مفتی مرکزی دارلافتاء ۸۲۔ سود اگران بریلی شریف
ولادت
فقیہہ اہلسنت مولانا مفتی قاضی عبدالرحیم رضوی بن قاضی زکی الرحمٰن بن احمد اللہ عرف بیر علی بن محمد بخش موضع جسجوا قاضی (جگجوا) تحصیل ڈمر یا گنج برگنہ رسولپور ضلع بستی میں یکم جولائی ۱۹۳۶ء کو پیدا ہوئے۔ والدین کی شفقتوں کے ساتھ پرورش ہوئی۔ قاضی صاحب کے خاندانی شجرہ سے معلوم ہوتا ہے آپ حضرت خلیفۂ اول امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسل سے ہیں۔
خاندانی حالات
مفتئ عبدارلرحیم رضوی بستوی کےمورث اعلیٰ آشوب زمانہ سے مجبور ہوکر مدینہ منورہ سے بغداد شریف اور پھر وہاں سے لاہور پھر دہلی ہوتے ہوئے بارہ بٹکی ضلع میں آباد ہوئے۔ وہاں سے کچھ لوگ معظم آباد (گورکھپور) میں قیام پذیر ہوئے۔ خاندانی شرافت و جاہت کی بناء پر خاندان کے کسی بزرگ کو قضاۃ کا عہدہ ملا۔ اور قاضی عبدالرحیم کی موجودہ سکونت جہاں ہے وہاں بارہ ۱۲ گاؤں کی معافی ملی تھی۔ پورا خاندان مختلف مواضعات میں پھیلا ہواہے۔ ۱۹۴۷ء تک زمینداری تھی۔ اب مختصر کاشتکاری باقی ہے اور اس سے ضروریات خور دونوش پوری ہوجاتی ہے۔
مفتی قاضی عبدالرحیم کا خاندان ہر دور میں علمی رہا۔ پردادا محمد بخش مرحوم عربی، فارسی سے بکوبی آشنا تھے اور قران مجید لکھتے تھے۔ دادا احمد اللہ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کے ماہر تھے اور غالباً انٹر پاس تھے۔ اور سنئر انجینر رہے۔ پھر یونانی دوا خانہ قائم کیا اور اسے آخر وقت تک چلاتے رہے۔ دینی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ تقویۃ الایمان مطبوعہ ۱۲۷۸ھ کا نسخہ دیکھ کر اس پر نوٹ لگادیا تھا کہ:
‘‘اس کتاب کا کوئی شخص بھولے سے مطالعہ نہ کرے، ورنہ اس کے ایمان میں خلل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔’’
مفتئ قاضی عبدالرحیم کے چچرے بھائی مولانا حکیم قاضی محمد علی نقی زیور علی سے آراستہ اور اپنے دور کے صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے اور ایک ح اذق طبیب بھی جن کے فیوض وبرکات سے بستی، گونھڈ، بہرائچ، گور کھپور، بلیا، سلطانپور، لکھنؤ، کانپور اور فیض آباد وغیرہ کے کثیر تعداد میں لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ ان کی شہرت سے ہندوستان کے بہت سے شہروں کےلوگ آتے تھے اور فیوض وبرکات حاصل کرتے تھے۔
مولانا حکیم محمد علی نقی علیہ الرحمہ کا انتقل ۱۹۴۷ء میں ہوا۔ ہر سال ان کا عرس مقدس ہوتا ہے جس کا انصرام واہتمام قاضی عبدالرحیم کے ذمہ ہے۔
مفتی قاضی عبدالرحیم کے والد قاضی زکی الرحمٰن اٹھارہ پارے حفظ کر چکے تھے۔ اس کے بعد علالت اور خوابی صحت کی بناء پر مکمل نہ کر سکے۔ اور دو ۲ربیع الاول ۱۴۰۳ھ کو وصال ہوگیا۔
تعلیم وتربیت
حضرت مفتی قاضی عبدالرحیم نے ۱۹۵۰ء میں اردو مڈل پاس کیا اس کے بعد ۱۷؍اگست ۱۹۵۰ء کو ضلع گونڈہ کی ایک درسگاہ دارالعلوم فضل رحمانیہ پچیڑ وابازار میں داخلہ لیا۔ اور انتہائی لگن کے ساتھ رہنے کے بعد ۱۹۵۶ء میں ضلع میرٹھ کی درسگاہ اسلامی عربی اندر کوٹ میں حاضر ہوکر امام النحو مولانا سید غلام جیلانی میرٹھی کے سامنے زانوئے ادب ملے کیا۔ مولانا سید غلام جیلانی میرٹھی کی خدمت میں رہ کر ۱۹۶۱ء تک باقاعدہ باضابطہ پڑھا۔
امتحانات
مفتی قاضی عبدالرحیم نے ۱۹۵۳ء میں منشی، ۱۹۵۵ء میں مولوی، ۱۹۵۷ء میں کامل، ۱۹۵۹ء میں عالم ۱۹۶۱ء میں فاضل کے امتحانات دیئے اور اسی سال درسِ نظامیہ کی تکمیل کی۔
