فاضل جلیل،عارف بے مثیل،آفاقی شاعر حضرت میاں محمد بخش قادری (مصنف سیف الملوک)ابن حضرت مولانا میاں شمس الدین قادری قدس سرہما (۱۲۴۶ھ؍۱۹۳۰ئ) میںعلاقہ کھڑی خاص (ضلع میر پور،آزاد کشمیر ) میں پیداہوئے آپ کا سلسلۂ نسب خلیفہ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے والد گرامی مستند عالم دین،با کمال صوفی اور حضرت پیرے شاہ غازی قدس سرہ کی درگاہ کے سجادہ نشین تھے۔ میاں صاحب نے علوم دینیہ کی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی،زہد و تقویٰ اور صفاء باطن کا علیٰ ذوق بھی انہی کے فیض نظر کا نتیجہ تھا۔
علوم ظاہریہ سے فراغت کے بعد تزکیۂ باطن اور معرفت کے اسرار موز حاصل کرنے کا اشتیاق پیداہوا،اس تلاش میں ج ہاں کہیں کسی صحب دل کا پت چلتا وہیں پہنچ جاتے اور روحانی استفادہ کی کوشش کرتے ۔ایک دن حصول مقصد میں تاخیر کی وجہ سے بہت مضطرب ہوئے اور استخارہ کیا تاکہ کوئی راہ نکل آئے،نیند اور بیداری کے درمیان دیکھا کہ حضرت پیرے شاہ غازی المعروف و مڑی والے پیر رحمہ اللہ تعالیٰ (کھڑی شریف ) بازو سے پکڑ کر فرمارہے ہیں
’’تم میرے مرید اور میں تمہارا پیر ہوں،سلسلۂ عالیہ قادریہ میں سائیں غلام محمد میرے روحانی فرزند ہیں،کلروڑیشریف میں حاضر ہو کر ان کی ظاہری بیعت کرلو‘‘[1]
میاں صاحب اٹھے اور بڑی خوشی کے ساتھ حضرت سائیں غلام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض مد عا کیا۔انہوںنے فرمایا ’’کچھ دن صبر کرو‘‘ چند دن بعد پھردرخواست کی تو پھر وہی جواب ملا۔اس طرح کئی سال گزر گئے۔اس دوران آپ نے تزکیۂ باطن اور سلوک کی کئی منزلیں طے کیں اور باقاعدہ عبادت و ریاجت میں مصروف رہے۔آخر ایک روز حضرت سائیں غلام محمد نے میاں صاحب کو اپنے شیخ کے مزار پر لے جاکر بیعت سے مشرف فرمایا اور حکم دیا کہ کشمری جاکر حضرت شیخ احمد ولی قدس سرہ سے مزید فیض حاسل کرو۔
میاں صاحب اب ایک دشور اور کٹھن سفر پر روانہ ہو گئے اور مقصد کی لگن میں سفر کی صعوبتوں سے بینیاز سر ینگر جا پہنچے،حضرت شیخ احمد ولی رحمہ اللہ تعالیٰ بڑی شفقت سے پیش آئے اور اسرار معرفت سے آگاہ کر کے خلعت خلافت سے نوازا، کچھ عرصہ بعد مرشد کامل کی اجازت سے واپس آکر کھڑی شریف قیام پذیر ہو گئے اور فیض وجود کے دریا بہادئے،بلا شبہ ان گنت افراد آپ کے انفاس قدسیہ،ارشادات عالیہ اور فیض نظر سے مستفید ہوئے۔حضرت میاں صاحب ایک متمول اور خوشحال خاندان کے چشم و چراغ ہونے کے با وجود جوانی ہی میں علائق دنیا سے بیزار اور ظاہری جاہ و حشم سے متنفر تھے،آ کے والدین نے بری محبت سے آپ کیایک جگہ نسبت طے کی تھی لیکن آپ نے اسے بھی توڑدیا اور تجرد کی زندگی کو پسند کیا،تمام زندگی معمولی مقدار میں کھانا تناول فرماتے رہے،کاص طور پر عمر کے آخری حصے میں توخوراک کی مقدار بالکل قلیل رہ گئی تھی،عبادت و ریاجت کی لگن او ر محبت الٰہیہ کی محویت نے آپ کے دلکو دنیا اور دنیاوی امور سے پوری طرح مستعفی کردیا تھا، یہی وجہ تھی کہ آپ کی مجلس میں حاضر ہونے والا اللہ تعالیٰ کی محبت،اہل اللہ کی عقیدت،ذکر و فکر کے شوق اور روحانی سکون کی دولت سے مالا مال ہو کر لوٹتا تھاآج بھی آپ کے مرقد پر حاضر ہونے والا دلی سکون اور مسرت حاصل کئے بغیرنہیں رہ سکتا۔
