مولوی حکیم محمد قطب الدین جھنگوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مناظر جلیل،طبیب حاذق حضر ت علامہ مولانا حکیم محمد قطب الدین ابن مولوی احمد بخش موضع پر کوٹ سدانہ (ضلع جھنگ) میں پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی بعد ازاں صرف ونحو کے امام مولانا حافظ جمالاللہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں گھوٹہ(ضلع ملتان) میں حاضر ہوئے اور صرف سے لے کر عبد الغفور (حاشیۂ شرحی جامی) اور متن متین تک کتابیں پڑھیں، حضرت حافظ صاحب کے وصال کے بعد دہلی چلے گئے اور طبیہ کاج دہلی میں داخل ہوئے۔یکم رمضان المبارک، ۱۳جولائی(۱۳۳۳ھ؍۱۹۱۵ئ) کو فاضل طب و جراحت کی سند اور تمغہ حاصل کر کے واپس پنجاب تشریف لائے۔
آپ کو طالب علمی کے دور ہی سے تقریر و مناظرہ سے دلچسپی تھی۔ قیام دہلی کے دوران مسلمانان دہلی نے فوارہ کے مقام پر مخافلین اسلام کے اعتراضات کے جوا دینے کے لئے آپ ہی کو منتخب کیا ہوا تھا۔ آپ نے دہلی،آگرہ وغیر وہ مقامات میں دیسائی اور آریہ مبلغین سے مناظرے کئے اور انہیں شکست فاش دی،بڑے بڑے مناظرہ ہوا،شرائط مناظرہ میں ایک بات یہ طے ہوئی کہ کوئی ایسا مسئلہ پیش نہ کیا جائے جو فریقین مین مشترک ہو۔آریہ نے اسلام پر اعتراض کیا کہ اس مذہب میں انصاف نہیں ہے ،مثلاً جب کسی مسلمان کی ہو خارج ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا اور پھر لطف یہ کہ جہاں سے ہوا خارج ہوئی اس جگہ کو دھونے کی بجائے دوسرے اعضاء کو دھونا شروع کردیا جاتا ہے ، مولا نا نے فرمایا: تم شرائط مناظرہ کی خلاف ورزی کر رہے ہو کیونکہ یہ مسئلہ فریقین میں مشترک ہے،دیکھو جب تمہارا کوئی آدمی مر جاتا ہے تو اس کے چند کاص رشتہ دار چاہے اس سے ہزاروں میل کے فاصلے پر یوں خبر ملتے ہی غسل کرتے ہیں،کپڑے دھوتے ہیں،برتنوں اور چوکے کی صٖفائی کرتے ہیں، مرنے والا ہزاروں میل دور ہے اور اس کی پلیدی یہاں اثر کر رہی ہے، وضو کے اعضاء تو پھر قریب ہیں۔
آزیہ مناظر نے دوسرا اعتراض کیا: تم چند کلمات پڑھ کر جانور کو چھری، چاقو سے ذبح کرتے ہو،میں پوچھتا ہوںوہ جانور پہلے حلال تھا یا ان کلمات کے پڑھنے سے حلال ہوا؟ اگر پہلے ہی حلال تھا تو کلمات پڑھنے کی کیا ضرورت؟ اور اگر ان کلمات کے پڑھنے سے حلال ہوا ہے تو چاہئے کہ بلی کتے پر بھی یہی کلمات پڑھ کر ذبح کر کے کھا جائو ،مولانا نے فرمایا: پنڈت صاحب ذرا ہوش سے بات کرو،تم پرشرائط کی خلاف ورزی کر رہے ہو،کیونکہ یہ مسئلہ بھی فریقین میں مشترک ہے۔دیکھئے جب آپ کا برہمن’’بھوج‘‘ پڑھتا ہے اور دولہا کودلہن کے گرد چند چکر دلاتا ہے۔ اب بتائیے کہ بھوج پڑھنے اور چکر دلانے سے دلہن،دولہا پر حلال ہوئی ہے یا پہلے ہی حلال تھی؟ اگر پہلے ہی حلال تھی تو بھوج پڑھنے کی کیا ضرورت؟ اور اگر ان سے حلال ہوئی ہے تو چاہئے کہ بھوج پرھ کر اور چکر کاٹ کر ماں مہن کو بھی حلال کر کے نکاح میں لے آئو! غرض مولانا کی سخت گرفت پر آریہ مناظر کو راہ فرار کے علاوہ اور کوئی چارئہ کارنظرنہ آیا۔
