حضرت مولانا فتح محمد اچھروی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:مولانا فتح محمد اچھروی۔کنیت:ابوالمشتاق۔لقب:زبدۃ الکاملین،رئیس العلماء الراسخین۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:مولانا فتح محمد اچھروی بن میاں امام دین۔علیہما الرحمہ۔
مقامِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت اچھرہ لاہور میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ نےعلماءِ لاہور سےعلمی استفادہ کیا۔اپنےوقت کےجیدعالم دین وعارف تھے۔بہترین مدرس،صاحبِ تقویٰ وفضیلت عالم تھے۔بڑےبڑےاکابرین نےآپ سےاکتساب علم کیا۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ غلام محی الدین قصوریکےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اورانہی سےمجازتھے۔
سیرت وخصائص: زبدۃالکاملین،عمدۃالعارفین،رئیس الفضلاءوالمتکلمین،حضرت علامہ مولانا فتح محمد اچھروی۔آپنےساری زندگی قال اللہ اور قال رسول اللہ کی صدائیں بلندفرمائیں۔ایک زمانہ آپ سےفیض یاب ہوا۔ بچپن میں آپ پر چیچک کا شدید حملہ ہوا جس سے ظاہری بینائی زائل ہو گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے آپ کو وہ نورِ بصیرت و معرفت عطاء ہوا کہ مشائخِ کبار نے آپ سےاستفادہ کیا۔عربی،فارسی،طب،تصوف اور تمام مروجہ علوم میں کامل دسترس رکھتے تھےاور ہر قسم کے طلباء کو شرح و بسط سے درس دیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت خواجہ عبد الرسول قصوریاچھرہ کی ایک مسجدکےقریب سےگزرےدیکھاکہ ایک کتیا اپنے بچوں سمیت اس مسجد سے باہر آرہی ہے۔اس سےآپ کوبہت صدمہ ہواکہ لوگ خانۂ خدا سےاس قدر بےپروا ہ ہو چکے ہیں کہ مساجد حیوانات کی آماہ جگاہ بن چکی ہیں۔واپسی پر پھر وہیں سےگزرےتوفرمایا:’’مجھے اس جگہ نور دکھائی دیتا ہے،یہاں خدا کا نوربر سےگا‘‘۔آپ کی یہ پیشین گوئی اس طرح پوری ہوئی کہ مولانا حافظ فتح محمدنے اس مسجد میں جامعہ فتحیہ جاری کیا جہاں سے بڑے بڑے فضلاء فیض یاب ہوئے اور قال اللہ اور قال الرسول کا سلسلہ جاری رہا۔یہاں کےفضلاء میں سےایک نام ملک المدرسین،امام المناطقہ حضرت علامہ مولانا عطاء محمد بندیالویکابھی ہے۔
مولانا حافظ فتح محمد تقویٰ و پرہیز گاری میں اپنی مثال آپ تھے ، اپنے گھر میں بوئی ہوئی سبزی سے آپ کا کھانا تیار ہوا کرتا تھا ۔ آپ کی اہلیہ محترمہ بھی تقدس مآب خاتون تھیں ۔ اگرکسی خادمہ کا پکایا ہوا کھانا تناول فرمالیتے تو فوراً قے ہو جاتی ۔ اس دور کے مشائخ عظام مثلاً شیرِربانی حضرت میاں شیر محمد شر قپوری اور حضرت خواجہ محبوب عالم تو کلی خلیفہ حضرت سائیں تو کل شاہ انبالوی وغیر ہماکے آپ کے ساتھ خصوصی تعلقات تھے۔ یہ حضرات اکثر ملاقات کے لئے آپ کے پاس تشریف لایا کرتے تھے ۔ حضرت حافظ صاحب کو بزرگان دین اور مشائخ کرام سے گہری عقیدت تھی ۔ ایک مرتبہ آپ امام ربانی حضرت مجد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار پر انور پر حاضر ہوئے۔ ایک درویش نے بحالت مراقبہ بارگاہ مجدد میں کرایہ کی درخواست کی ، ارشاد ہوا ، حافظ فتح محمد شاہ سے لے لو،اور ان کی شکل بھی دکھادی،مگر وہ درویش سوال نہ کر سکے،ادھر در بار مجددی سے حافظ صاحب کو ایماء ہوا کہ فلا شخص کو کرایہ دے دیا جائے چنانچہ آپ نے اپنے خادم جمال الدین کو فرمایا کہ یہ مسافر جو احاطۂ درگاہ سے باہر جا رہا ہے،اسے اتنا کرایہ دے دو۔
حضرت حافظ صاحب کے زمانے میں مولوی عبد اللہ چکڑا لوی نے فتنہ انکار حدیث کھڑا کیا تو آپ نے اس کے استیصال کے لئے سعی بلیغ فرمائی اور چکڑا لوی کے رد میں متعدد رسائل تصنیف فرمائے،ان میں سے ایک رسالہ کانام صلوٰۃ القرآن بمتابعۃ حبیب الرحمن المعروف بہ رد چکڑالوی ہے۔اسی طرح آپ کےفیض یافتہ علماءِ کرام نےرد وہابیت وقادیانیت وغیرہ کی خوب خبر لی۔جامعہ فتحیہ اچھرہ جوآپ کی ایک علمی یادگارتھااب وہ دیوبندیوں کےقبضے میں ہے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 29/شوال المکرم1335ھ مطابق اگست/1917ءکوہوا۔آپ کی تربت لاہور میں ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اکابر اہل سنت۔