علامۃ الوریٰ حامل لواء شریعت مولانا الحافظ عبد العزیز بن محمد بن حامد تقریباً ۱۲۰۹ھ/۱۸۹۴ء میں ایک چھوٹی سی بستی پر مضافات کوٹ ادو ( مظفر گڑھ ) میں پیدا ہوئے ۔ قرآن مجید والد ماجد سے حفظ کیا پھر ملتان تشریف لائے اور حضرت خواجہ حافظ محمد جمال چشتی ملتانی ( خلیفۂ مجاز حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے علوم و فنون کا استفادہ کیا ۔ دوران تعلیم درواز بند کر کے مصروف مطالعہ تھے کہ کسی نے دروازہ پر دستک دی ۔ آپ نے فرمایا میں مطالعے میں مصروف ہوں مجھے فرصت نہیں ہے ۔ آنے والے نے کہا میں خضر ہوں ، آپ نے فرمایا اگر آپ خضر (علیہ السلام ) ہیں تو آپ دروازہ کھولے بغیر بھی تشریف لانے پر قدرت رکتھے ہیں ، چنانچہ حضرت خضر علیہ السلام اندر تشریف لے آئے اور آپ کے کندھول کے درمیان دست اقدس رکھا، اللہ تعالیٰ کے بے پایاں فضل سے آپ کا سینہ علم و فضل اور روحانیت کا سمندر بن گیا (۱)
(۱)غلام مہر لعی ، مولانا : الیواقیت المہریہ ص ۱۵۱
آپ خود فرماتے ہیں کے مجھے اللہ تعالیٰ نے ۳۷۰ علوم میں مہارت کامہ عطافرمائی ہے ، جب کہ کسی طور پر اس کا عشر عثیر بھی حاصل نہیں ہوا ، یہ سب کچھ عطائے ربانی ہے ۔ آپ کے بیان کے مطابق انگریزوں کو علم اسطر نو میا کا بے حدا اشتیاق تھا لیکن تلاش بسیار کے با وجود انہیں یہ علم پڑھانے والا کوئی نہ مل سکا جب کہ ااپ نے اس علم میں جلیل القدر کتاب تصنفی فرمائی تھی ۔ آپ کے الفاظ میں یتحرفیہ ایر خوس ویذ عن بطلیموس[1]
ابر خوس بھی اس کتاب کو دیکھ کر انگشت بد نداں رہ جاتا اور بطلیموس اس کے دلائل کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ۔
حضرت علامہ ظاہری اور باطنی علوم میں یگانۂ روز گار تھے ، علم و فضل کی بدولت اغنیاء اور اہل دنیا کو خاطر میں نہ لاتے جب کہ فقراء و مساکین کا علاج م فت کرتے ، ایک دفعہ مظفر خاں والی ٔ ملتان نے آپ کو علاج کے لئے طلب کیا تو آپ نے سختی سے ا نکرا کردیا [2]
علامہ کا اشہب قلم نہایت تیز رفتار تھا ، کتاب زلیخا دو جز سے کم سے کم پوری کتاب ایک دن میں لکھ ڈالی تھی ۔ آپ نے تقریباً ہر فن میں بلند پایہ کتابیں لکھیں لیکن ابھی تک اکثر و بیشتر کتب زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو سکیں ، چند تصانیف کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ نبراس ، شرح شرح عقائد
۲۔ السرالمکتوم ما اخفراہ المتقدمون ( علم اوفاق و تکسیر کے بیان میں)
۳۔ کوثر النبی ( اصول حدیث میں)
۴۔ النا ہیہ عن ذم معاویہ (فجائل امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
۵۔ نعم الوجیز ( علم بیان اور بدیع میں)
۶۔ الصمصام ( اصول تفسیرمیں)
۷۔ مرام الکلام فی عقائد الاسلام ( یہ کتابیں راقم کی نظر سے گزر چکی ہیں)
۸۔ زمر د خفر
۹۔ یاقوت احمر
۱۰ ۔ کسیر
۱۱۔ سر السماء ( علم ہئیت میں)
۱۲۔ لوح محفوظ (دوجلد ) (تفسیر عربی)
قارئین کے لئے یہ امر اعظ حیرت ہوگا کہ علم و فضل کا یہ آفتاب صرف تیس بتیس سال کی عمر میں ۱۲۳۹ھ میں روپوش ہو گیا[3]
کاش تاریخ کا کوئی محقق اس نادر روز گار شخصیت پر ریسرچ کرتا اور ان کی جلالت علمی کو آشکار کرتا تو بڑ ے بڑے سکالر ان کے سامنے بونے نظر آتے ۔ ان الفاظ سے کسی کی تنقیص مقصود نہیں بلکہ اہل تحقیق کی توجہ اس فاضل اجل کی طرف مبذول کرانامقصود ہے جو تحقیق و تدقیق میں متقدمین اہل فن سے کہیں آگے نظر آتاہے ۔
[1] عبد العزیزپر ہاروی ، علامہ : کوثر النبی (مطبوعہ مکتبہ قاسمیہ ، ملتان ) ج ۱ ۔ ص ۱۰۵
[2] غلام مہر علی ، مولانا : الیوقیت ، ص ۱۵۲
[3] بر خور دار ملتانی ، مولانا : حاشیہ نبراس ( مطبوعہ لاہور) ص ۳
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)