حضرت مولانا نثار احمد کانپوری
مولانا نثار احمد کانپوری 1297ھ مطابق 1880ء بمقام کان پور(یوپی، انڈیا) میں پیداہوئے۔ آپ استادزمن مولانااحمد حسن کانپوری کے چھوٹے صاحبزادے اور مولانا مشتاق احمد کانپوری کے برادرِ خورد تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ عربی فارسی کی ابتدائی کتابیں مولاناشاہ عبیداللہ کان پوری ، مولاناعبد الرزاق کان پوری اورمولانا محمد علی مونگیری سے پڑھیں اور دورۂ حدیث کےلیے اپنےخالو حضرت محدث سورتی کے سامنے زانو ے تلمذتہہ کیا۔ آپ نے نہایت خوش الحان حافظِ قرآن،سحرالبیان خطیب، مفسّر ومقرر، متبحر عالم ومناظر اور دردمندقومی رہنماتھے۔آپ کوشرف ِبیعت فاضل بریلوی مولانا احمد رضاخاں سے حاصل تھا،اور اپنے پیرومرشد سے عقیدت درجۂ کمال کوپہنچی ہوئی تھی۔ مولانا نثاراحمد کانپوری نے1900ء میں ہندوستان کی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اوربہت جلد پورے ہندستان میں آپ کی شہرت عام ہوگئی۔آپ انگریزوں کے شدید مخالف اور ہندوستان میں سلطنت اسلامی کے احیا کے زبردست داعی تھے۔1902ء میں حامیِ سنّت نواب سرسلیم اللہ خان تلمیذ مولانا احمد حسن کان پوری نے جب مسلمان کی علیحدہ سیاسی جماعت مسلم لیگ کے قیام کے سلسلے میں ہندوستان کے قومی رہنماؤ ں کوڈھاکہ آنے کی دعوت دی توآپ نے بھی بحیثیت مبصّر اس اجلاس میں شرکت کی۔ مولانانثار احمد کی ہندوستان گیر قومی سیاست کاآغاز اس مقام سے ہوتاہےجب کہ1913ءمیں مسجد مچھلی بازار کانپور کےسانحے پرآپ کی شہرت کودوام حاصل ہوا۔ اس تحریک کے ہراول دستے میں مولاناعبدالباری فرنگی محلی،مولانامحمدعلی جوہر، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا عبدالماجد بدایونی ، بیرسٹر مظہرالحق اور مولانا نثاراحمد کانپوری شامل تھے۔ اس سانحہ کی مذمت میں مولانانثار احمد کانپوری نے کانپور کےاطراف واکناف میں اپنی سحر بیانی سے آگ سی لگادی تھی اور مسلمانوں کے قافلے مسجد کے انہدام کوروکنے کے سلسلے میں جوق درجوق کانپور پہنچ رہے تھے۔
بزرگ صحافی سرداراحمد صابری نے لکھا ہےکہ مولانا نثاراحمدکانپوری مشہور سیاسی رہنمااور بہت ہی پرجوش خطیب تھے۔ جس شہر میں آپ کی تقریر ہوتی تھی اُسے سننے کےلیے قرب و جوار کےعلاقوں سے بکثرت لوگ آیاکرتے تھے۔ قرآنِ مجید پر سیر حاصل عبور تھا۔ با ت بات پر قرآن مجید کی آیات استدلال میں پیش کرتے تھے[1] سردار احمدصابری نے اپنے مضمون مولانا نثاراحمد سے متعلق تقریباً تمام یادداشتیں قلم بندکردی ہیں۔ ہرچند بعض مقامات پر واقعی تضاد واغلاط موجود ہیں لیکن اس کے باوجود یہ مضمون ایک وقیع حیثیت رکھتاہے۔ انہوں نےلکھاہےکہ مجھے مولانانثار احمدکی زیارت کاشرف پہلی مرتبہ1911ء یا1912ء میں حاصل ہوا ۔ اس زمانےمیں کانپور مسلمان اور عیسائیوں کےمناظرے کااہم مرکز بناہواتھا۔ خاص کرپادری احمد شاہ کی سرگرمیوں نے جارحانہ شکل اختیار کرلی تھی۔ مدرسۂ الہٰیات کے وسیع احاطے میں عام مناظروں سے برعکس علمی نوعیت کاایک مناظر ہ عیسائی مشنریوں سے ہواتھا۔ مسلمانوں کی جانب سے مچھلی بازارکے ہیرو مولانا آزاد سبحانی اورمولانانثار احمدنےحصہ لیاتھا۔ میں اپنے خالومولاناعبدالرزاق کانپوری مصنف ’’برامکہ‘‘ کے ہمراہ مناظرہ دیکھنے گیا۔ نوعمری کی وجہ سے سمجھ میں توکچھ نہیں آیالیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ مولانا سبحانی کی تقریر ایک ٹھہرے ہوئے دریا کی سی تھی جب کہ مولانانثار احمد کی تقریر کااندازایک طوفانی سمندرکی طرح تھا۔
