مولانا شاہ محمد عبدالرحمن صدیقی(جد امجد مولانا عبدالسلام جبل پوری)
نام ونسب:اسمِ گرامی:حضرت مولانا شاہ محمد عبدالرحمن۔آپ حضرت مولانا شاہ محمدعبدالکریم نقشبندی قادریکےوالدگرامی اور خلیفۂ اعلیٰ حضرت حضرت مولانا شاہ محمد عبدالسلام جبل پوریکےجدامجد ہیں۔آپ کاسلسلۂ نسب اس طرح ہے: مولانا شاہ محمد عبدالرحمن بن مولانا شاہ محمد عبدالرحیم بن مولانا شاہ محمد عبد اللہ بن مولانا شاہ محمد فتح بن مولانا شاہ محمد ناصر بن مولانا شاہ محمد عبدالوہاب صدیقی طائفی۔ آپ کا خاندانی تعلق حضرت سیدنا صدیق اکبر سےہے۔آپ کے جدِّ اعلیٰ حضرت شاہ عبدالوہاب صدیقیسلطنتِ آصفیہ کے دورِ حکومت میں نواب صلابت جنگ بہادر کے ساتھ طائف سے ہندوستان تشریف لائے،اور حیدر آباد دکن میں سکونت اختیار کی۔یہاں حکومتِ آصفیہ کی جانب سے مکہ مسجد کی امامت اور محکمۂ مذہبی امور کے جلیل القدر عہدے پرمامور ہوئے۔آپ کے خاندان میں مسلسل پانچ پشتوں میں پانچویں آصف جاہ کے زمانے تک برابر اس مذہبی منصب پر فائزرہے۔(برہانِ ملت کی حیات وخدمات:18)
سیرت وخصائص: حضرت مولانا شاہ محمد عبدالرحمناپنے وقت کےجید عالم دین اور عارف باللہ تھے۔سلطنتِ آصفیہ میں اس خاندان کےآخری مذہبی امور کےوزیر حضرت مولانا شاہ محمد عبدالرحمن کےوالد گرامی مولانا شاہ محمد عبدالرحیم تھے۔آپ پر یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔1264ھ مطابق 1848ء میں حکومتِ آصفیہ کے خاندان میں کچھ برسراقتدار افرادمیں شیعہ(رافضی)مذہب وعقیدےکےدخل کےسبب پہلی بار حکومتِ آصفیہ میں اعلانیہ تبراء (صحابہ کرام اور بالخصوص خلفاءِ ثلاثہ،اور امہات المؤمنین پر سب شتم بکنےکوتبرّاءکہتےہیں)ہوا۔جس سے ایک عظیم فتنہ پیدا ہوا۔اس فتنے کےخلاف اور سدباب کےلئےعلمِ جہاد بلند کیاگیا۔مذہبی امور کےقاضیِ شرع،مفتی شہراور تمام علماء اہل سنت اور جملہ آئمۂ مساجد نےمکہ مسجدمیں جمع تبراءبندکیےجانےکامطالبہ کیا۔لیکن حکومت کی حکمتِ عملی کےسبب اسی وقت عام بلواہوگیا۔مگر علماءِ اہل سنت اپنےمطالبےپرقائم رہے۔
بالآخر علماء اہل سنت کےسامنےحکومت گھٹنےٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔اعلانیہ تبراء کاسدباب ہوا۔ لیکن علماء اہل سنت کا یہ اتحاد اور عوام پر ان کااعتماد اربابِ حکومت کوناگوار گزارا، اور وہ علماء اہل سنت کےدر پئے آزار ہوگئے۔ علماء کےاثر و اقتدار اور قوم کےجاں نثارانہ اعتمادکی بناء پروہ فوری طور پرعلماء اہل سنت کاتو کچھ نہ بگاڑ سکے،مگر اندر ہی اندر سازشوں میں مصروف ہوگئے۔مختلف طریقوں سےان کااستحصال جاری رہا،اور حکمتِ عملی کےساتھ دھیرے دھیرےعلماء حق کی جگہ ابن الوقت اور علماءِ سوء نےموقع سےفائدہ اٹھاکر رواج پانا شروع کردیا۔جوحکومت کےاشاروں پران کےمقاصدکوپوراکرنے لگے۔اس زمانے میں حضرت مولانا شاہ محمد عبدالرحمنکےوالد گرامی مولانا شاہ محمدعبدالرحیم مکہ مسجد کی امامت پر مامورتھے۔مذہبی وزارت کا منصب بھی آپ کےسپردتھا۔آپ اربابِ حکومت کےطرزِ فکر،اور ان کی سازشوں اور علماءِ سوء کےباطل حیلوں سے بخوبی واقف ہوگئے تھے۔انہوں نےاپنی عمر شریف کےآخری ایام میں اپنے بیٹے مولانا شاہ محمد عبدالرحمن اور پوتےمولانا شاہ محمد عبدالکریم(والد حضرت عیدالاسلام)کو نصیحت و وصیت فرمائی کہ:
