حضرت عمدۃ المحققین قاضی عبد النبی کوکب رحمہ اللہ لاہور علیہ الرحمۃ
فاضل جلیل حضرت علّامہ قاضی عبد النبی کوکب بن الحاج حافظ قاضی عبد الحکیم رحمہما اللہ ربیع الاوّل، مئی ۱۳۵۵ھ / ۱۹۳۶ء میں گجرات کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ قریشی ہاشمی خاندان کے چشم و چراغ تھے اور آپ کا سلسلۂ نسب حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے واسطہ سے امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ تک جا پہنچتا ہے آپ کے والد ماجد حافظ قرآن اور نہایت پرہیز گار بزرگ تھے گجرات شہر میں کتابوں کی تجارت تھی اور سکول و کالج کی کتابوں کے علاوہ علوم دینیہ کی کتب کا ضلع بھر میں سب سے بڑا مرکز آپ ہی کی دکان تھی۔
علامہ قاضی عبد النبی کوکب رحمہ اللہ چار سال کی عمر میں قرآن پاک اور ابتدائی دینی تعلیم میں مصروف ہوئے۔ چھ برس کی عمر میں والد ماجد نے حکیم الامّت حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمہ اللہ کی نگرانی میں آپ کو تحصیلِ علم کے لیے مدرسہ انجمن خدام الصوفیہ گجرات میں بٹھایا، جہاں آپ نے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے علاوہ استاذ العلماء حضرت علّامہ قاضی عبد السبحان کھلّابٹی، حضرت مولانا مفتی محمد امین رحمہما اللہ اور حضرت مولانا محمد اکرام سے اکتسابِ فیض کے بعد ۱۹۵۲ء میں سند فراغت حاصل کی۔
۱۹۵۱ء میں بائی پرافیشنی اِن اُردو، ۱۹۵۲ء میں آنرزانِ پرشین(فارسی) ۱۹۵۳ء میں آنرزان اردو اور ۱۹۵۴ء میں آنرزان عریبک(عربی) کے امتحانات پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیے عربی کے امتحان میں آپ نے گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔
جنوری ۱۹۵۵ء میں آپ گجرات سے لاہور تشریف لاکر جامعہ نعیمیہ میں فاضل عربی کے استاذ مقرر ہوئے اس کے ساتھ ہی درسِ نظامی کے اسباق بھی پڑھاتے رہے۔
۱۹۵۶ء میں آپ جامع گنج بخش لاہور میں صدر مدرس مقرر ہوئے جہاں دو سال تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے اسی سال آپ جامع مسجد تاجے شاہ چیمبرلین روڈ لاہور کے خطیب مقرر ہوئے۔
۱۹۶۰ء میں پنجاب یونیورسٹی میں مخطوطات پر ریسرچ(تحقیقی) کے لیے آپ کی تقرّری ہوئی جو تادمِ زیست برقرار رہی۔
۱۹۶۱ء میں آپ نے مسجد دربار حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ میں بعد از نماز فجر روزانہ درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کے حسنِ بیان اور تحقیق و تدقیق نے اس درس کی جاذبیّت کو دوبالا کیا اور سینکڑوں افراد نے استفادہ کیا۔
محکمۂ اوقات کے غیر شرعی پالیسیوں کے خلاف جب آپ نے صدائے حق بلند کی تو ۱۹۶۸ء میں درسِ قرآن اور ۱۹۶۹ء میں مسجد تاجے شاہ کی خطابت کو اس وقت کے ناظم اعلیٰ اوقاف مسٹر مسعود بھگوان نے بند کرادیا، جس پر عام لوگوں اور طلباء نے احتجاجی جلوس بھی نکالے۔
۱۹۵۵ء میں علامہ کوکب مرحوم نے ایم اے اُردو اور ۱۹۶۶ء میں ایم اے عربی کےامتحانات پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیے۔
۱۹۷۷ء کے تعلیمی سال میں آپ پنجاب یونیورسٹی، اورنٹیئل کالج میں ایم اے عربی کے جزوقتی لیکچرر کی حیثیت سے پڑھاتے رہے۔
علّامہ قاضی عبد النبی کوکب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے گونا گوں صفات کا مجموعہ بنایا تھا ایک قابل مدرّس اور عظیم محقق ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی جرأت مند اور صائب الرائے سیاست دان بھی تھے، چنانچہ آپ سرکاری ملازمت کے باوجود ملکی سیاست میں حصّہ لے کر نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ دسلّم کے نفاذ کی جدّو جہد کرتے رہے۔
۱۹۵۵ء سے اکتوبر ۱۹۵۸ء تک آپ جمعیّت علمأ پالستان کے صدر علامہ ابوالحسنات قادری کے ساتھ وابستہ رہے۔ جمعیّت کے مختلف اجلاسوں میں شریک ہوئے اور جمعیّت کے ترجمان ہفت روزہ ’’جمعیّت‘‘ میں نائب مدیر کی حیثیّت سے رضا کارانہ قلمی تعاون بھی کرتے رہے۔
ایّوب خان کے دور میں جب ہر طرح کی سیاسی سرگرمیاں بند تھیں اور مکمل سکوت تھا، تو علّامہ کوکب نے ۱۹۶۰ء میں ’’مجلسِ صداقتِ اسلام‘‘ کے زیرِ اہتمام ملّی اور مذہبی سرگرمیوں کا نئے انداز سے آغاز کیا، چنانچہ مختلف مقامات پر متعدّد عنوانات سے جلسے منعقد کیے۔
