میاں نصیر الدین شہداد کوٹی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا حافظ میں نصیر الدین اول بن میاں عبدالحلیم ۱۲۹۸ھ کو گوٹھ کنڈو بلوچستان میں تولد ہوئے۔ حضرت غوث الزمان علامہ مفتی غلام صدیق شہداد کوٹی قدس سرہ الاقدس کے رشتہ میں بھانجے تھے۔
تعلیم و تربیت:
میاں نصیر الدین ، حضرت قبلہ شہداد کوٹی کے منظور نظر تھے، سعادت ابدی ان کی پیشانی سے عیاں تھی۔ بچپن میں بہن سے اجازت لے کر انہیں کنڈو سے اپنے پاس بلوا لیا، خود تربیت فرمائی اور اپنی نگرانی میں تعلیم دلوائی۔ تعلیم کیلئے اپنے نامور شاگرد حضرت علامہ مولانا عطاء اللہ فیروز شاہی کو بلوا کر درگاہ شریف پر مدرس مقرر کیا۔ میاں نصیر الدین انہیں سے درس نظامی مکمل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔
جانشینی:
حضرت شہداد کوٹی نیا پنی زندگی میں میاں نصیر الدین کو جانشین مقرر کیا ۔ فرمایا :’’میری ظاہری باطنی وراثت کا وارث میاں نصیر الدین ہے‘‘ حضرت شہداد کوٹی کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت و خلیفہ مجاز تھے اور اس فرح درگاہ صدیقیہ کے آپ سجادہ نشین اول قرار پائے۔
درس و تدریس:
آپ نے دربار صدیقیہ پر درس و تدریس ، ارشاد و تلقین اور امامت و خطابت کے معمولات جاری رکھے ۔ اس طرح بے شمار طلباء ظاہری و باطنی طور پر مستفیض ہوئے۔
عادات و خصائل:
آپ عامل قرآن، عالم با عمل، شیخ باکمال اور شب خیز بزرگ تھے۔ اخلاق کریمانہ، سچائی سادگی کی تصویر ، غریبوں یتیموں پر شفیق و مہربان تھے۔ شب و روز شریعت و طریقت کے فروغ میں بسر کئے۔ فقراء کو معرفت الٰہی کے اسباق پڑھائے، سنت و توکل کی تعلیم دی۔ آپ کی صحبت بافیض سیکئی بے دین ، بے نمازی، چور ڈاکو ، بد عمل لوگ توبہ تائب ہو کر تہجد گزار اور پرہیزگار بن گئے۔
درس و تدریس ے بعد ختم قرآن حکیم اوردرود شریف کے ورد میں مشغول رہتے تھے۔ دونوں کاموں میں زیادہ وقت صرف کرتے تھے۔ فقراء کو بھی تلاوت قرآن کریم اور کثرت درود شریف کا حکم دیتے تھے۔ آپ تن تنہا تین کروڑ بار درود شریف کا عظیم تحفہ حضور اکرم نور مجسم ﷺ کے دربار مقدس میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔
روزانہ رات کو تین بجے اٹھ جاتے، مسجد شریف میں تہجد کی نماز ادا کرکے ، مرشد کریم کے مزار پر انوار کے پاس آکر بیٹھتے، قرآن مجید ، درود شریف کی تلاوت میں مصروف رہتے، اس کیب عد مراقبہ کرتے اور بعد میں نماز فجر کی امامت فرماتے۔ اس کے بعد اوراد و وظائف کا ورد ، اس کے بعد اشراق کے نوافل ادا کرکے اپنی نشست سے اٹھتے تھے۔ یہ آپ کا روز کا معمول تھا۔
ہر ماہ کو دس ختم قرآن کا ثواب اپنے مرشد مربی کی روح مبارک کو بخشتے تھے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ آپ کس قدر محنت و لگن سے تلاوت قرآن کرتے تھے۔
تعمیرات:
آپ نے اپنے عہد میں درگاہ شریف پر کافی تعمیری کام کروائے مثلاً زنانہ مقبروں کی دیواریں، مسجد شریف کا برآمدہ ، کنواں( جو لنگر خانہ میں واقع ہے) لکڑی کی چھت ار حجرے تعمیر کروائے۔ اس کے علاوہ درگاہ شریف کے باہر والی ٹنکی ، درگاہ شریف اور مسجد شریف کے صحن کے فرش بھی آپ کی خدمت کی یاد گارہیں۔
وصال:
حضرت مولانا حافظ میاں نصیر الدین اول نے ۱۵ محرم الحرام ۱۳۴۷ھ بمطابق ۱۹۲۸ء بروز بدھ وصال کیا ۔ آپ کا مزار درگاہ صدیقیہ شہدادکوٹ ضلع لاڑکانہ میں واقع اور مرجع خلائق ہے۔
کئی بار فقراء سے حضرت خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی علیہ الرحمۃ الباری نے خواب میں فرمایا:
’’اگر مجھے راضی کرنا ہے تو پہلے میرے فرزند میاں نصیر الدین کو راضی کرو‘‘
اسلئے فقراء سب سے پہلے آپ کو فاتحہ دیتے ہیں پھرآگے بڑھتے ہیں۔ آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے میاں عبدالحلیم سجادہ نشین ہوئے۔ (ماخوذ : تجلیات صدیقیہ ص ۳۸)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)