مولانانثاراحمدنے جنگ طرابلس کے موقع پربھی بڑی جرأت اور گرم جوشی کامظاہرکیا۔ اور مسلمانوں کوآمادہ کیا کہ وہ اپنے تُرک بھائیوں کے ساتھ دینے کےلئے کمربستہ ہوجائیں۔ ابھی طرابلس کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ دوسری جنگ بلقان کے شعلے بھڑک اُٹھے۔ چنانچہ مولاناکانپوری کاجوش و خروش اور بڑھ گیا۔ آپ نے علمائے فرنگی محل کے تعاون اور اشتراک سے ترکوں کی امداد کےلیے بڑی تندہی سے کام کیا۔ اس سلسلے میں علمائے فرنگی محل نے لکھنؤ میں ایک جلسہ منعقد کیاجس سے مولانانثاراحمد کانپوری نےخطاب کرتےہوئے واشگاف الفاظ میں اعلان کیاکہ اگر برطانیہ نے ترکوں کویورپ سے نکالنے کی کوشش کی۔ تواسے مسلمانانِ ہند کی وفاداری سے ہاتھ دھوناپڑیں گے۔
مولانا نثاراحمد کانپوری اورمولانا محمد علی جوہرکےدرمیان تعلقات کاآغاز1902ء میں مسلم لیگ کے قیام کےموقع پرہوا،اور پھر ان تعلقات کوایسا استحکام حاصل ہواکہ مرتے دم تک ایک دوسرے کاساتھ نہیں چھوڑا۔ مولانامحمد علی کی1919ء میں رہائی کےبعد مولانانثار احمد کانپوری نے کانپور کی رہائش ترک کرکے آگرے کواپنامستقر بنالیااور آگر ےکے مفتی مقرر ہوئے۔ اس زمانے میں خلافت اورعدم تعاون کی تحریک اپنےپورے شباب پرتھی۔ پورے ملک میں جلسے ہورہے تھے۔ مولانثار احمد کانپوری کے پیرومرشد فاضل بریلوی مولانااحمدرضاخاں نےترکِ موالات کےسلسلے میں یہ موقف اختیار کیاتھاکہ جب انگریزوں سے ترکِ مولات ہےتوہندوؤں سے موالت کیامعنی رکھتی ہے۔ کیونکہ قرآن سنّت کی روسے دونوں کافر اور اسلام دشمن قوتیں ہیں۔مولانا حکیم قاری احمد صاحب نے لکھاہےکہ مولانا نثاراحمد کانپوری کابریلی سے رشتہ اس قدر مستحکم تھاکہ ترک ِموالات کی حمایت کے باوجود آپ خانقاہِ رضویہ بریلوی کی حاضری سے نہیں رکے۔ [2] فاضل بریلوی کے خلیفہ اور حضرت محدث سورتی کے صاحبزادے سلطان الواعظین مولاناعبدالاحد قادری پیلی بھیتی جوہند ومسلم اتحاد کے سخت مخالف اور ترکِ موالات کے سلسلے میں فاضل بریلوی کے فتوے کے زبردست مبلغ تھے۔ اُن سے بھی مولانا نثار احمد کانپوری کے مراسم ہمیشہ برادرانہ رہےاور تمام عمردوستی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ انجمن خدام کعبہ ، خلافت کمیٹی اورمسلم لیگ کے علاوہ مولانا نثاراحمد کانپوری نے انجمن خدام الحرمین کے قیام میں بھی بڑی گرم جوشی سے حصہ لیا۔ اس انجمن کے آرگنائزروں میں مولاناعبد الباری فرنگی محلی، مولانا نثار احمد کانپوری مولاناحسرت موہانی اور مشیر حسین قدوائی شامل تھے۔ [3]
8؍مئی1921ء کوکراچی میں مولانامحمد علی جوہر کی صدارت میں آل انڈیا خلافت کانفرس کااجلاس منعقد ہوا، جس میں متفقہ طور پر یہ قرار دار منظور کی گئی کہ انگریز کی فوج میں مسلمانوں کابھرتی ہونا شرعی اعتبارسےناجائز اورحرام ہے۔ اس قرار دادکی حمایت میں پانچ سوعلماکاایک دستخط شدہ فتوٰی بھی کانفرس میں تقسیم کیاگیا۔ چنانچہ حکومت نے خلافت کانفرس کے سات رہنماؤں کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمہ قائم کرکے وارنٹ گررفتاری جاری کردیئے۔ مولانامحمدعلی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانانثار احمد کانپوری، پیرغلام مجدّ د سرہندی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، حسین احمد مدنی اورشنکر اچاریہ کومختلف مقامات سے گرفتارکرکے کراچی لایاگیا،اور 26؍دسمبر1921ء کوکراچی کے’’خالق دیناہال‘‘ میں مقدمے کی سماعت شروع ہوئی، اور مقدمہ سیشن سپردکردیاگیا، جہاں سے سوائے شنکر اچاریہ کےسب رہنماؤ ں کودودوسال قید بامشقت کی سزا سنادی گئی۔ مولانا نثار احمد کی دوسری مرتبہ گرفتاری1925ءمیں عمل میں آئی۔ جب کہ آپ نے یتیم خانہ اسلامیہ، پریڈ بازار کانپور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئےحجازمیں مقامات ِمقدسہ کے انہدام پرشدید احتجاج کیا۔ حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیاکہ وہ ہندوستان کےمسلمانوں کےمذہبی جذبات کااحترام کرتے ہوئےحکومت حجاز سے احتجاج کرے اور نجدی کارروائیوں کو رکوائے۔ غرض کہ مولانانثار احمدکانپوری کی پوری زندگی عالم اسلام کی سربلندی کےلیے جدوجہد کرتےہوئے گذری۔آپ نے جب اور جس تحریک میں حصہ لیااُس کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں اوراپنی ذات کوقوی خدمات کے لیے وقف کرکے رکھ دیا۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ اُس عظیم رہنما کومؤرخین اور تذکرہ نگاروں نے بھلادیا اور کبھی اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ اُن کی زندگی اور شخصیت سے نئی نسل کوروشناس کرایاجائے۔
4؍جنوری 1931ءکوجب مولانانثاراحمدکانپوری کواطلاع ملی کہ مولانامحمدعلی جوہر لندن میں انتقال کرگئے توآپ پرغم کاپہاڑ ٹوٹ پڑا اور آپ نے فوری طورپر ہندوستان چھوڑدینے کافیصلہ کرلیا۔ فروری؍1931ءکے اوائل میں آپ ارادۂ حج سے نکلے اور زیارت مدینہ طیبہ وحج بیت اللہ سے فارغ ہوکر اپریل کےآخری عشرے میں جدّہ کےمقام پر اس دارِفانی سےعالمِ جاودانی کی جانب کوچ کرگئے۔ آپ کے انتقال کی خبر ہندوستان میں بڑھ دُکھ سےسنی گئی۔ مسجد بی بی جی بریلی، بیلوں والی مسجد پیلی بھیت اور شاہی جامع مسجد آگرہ اور مسجد میاں محمد جان امرتسرکے علاوہ متعددمقامات پرتعزیتی جلسے منعقد ہوئے اورمولانا کی قومی وملیّ خدمات کوخراج ِ عقیدت پیش کیا گیا۔ امر تسر کے اخبار ’’الفقیہ‘‘نے مولاناکے انتقال کے خبر سیاہ حاشیے اور ’’آفتابِ علم وعمل غروب ہوگیا‘‘کے جلی عنوان کے ساتھ شائع کی اور لکھا کہ حضرت مولانا زبردست عالم فاضل اور نہایت ہی مخلص اور بے تکلف بزرگ تھے۔ چند برسوں سے آپ کامعمول تھاکہ آپ ہرسال حج بیت اللہ وزیارت مدینہ طیبہ کی نیت سے حجاز ِ مقدس تشریف لے جاتے تھے۔ آپ کاقو ل تھا کہ ’’مجھے حج کی بیماری ہے۔‘‘ آپ کوحجاز کی مقدس سرزمین سے اس قدر عشق تھاکہ عموماً مکّہ معظمہ سے مدینہ تک پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ آپ کی الم ناک وفات سےجماعتِ احناف کوبے حد نقصان پہنچاہے[4]
مولانا نثار احمد کانپوری کی کوئی مستقل تصنیف موجود نہیں مگر مختلف فتویٰ پر آپ کی تصدیقات اور مختلف رسائل پر تقریظات موجود ہیں ۔ (ماخوذ از: تذکرہ محدث سورتی،ص264تا268)
[1] ۔ مولانا نثار احمد کانپوری مضمون سرداراحمد صابری مطبوعہ روزنامہ جنگ کراچی 12؍مئی 1978ء
[2] ۔تاریخ پاک وہند،ص352
[3] ۔علماء ان پالیٹکس، ص291۔از ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مطبوعہ کراچی1974ء
[4] ۔اخبار الفقیہہ امرتسر ص9،شمارہ 21،مئی؍1931ء