مسئلۂ تقلید شخصی پر موضع بدوآنہ تحصیل شور کوٹ ضلع جنگ میں مولوی ثناء اللہ امر تسری سے مناظرہ کیا اور فتح مبین حاصل کی ،اس مناظرہ میں احناف کی طرف سے مولانا محمد قطب الدین کے علاوہ مولانا غلما حسین تلیری ، مولانا غلام محمد گھوٹوی اور مولانا نظام الدین ملتانی شریک تے،اور غیرمقلدین کی طرف سے مولوی ثناء اللہ، مولوی عبد الحمید بدو آنوی، مولوی عبد الوہاب دہلوی اور مولوی محمد یارحویلی بہادر شاہ موجود تے۔ ۲۵ستمبر ۱۹۲۵ء کو روڈ چدھڑ (ضلع لائل پور ) میں مولوی فیض محمد لکھیانوی (مخالف صحابہ) سے مناظرہ کیا اور تاریخ اہم مسائل پر گفتگو کر کے زبردست فتح حاصل کی، مولانا نے اپنی تمام زندگی م ذہب اسلام اور مسلک اہل سنت و جماعت کے تحفظ اور اشاعت میں بسر کی۔
مولانا منفرد انشا پر داز صاحب قلم تھے،آپ کے مضامین عرصہ تک مجلّہ طبّیہ دہلی، المنیر دہلی،الفقیہ امر تسر، شمس الاسلام بھیرہ، لمعات الصوفیہ اور انوار الصوفیہ سیالکوٹ وغیرہ جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ آپ کی تصانیف میں سے دور سالے ’’فیصلہ شرعیہ‘‘(رد روافض) اور خونی داستان چھپ چکے ہیں۔
حضرت مولانا،تحصیل علم کے بعد امیر ملت پیر سید مجاعت علی شاہ قدس سرہ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے،حضرت امیرملت کی معیت میں دو دفعہ حج و زیارت کی سعادت سے مشرف ہوئے۔آپ ہی کی استدعا پر حضرت امیر ملت کی تشریف آوری جھنگ میں ہوئی،جابجا تبلیغی جلسے ہوئے اور کثیر التعداد بندگان خدا شرف بیعت سے بہرہ ور ہوئے۔آپ کو اپنے شیخ سے بہت عقیدت تھی،حضرت امیر ملت بھی آپ پر بڑی شفقت فرماتے تھے،آپ کو خلافت عنایت فرمائی اور ہمیشہ الطاف خسروانہ سے نوازتے رہے۔
حضرت مولانا محمد قطب الدین رحمہ اللہ تعالیٰ فن طب میںکامل دستگاہ رکھتے تھے،قرآن مجید اور علوم دینیہ سے تو انہیں اتنا لگائو تھا کہ اپنے صاحبزادوں اور صاحبزادیوںکو حفظ قرآن کرایا تھا ایک صاحبزادی ک ومشکوٰۃ شریف اور جلالین شریف پڑھا رہے تھے کہ آپ کا وصال ہو گیا۔آپ کے دو صاحبزادے ہیں، ایک حافظ،عالم اور طبیب حکیم محمود الحسن،طب کی خدمت انجام دیتے رہے ہیں اور دوسرے اہل سنت کے مایہ ناز مدرس،مناظرہ اور خطیب مولانا عبد الرشید جھنگوی مدظلہ دینمتین کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہیں۔
مولانا محمد قطب الدینجنگوی قدس سرہ ۲۵ ربیع الثانی ،۲۹ اکتوبر (۱۳۷۹ھ؍ ۱۹۵۹ء ) بروز جمعرات تین بجے دن واصل بحق ہوئے[1]
آپ کا مرقد انور قطب آباد(چک ۲۳۲ جو تیانوالہ، ڈاک خانہ چک ۲۳۳، ضلع جھنگ) میں ہے۔ آپ کی یاد میں مزار شریف کے پاس ’’جامعہ قطبیہ رضویہ‘‘ قائم کیا گیا ہے، حضرت مولانا حکیم خادم علی قدس سرہ نے تاریخ وفات کہی ،چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
عالم و فاضل ، فقیہ ما مدار
بودر دنیا ، ز دنیا بر کنار
ماہر اسرار تفسیر و حدیث
مخزن انوار و شیخ روزگار
در شریعت بد مثال کو ہسار
در طریقت بحر نا پیدا کنار
حامل تاثیر ہا تقریر او
بود تحریرش چو در شا ہوار
فیض یاب از آفتابمعرفت
حضرت شاہ جماعت با وقار
از نگاہش قطبدیں ابدال شد
کر دس میں سینہ اش راز ر نگار
آہ! آں فرخ سیر شیریں مقال
شد درون خک مر قد پردہ دار
ہست در الفاظ سال رحلتش
سہ صدر و ہفتا د ونہ بایک ہزار
از ربیع الآخر آمد بست و پنج
چوں برفت اوجانت دار القرار
وقت ظہرش بود وقت انتقال
روز پنج شنبہ بیامد در شمار[2]
[1] فضل حسین فضل ،حکیم:ہفت روزہ محبو ب حق،لائل پور ، ۲۰ ستمبر ۱۹۶۳ء ، ص ۶۔۷
[2] ہفت روزہ (اب ماہنامہ ہے) رضائے مصطفی گوجرانولہ، یہ شمارہ اس وقت پیش نظر نہیںہے۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)