ملتانی قدس سرہ
تاج الاصفیاء امام الاولیاء حضرت مولانا حافظ محمد جمال الدین بن محمد یوسف ابن حافظ عبد الرشید ( قدست اسرارہم ) تقریباً ۱۱۶۰ھ/۱۷۴۷ء میں ملتان شریف میں پیدا ہوئے[1]
اپنے دور کے اجلہ فضلاء سے علوم دفنون کی تحصیل کی ۔ آپ دور طالب علمی ہی میں علم و فضل ، ذکاوت و فطانت میں تمام طلبہ پر فوقیت رکھتے تھے ، جو بھی آپ سے مباحثہ کرتا اسے ناکامی کا منہ دیھنا پرتا ۔ کتاب دائرۃ الا صول تک علم حاصل کیا تھا کہ آپ کو شرح صدر حاسل ہو گیا اور جذبۂ الٰہیہ اس قدر غالب ہوا کہ عبادا ت دریاضات میں منہمک ہو گئے[2]
مرشد کامل کا شوق پیدا ہوا ، اسی تلاش میں حضرت شیخ رکن الدین ملتانی قدسرہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوئے ، ہر روز ایک قرآن کریم ختم کریت اور پیر کامل کیلئے دعا مانگ کر سوجاتے ایک رات حضرت خواجۂ خواجگان خواجہ ن ور محمد مہاروی قدس سرہ کی خدمت میں حاضریکا ارشاد ہوا ، فوراً مہار شریف حاضر اور سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں مرید ہو گئے ۔حضرت حافظ صاحب کو اپنے شیخ سے عشق کی حد تک محبت تھی ، سفر حاضر خدمت رہتے اور وضو کرانے کی خدمت انجام دیتے[3]
ایک دفعہ حضرت شاہ فخر دہلوی قدس سرہ کی خدمت میں کسی نے عرض کیا کہ ملتان میں حضرت خواجہ بہاء الدین زکریا سہر وردی قدس سرہ کی عظمت ک سامنے کسی ولی کا تصرف کام نہیں کرتا اور دوسرے سلسلے کا کوئی بزرگ وہا ں کسی کو بیعت نہیں کرتا ۔ حضرت شاہ فخر رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خواجۂ عالم مہاروی قدس سرہ کو فرمایا:۔
’’ اب تک ملتان حضرت بہادء الحق کی ولایت لہٰذہ وہاں کسی دوسرے ولی کا تصرف کا ر گر نہیں ہوتا تھا ۔ اب ملتان ہمارے حوالہ کردیا گیا ہے ، اب ضروری ہے کہ تم وہاں اپنا کوئی مرید بھیجو اور کہو کہ حضرت شیخ بہاء الدین کی خانقاہ میں جاکر کر مخلوق کو مرید کرے اور اپنا تصرف جاری کرے ۔
چناچہ حضرت خواجہ مہاوری نے دہلی سے واپس آکر حضرت مولانا حافظ محمد جمال الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کو ملتان بھیجد یا ، انہوں نے مولانا خدا بخش کو خانقاہ حضرت شیخ بہاء الحق بیٹھ کر مرید [4]
حضرت حافظ صاحب علم و فضل کے بحر زخار تھے ، دقیق سے مسائل کو اس طرح بیان کرتے کہ کند ذہن طلبہ بھی بآسانی سمجھ لیتے ۔ مسئلہ وحدۃ الوجود پر حیر انگیز عبور رکھتے تھے ۔ شیخ اکبر محی الدین ، ابن عربی اور مولانا جامی کی کتابوں کو بہت محبور رکھتے تھے ۔ نفحات الانس ، مثنوی شریف ، لوائح جامی ، اشعۃ اللمعات اورفصوص الحکم نہایت ہی پسند تھیں ، خاص طور پر فصوص الحکم کے فص محمدی سے تو یہان تک محبت تھی کہ اگر کوئی شخص آپ کے سامنے ذکر بھی کر دیتا تو جھوم جاتے[5]
آپ نہایت با اخلاق شخصیت کے مالک تھے ، بچوں کے ساتھ حددرجہ شفقت سے پیش آتے ، غرباء کی دلجوئی کو بہت اہمیت دیتے ، اگر کسی غریب کے ہاں دعوت پر تشریف لے جاتے تو خوشی کے آثار آپ کے چہرہ پر ظاہر ہوتے۔
ایک دفعہ روزہ سے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو مدعو کیا ، آ پ اسی طرح تشریف لے گئے ، کھانے کے وقت روٹی کے لقمے توڑ توڑ کر رکھتے رہے اور پاس بھٹیے ہوئے احباب کھاتے رہے حتی کہ چند ہمراہیوں کے علاہ کسی کو بھی پتپ نہ چل سکا کہ آپ نے کھانا نہیں کھایا[6]