حضرت میاں صاحب سے متعدد تصنیفات یادگار ہیں جو ان کے تجر علمی، عقیدے کی پختگی،حسن عقیدت کی فروانی،قدرت کلام اور فی البدیہ شعر گوئی پر شاہد عادل ہیں۔آپ کی مشہور تصانیف کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ تحفۂ رسولیہ
۲۔ گلزار فقر
۳۔ کرامت غوث اعظم
۴۔ تحفۂ میراں
۵۔ ہدایت المسلمین (رد نجدیت)
۶۔ تذکرہ مقیمی
۷۔ قصہ شیخ صنعان
۸۔ شاہ منصور
۹۔نیزنگ عشق
۱۰ ۔ سخی خواص خاں
۱۱۔ مرزا صاحباں
۱۲۔ سوہنی مہینوال
۱۳۔ شیریں فرہاد (وغیرہ وغیرہ)
ان میںسب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت آپ کی لافانی تصنیف سیف الملوک کوحاصل ہوئی جو آج بھی لاکھوں دلوںکی دھڑ کن ہے او خطٔ پو ٹھوہار میں قریباً تمام مردوزن اسے بڑی عقیدت ومحبت سے پڑھتے ہیں۔سیف الملوک میں آپ نے محض بدیع الجمال اور سیف الملوک کے حسن و عشق کا قصہ ہی بیان نہیں کیا بلکہ بقول عارف رومی ؎
خوشتر آں باش کہ سر دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں
عاشق صادق کو عشق حقیقی،تصوف کے گہرے اسرار غوامض اور محبوب حقیقی کے راستے میںپیش آنے والے طوفان مصائب کے سامنے مروانہ وار سینہ سپر ہونے کا درس بھی دیا ہے چنانچہ خود فرماتے ہیں ؎
بات مجازی،رمز حقانی،ون وناں دی کاٹھی
سفر العشق کتاب بنائی سیف چھپی وش لاٹھی
میاں صاحب واضح طور پر یہ تاثردینا چاہتے ہیں کہ سیف الملوک ایسا مجازی عاشق بے پناہ مصیبتوں سے دو چار ہوتا ہے اس کے باوجود اس کی ثابت قدمی میں فرق نہیں پڑتا او بالآخر حصول مقدصد میںکامیاب ہوجات ہے۔عاشق حقیقی کو تو اس سے بھیزیادہ ہمت واستقلال کا ثبوت دینا چاہئے اورکسی بڑی مصیبت کو خاطر میں لائے بغیر راہ طلب میں گامزن رہنا چاہئے۔میاں صاحب کا کلام اسرار معرفت کی عام فہم تشریح ہے اور اس سے اسی وقت رہنا چاہئے۔ میاں صاحب کا کلام اسرار معت کی عام فہم تشریح ہے اور اس سے اسی وقت استفادہ کیا جا سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی معرفت کو مقصود قلب و نظر بنا کر پڑھا جائے ورنہ محض قصہ پڑھ لینے سے دل بہلانے کے علاوہ اور کیا حاصل ہو سکتاہے؟
اس نادر قصے کا انتخاب بھی میاں صاحب کی جدت طبع کا نتیجہ ہے۔طویل قصے کو جس خوش اسلوبی اور تسلسل سے پیش کیا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے،پھر لطف یہ کہ حسن و عشق،رنج و راحت،بحروبر،باغ و بہار اور حقیقت و مجاز کسی بھی عنوان پر آپ کا شہوا ر قلم رکنے کا نام نہیں لیتا،سیف الملوک کے مطالعہ کی بنا پر اگر آپ کو جامئی پنجاب کہا جائے تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا،آپ نے صرف تئیس سال کی عمر میں اسے مکمل کرلیا تھا۔
عارف کھڑی حضرت میان محمد بخش قادری قدس سرہ کا وصال ۳۲۔۲۲۳۱ھ؍ ۱۹۰۴ء میں ہوا،آپ کی آخری آرام گاہ آپ کے ممدوح اور مرشد معنوی حضرت پیرے شاہ غازی قادری قدس سرہ کے جوار میں بنی،مزار پر انوار مرجع انام ہے[2]
[1] انسا ئیکلو پیڈیا
[2] فقیرمحمدفقیر،ڈاکٹر:جان پچھان،مقدمہ سیف الملوک (پنجابی اوبی اکیڈمی،لاہور)
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)