامن پکڑ کر خدا وندی دربار میں اپنی فاقہ کشی کی مصیبت کا استغاثہ کرے گی یہ سن کر خلیفہ کا فرزند اٹھا اور ہر قسم کی مایحتاج اور معیشت کے ضروری سامان فراہم کر کے خواجہ کی خدمت میں پیش کیے خواجہ نے ایک نہایت خود آئندہ مسکراہٹ سے فرمایا کہ ہمارے مشائخ کے طبقے میں سے کسی نے ان تحفوں کو نظر قبول سے نہیں دیکھا ہے۔ اور ہم لوگ اس کی ذرا بھی حاجت نہیں رکھتے ہیں۔ یہ کہہ کر خواجہ نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا۔ اور کہا خدا وندا جن چیزوں کا تو اپنے پیارے بندوں کو مشاہدہ کراتا ہے ان کی ایک جھلک اسے بھی دکھادے۔ خواجہ ابھی ان باتوں کا سلسلہ ختم بھی نہ کر چکے تھے کہ دجلہ کی مجھلیاں طلائی دینار منہ میں لیے ہوئے پانی کی سطح پر ابل پڑیں جس سے خلیفہ کے فرزند کو تعجب کے ساتھ حیرت ہوئی۔ خواجہ نے فرمایا، یہ تعجب کی بات نہیں ہے حق تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے غیبی خزانوں کے دروازے کھول دئیے ہیں اور انہیں ان میں سے تصرف کرنے کی پوری قدرت عنایت فرمائی ہے اور جب یہ ہے تو ہم تمہارے لائے ہوئے تحفوں کی حاجت نہیں رکھتے۔
(سیر الاولیاء)