اساتذۂ کرام
۱۔ حضور مفتئ اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ
۲۔ امام النحو مولانا سید غلام جیلانی میرٹھی شارح بخاری
۳۔ حضرت مولانا سید محمد جلیل باپڑی
۴۔ حضرت مولانا محمد اختر رضوی
۵۔ حضرت مولانا مفتی شریف الحق رضوی امجدی [1]
۶۔ حضرت مولانا قاری رضاء المصطفیٰ امجدی خطیب میمن مسجد آرام باغ کراچی
فتویٰ نویسی کا آغاز
حضرت مفتی قاضی عبدالرحیم یکم اگست ۱۹۶۱ء؍۱۳۸۱ھ میں بریلی شریف آئے۔ ابتداً دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں درس وتدریس کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپ کی صلاحیت اور طبعی میدان کے پیش نظر و ذمہ داروں نے رضوی دارلافتاء بریلی کی ذمہ دری سونپ دی۔ جس کا ذکر کرتےہوئے خود تحریر فرماتے ہیں۔
۱۳۸۱ء میں بریلی شریف رضوی دارالافتاء میں فیوض وبرکات حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ میں خوشخط تھا۔ اس لیے حضور (مفتی اعظم) قبلہ نور اللہ مضجعہ کی خاص عنایت نصیب ہوئی اور ایک شب حضور نے اپنی خوشخطی کی زیارت کرائی۔ اور خوش خطی سے اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا [2]۔
مفتی قاضی عبدالرحیم کی طبیعت سنجیدگی و متانت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ علوم متداولہ کے بہت سے اقسام میں آپ کو مہارت ہے۔ لیکن فتویٰ نویسی آپ کا واحد میدان ہے۔ اسی وجہ سے قاضی عبدالرحیم کو ملک کے مختلف گوشوں میں ایک ذمہ دار مفتی کی حیثیت سے خاص شہرت حاصل ہے۔ کچھ دنوں کےلیے جامعہ نوریہ رضویہ بریلی میں بھی درس وتدریس کی خدمت انجام دی۔ تادم تحریر جانشین مفتی اعظم علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ کی زیر نگرانی مرکزی دارالافتاء بریلی میں مفتی کی حیثیت سے خدمت خلق میں مصروف ہیں۔
مفتی قاضی عبدالرحیم نے فتویٰ نویسی حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ سے سیکھی اور اصلاح بھی ں ہیں سے لی۔
بیعت وخلافت
حضرت مفتی قاضی عبدالرحیم نے ۱۶؍ربیع الاول ۱۳۸۳ھ کو حضور مفتی اعظم کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ ۲۲؍رجب المرجب ۱۳۸۶ھ کو مفتی اعظم الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی نے خلافت واجازت اور جملہ مشاغل اور ادو وظائف، احادیث کتب، فقہ اور افتاء کی اجاز ت مرحمت فرمائی۔ قاضی عبدالرحیم رجوی کو حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ، کے علاوہ اپنے خاندانی سلسلہ نقشبندیہ فضل رحمانیہ میں بھی اجازت حاصل ہے۔
عقد مسنون
مفتی قاضی عبدالرحیم کا عقد مسنون ۳؍زی الحجہ ۱۳۸۲ھ میں ہوا بفضلہٖ تعالیٰ اس وقت پانچ صاحبزادے دو صاحبزادیاں باحیات ہیں۔
۱۔ محمد ریاض الرحمان
۲۔ محمد رضاء الرحمان
۳۔ محمد غلام مرتضیٰ
۴۔ محمد غلام مجتبیٰ
۵۔ محمد محبوب الرحمٰن امجد
۶۔ ہاجرہ بی
۷۔ ثمینہ پروین [3]۔
[1] ۔مفتی شریف الحق رضوی امجدی سے کافیہ، اصول الشاشی، شرح وقایہ اور شرح جامی پڑھی مولانا محمد اختر رجوی سے مسلم شریف پڑھی۔ ۱۲،رضوی غفرلہٗ
[2] ۔ماہنامہ استقامت کانپور مفتی اعظم نمبر ص ۱۶۶، رجب المرجب ۱۴۰۳ھ؍مئی ۱۹۸۳ء
[3] ۔حوالہ کے علاوہ راقم نے براہِ راست حضرت مولانا مفتی قاضی عبدالرحیم رضوی بستوی سے جملہ کوائف حاصل کیے۔ بمورخہ رجب ۱۴۱۰ھ، ۱۲رضوی غفرلہٗ