حضرت خواجہ محمود راجن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
(م: ۹۰۰ھ)
تحریر: ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی
خواجہ محمود راجن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد گرامی خواجہ علم الدین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بعد مسند نشین ہوئے، چشتیہ نسبت کے علاوہ شیخ خازن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے خرقۂ سہروردیہ بھی پایا تھا بلکہ سیّد محمد گیسودراز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، حضرت شیخ ابوالفتح رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اور حضرت شیخ عزیزاللہ (خلیفہ مجاز حضرت محبوب الہٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) سے بھی خلافت عطا ہوئی تھی۔ (تذکرہ خواجگانِ تونسوی: ۵۳)
ذہنی میلان یہ تھا کہ یک گیرد محکم گیر پر عمل پیرا رہا با جائے، اہل علم سے تھے اور علم کے قدر دان تھے، روایت ہے کہ
’’جو شخص بھی آپ سے کسب فیض کے لیے آتا آپ پہلے اسے دینی علوم کی طرف لگاتے اور اگر اس شخص میں علم کی رغبت و محبت ہوتی تو اس پر بے شمار انعامات کرتے، کتابیں اور نقدی اپنی گرہ سے عطا فرماتے اور پھر جو شخص علوم دینیہ کے حصول کے بعد آپ کا مرید ہو جاتا اسے قلیل مدت میں بغیر کسی مجاہدہ کے درجات اعلٰی تک پہنچا دیتے۔‘‘ (مخزن چشت: ص ۲۹۳)
اللہ اللہ! کس قدر علم دوستی کے مظاہر ان بزرگانِ سلف سے ہویدا ہوتے رہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلۂ عظیم کے تمام نامور شیوخ علم کے بغیر کسی مقام و مرتبہ کے قائل نہ تھے، انہیں خوب دیا تھا کہ فرمانِ الہٰی یہی ہے کہ علم اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے، یہ تو عام متوسلین کے حوالے سے تھا خلافت کے لیے تو علم بنیادی شرائط میں سے تھا، علم، عمل اخلاص ان بزرگوں کے نزدیک خلافت کے لزومات میں سے تھے، ایسا نہ ہوتا تو انکار کر دیتے جیسا کہ حضرت محبوب الہٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اخی سراج رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے حوالے سے بیان کیا ہے، روایت ہے کہ جب حضرت محبوب الہٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے مریدین کو خلافت سے سرفراز فرمانے لگے تو لوگوں نے اس (یعنی اخی سراج رحمۃا للہ تعالٰی علیہ) کا نام بھی پیش کیا، شیخ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ’’اس کام میں سب سے پہلا درجہ علم کا ہے۔‘‘ مولانا فخرالدین زرادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو رحم آگیا اور انہوں نے چھ مہینے کے اندر اس کو عالم متبحر بنانے کا دعویٰ کیا گیا تو انہوں نے ’’آئینہ ہند‘‘ کا خطاب دے کر خالفت سے سرفراز فرمایا۔ (تاریخ مشائخ چشت: ص ۲۵۴)
یہ تھا وہ معیار جو شیخ راجن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہمیشہ پیشِ نظر رہا۔
حضرت شیخ راجن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ۲۲ صفر ۹۰۰ھ کو انتقال فرمایا، کہا اجتا ہے کہ احمدآباد میں دفن کیا گیا مگر بعد میں آپ کے مرید باصفا شیخ چمن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مزار کھود کر آپ کا جسد نکال لیا اور آبائی قبرستان پیراں پتن میں دفن کیا جو آج بھی زیارت گاہ ہے۔
(حوالہ: بہارِ چشت، ص ۱۱۱ تا ۱۱۲)