حضرت حافظ صاھب علامہ وقت اور شیخ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ مرد حق اور مرد میدان بھی تھے ۔ آپ کے دور میں پنجاب سکھوں کے تسلط میں آچکا تھا، سکھوں نے کئی مرتبہ ملتان پرحملہ کیالیکن آپ کی زندگی میں ملتان پر قابض نہ ہو سکے ۔ ایک رات آپ کو معلوم ہوا کہ سکھ ملتان کا محاصرہ کر کے حملہ کرنے والے ہیں ۔ یہ خبر ملتے ہی آ پ شمشیر و سناں سے مسلح ہو کر جوانوں سے بھی آگے نکل گئے اور ڈٹ کر کفار کا مقابلہ کیا ۔ محاصرہ سے پہلے بعض لوگوں نے کہا کہ ہمیں یہاں سے دوسری جگہ جانا چاہئے تاکہ کافروں کے حملے سے محفوظ رہیں ، اس پر حضرت حافظ صاحب نے فرمایا:
’’اب عام ابتلاء کا دور ہے اور جہاد فرض عین ہو چلاہے اس وقت ہم کہیں نہیں جائیں گے ، اب ہمارے لئے دوہی محمود انجام ہیں کہ ہم غازی ہوں گے یا شہید۔[7]‘‘
حضرت حافظ صاحب خوف و ہر اس سے نا آشنا تھے ، تیرا اندازی میں اس قدر ماہر تھے کہ دوسروں کو یہ فن سکھایا کرتے تھے ۔
آپ بہت لطیف مزاج تھے ، عمدہ لباس زیب تن فرماتے ، آپ کی انگوٹھی پر ان اللہ جمین یح الجمال ‘‘ نقش تھا [8]
آپ فرماتے تھے کہ خرق عادت یہ ہے کہ نفس کی عادات مثلاً شکم سیری ، بے فائدہ گفتگو اور عبادات میں سستی کو خوراک کی کمی ، خاموشی اور ریاضت سے توڑ دے ، نیز فرمایا کرتے تھے جوا مر بھی ظاہر ہو یہی سمجھنا چاہئے کہ یہ ر حقیقت اللہ عزوجل کا فعل ہے اور مائو شما صرف وہم ہے [9]
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سلا سل اربعہ میں مجاز تھے لیکن سلسلۂ عالیہ چشتیہ سے زیادہ انس رکھتے تھے اس لئے اکثر و بیشتر اسی سلسلہ میں مرید کیا کرتے تھے[10]
۵ جمادی الاولیٰ، ۲۹ مئی ( ۱۲۲۶ھ/۱۸۱۱ء) کو آپ نے وصال فرمایا اور ملتان میں محو استراحت ابدی ہوئے ، کسی نے تاریخ وصال کہی ؎
خرد سال وصائش چو جست و جوئے کرد
ندائے داد سروشم کہ ’’یافت کوب وصال ‘‘[11]
آپ کے بعد حضر ت مولانا خدا بخش ملتانی مسنف رسالہ تو فیقیہ ( توحید کے موضوع پر) سجادہ نشین ہوئے۔
حضرت حافظ صاحب کے مریدین کا حلقہ بہت وسیع تھا [12]
۱۔ علامۃ الدہر عبد العزیز ہاروی ( صاحب نبر اس ،شرح شرح عقائد و کتب عدیدہ )
۲۔ مولانا زاہد شاہ ۔
۳۔ مولانا غلام حسن ۔
۴۔ مولانا قاضی عیٰسی خان پوری ۔
۵۔ مولانا عبیدی اللہ ملتانی ۔
۶۔ مولانا حامد
۷۔ مولانا غلام فرید وغیر (رحمہم اللہ تعالیٰ)
[1] عبد الحق مہر ، ڈاکٹر : نور جمال (سرئیکی ادبی بورڈ ، ملتان ، ۱۹۷۴ئ) ص ۱۷۔
[2] عبد العزیز ہاروی ، علامہ العصر : گلزار جمالیہ ( مطبع ابو العلائی ، آگرہ ۱۳۲۵ھ) ص ۷۔۸
[3] خلیق احمد نظامی : تاریخ مشائخ حیثیت ( بحوالہ مناقب الحبو بین ) ص۵۹۹۔ ۶۰۱
[4] خلیق احمد نظامی ، پروفیسر : تاریخ مشائخ چشت ص ۵۹۸۔ ۵۹۹۔
[5] عبد العزیز پر ہاروی علامۃ العصر : گلزار جمالیہ ص ۸۔
[6] عبد العزیز ہاروی ، علامۃ العصر : گلزار جمالیہ ص ۱۰۔
[7] خلیق احمد نظامی ، پرفیسر : تاریخ مشائخ چشت ص ۲۰۳۔ ۶۰۴۔
[8] عبد العزیز پر ہاروی ، علامۃ العصر: گلزار جمالیہ ص ۱۷۔
[9] ایضاً : ص ۱۹ ۔ ۲۱۔
[10] عبد العزیز پر ہاروی ، علامۃ العصر : گلزار جمالیہ ص ۱۸۔
[11] خلیق احمد نظامی ، پرفیسر : تاریخ مشائخ چشت ص ۶۰۶۔
[12] ایضاً : ص ۲۰۶۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)