’’اب اپنے خاندان ِ صدیقی کےکسی بھی فرد کوحکومتِ حیدر آباد دکن کی طرف سےکوئی بھی دینی مذہبی دنیاوی عہدہ پیش ہو۔ اسےہرگز قبول نہ کیاجائے،کیونکہ حاکم ِوقت کےخاندان اور اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھےافراد کےعقیدے متزلزل اور خراب ہوتےجارہےہیں،اور اب تو صورت حال یہ ہے کہ اصلاح کی بھی کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی ہے۔لہذا ضروری ہےکہ دنیاوی جاہ وحشمت کو چھوڑ کراپنے دین و مذہب اور عقیدے کی حفاظت کی خاطر اس حکومت کےاثر اور حاکم ِ وقت سے دور ی ہی پر عمل پیرا رہنا ہر حال میں بہتر ہوگا۔او رذریعۂ معاش کی کوئی دوسری راہ متعین کرلینے میں بھلائی ہوگی‘‘۔(برہانِ ملت کی حیات وخدمات: 19)
حضرت مولانا شاہ محمد عبدالرحمننےاپنے والد ِ گرامی کی وصیت کےمطابق ،اور دینِ متین کی خاطر دنیاوی مناصب کوٹھوکرماردی۔اپنےمذہبی منصب اور خاندانی وجاہت،اور عزتِ علم میں کمی نہ آنے دی۔شروع ہی سےعلماءِ حق کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ حق کی خاطر منصب توکیا اور اپنی جانیں بھی قربان کردیتے ہیں۔یہ علماءِ اہل سنت کی سنہری تاریخ ہے۔ہرزمانےمیں انہوں نےرسول اللہﷺکے دین سےوفا کی ہے۔منصب وحکومت اور دولت کےپیچھے اپنے ضمیر کاکبھی سودا نہ کیا۔ہمارے زمانے کےبدمذہب علماءِ سوء نےڈالر،ریال اور ڈیزل و پٹرول،اور منصب و حکومت،پلاٹ ودولت کی قیمت پر جبہ و دستار کی عزت گروی رکھی ہوئی ہے۔اس سےپہلے کی بھی ایک تاریخ ہے کہ چند سکوں کی خاطر انہوں نےملت ِ اسلامیہ سے غداری کرکے’’ہند و مسلم اتحاد‘‘کا نعرہ لگایا ہے۔اس وقت علماء اہل سنت بےسروسامانی کےعالم میں تحفظ ناموس رسالتﷺ،اور عقیدۂ ختمِ نبوت،تحفظِ شعائرِ اسلام کےلئےکوشاں ہیں۔تحریکِ نظامِ مصطفیٰﷺ،تحریک ختمِ نبوت،اور فیض آباد اسلام آباد کے مقام پر 2017ء کی شہادتیں اس کا بین ثبوت ہیں۔
حیدر آباد دکن سے جبل پور آمد: مولانا شاہ محمد عبدالرحیم کےسانحۂ ارتحال کےبعد مولانا شاہ محمد عبدالرحمن اپنے فرزند مولانا شاہ محمد عبدالکریم کےہمراہ اپنے والد کی وصیت پر عمل کرتےہوئے حیدر آباد دکن سے ترکِ سکونت اختیار کرکےسکندرآباد میں رہائش ہذیر ہوگئے۔ سکندر آباد اس وقت فوج کا ہیڈ کوارٹر تھا۔یہاں پر مولانا شاہ عبدالکریم نےمذہبی مدرس ،چیف سیکرٹری، اور کوتوال(موجودہ انسپکٹر پولیس کاعہدہ) کےعہدے پرمدراسی فوج میں ملازمت اختیار کرلی۔وہاں سے کچھ ہی مدت بعد مدراسی فوج ناگ پور آگئی۔ پھر جلد ہی یہ فوج ناگپور سے1278ھ مطابق 1861ء میں جبل پور فوجی چھاؤنی میں منتقل ہوگئی۔جبل پور آنےکےبعد مولانا شاہ عبدالرحمن نے داعی اجل کو لبیک کہا۔انہیں صدر بازار میں ملٹری سپلائی ڈپو،جسے کمسٹریٹ بھی کہا جاتاہے۔اسی مقام پر آپ کا مزار ِ اقد آج بھی مرجعِ خلائق ہے۔آپ کاوصال تقریباً 1280ھ/1863ء میں ہوا ہوگا۔آپ کےفرزند ارجمند مولانا شاہ محمد عبدالکریم اپنے وقت کےعارف باللہ ،جید عالم دین اور کہنہ مشق مفتی تھے۔اسی طرح آپ کےپوتے مولانا عبدالسلام جبل پوری ممتاز عالم دین اور اپنے وقت کےقطب اور تحریکِ پاکستان کےقائدین میں سےتھے۔اسی مولانا برہان الحق جبل پوری تو اپنی مثال آپ تھے۔اللہ ﷻ تمام کےدرجات کو بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