جب جمعیت علمأ پاکستان کو بعض افراد نے محض ذاتی جاہ مفادات کی خاطر استعمال کرنا شروع کیا تو علّامہ کوکب مرحوم نے چند اکابر کے ساتھ مل کر جمعیت کی تطہیر کے لیے کام کیا۔ بالآخر ستمبر ۱۹۶۸ء کو جومعہ نعیمیہ لاہور میں ایک عظیم کنونشن ہوا جس میں علّامہ عبد الغفور ہزاروی رحمہ اللہ کو جمعیت علماء پاکستان کے مغربی صوبہ کا صدر مقرر کیا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں سے قبل ۲۸؍ ستمبر ۱۹۶۸ء کی رات کو باغ بیرون موچی دروازہ لاہور ہی میں جمعیّت علماء پاکستان نے ایک جلسہ عام کر کے سب سے پہلے انقلابی کردار کا آغاز کیا۔ ۹؍ مارچ کو لاہور ہی میں جب سوشلزم کی حامی جماعتوں کے ایک جلسہ کے بعد نیلا گنبد میں میں ایک دفتر کو آگ لگا کر قرآن پاک اور اس کی تفسیر جلانے کی مذموم کوشش کی، تو ایک احتجاجی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کنوینر علامہ قاضی محروم کو چناگیا۔ آپ کو اور آپ کے خاندان کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں، لیکن آپ نے کلمۂ حق کی بلندی کا فریضہ جاری رکھا۔
۲؍ جون ۱۹۶۸ء کو آپ نے برکت علی اسلامیہ ہال لاہور میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمہ اللہ کا عرس مبارک منعقد کرکے ایسی تحریک کا آغاز کیا، جس سے اہل سنّت کے حلقوں میں بیداری اور اعتماد کی نئی لہر پیدا ہوگئی اور اس کے بعد امام اہل سنّت کی عظیم شخصیّت کا تعارف بڑھنے لگا۔
مئی ۱۹۷۰ء میں آپ نے لاہور میں آل پاکستان سیرت کانفرنس کا اہتمام کیا جس کے دو عظیم الشان اجلاس باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں منعقد ہوئے۔ علامہ کوکب رحمہ اللہ کی ان گنت خوبیوں اور دینی و ملّی خدمات کا احاطہ کرنا اس مختصر مقالہ میں ناممکن ہے دیگر صفات کے علاوہ آپ بلند پایہ مصنّف تھے چنانچہ آپ کی قلمی خدمات کا خاکہ یوں ہے:
الخزائن، جلد اوّل: تقریباً ۸۰ نادر عربی مخطوطات پر تحقیقی کام
(مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی۔ لاہور)
ایک درجن مقالاتِ تحقیقی: برائے اردو انسائیکوپیڈیا آف اسلام۔ پنجاب یونیورسٹی
آٹھویں جماعت کی عربی ریڈر: ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ۔ دو دیگر ارکان کے ساتھ کتاب تیار کی گئی۔
تحقیق قربانی: مسئلہ قربانی کے دینی، ملّی اور معاشرتی پہلوؤں پر ایک علمی کتاب
یادِ شہید: حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی اور مشن پر ایک فکر انگیز کتاب
شاہِ جیلاں: حضرت سیّدنا غوثِ اعظم کی حیاتِ مبارکہ پر ایک جامع کتاب (دوسرا ایڈیشن)
زندگی کی راہیں قرآن میں: قرآن پاک سے منتخب آیات اسباق کی شکل میں
سیرتِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم):
سیرتِ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
سیرتِ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
سیرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
سیرتِ علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
(ہر کتاب کم و بیش ۸۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ انٹر میڈیٹ تک طلباء کی سطح کو پیشِ نظر رکھ کر عام مطالعہ کے لیے یہ سیٹ تیار کیا گیا تھا اس سیٹ کے دو تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔)
حیاتِ سالک: حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد یار خاں نعیمی مرحوم کی زندگی اور خدمات پر ایک کتاب
مقالاتِ یومِ رضا: حصّہ اوّل:
مقالاتِ یومِ رضا: حصّہ دوم:
مقالاتِ یومِ رضا: حصّہ سوم:
(اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی کی زندگی، ان کی دینی اور علمی خدمات کے تعارف پر مختلف مقالات اور مضامین لکھواکر مرتب کیے)
قربانی کیا ہے؟: قربانی کی مسئلے پر ایک مختصر کتاب
اردو میں نماز پڑھنے کا مسئلہ: ایک نئے فتنے کے رَد میں کتابچہ
روزے کا مقصد: (کتابچہ) اسلام میں عورت کا مقام: (کتابچہ)
کونسا دین عالمگیر ہے اسلام یا عیسائیت؟ (کتابچہ)
ائمہ و خطباء کی تربیت کا مسئلہ (کتابچہ)
ملکی اخبارات اور جرائد میں سوسے سے زائد علمی اور تحقیقی مضامین شائع ہوئے:
الخزائن، جلد دوم: نادر عربی مخطوطات پر تحقیقی کام (مسوّدہ)
اسلامی فقہ کے مبادیات: (مسودہ)
متعدد مسوّدات نا مکمل حالت میں
۱۹؍ جنوری ۱۹۷۸ء بمطابق ۱۹؍ صفر المظفر ۱۳۹۸ھ کو آپ پنجاب یونیورسٹی سے گھر تشریف لے جارہے تھے کہ لوئر مال پر حادثے کا شکار ہوئے، ہسپتال پہنچائے گئے، لیکن جانبر نہ ہوسکے اور اس طرح تقریباً بیالیس سال کی عمر میں آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور علمی میدان میں نہ پُر ہونے والا خلا پیدا ہوگیا۔[۱]
[۱۔ مکتوب جناب قاضی عبد المصطفےٰ کامل، بنامِ مرتب]
(تعارف علماءِ اہلسنت)