حضرت علامہ مفتی محمود جان قادری جودھپوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:مفتی محمودجان۔لقب:قادری،رضوی۔علاقہ،جام جودھپورکی نسبت سے"جام جودھپوری" کہلاتے ہیں۔سلسلہ نسب: مفتی محمودجان بن مولانا حافظ غلام رسول بن محمد صدیق بن عمر بن رمضان بن صبوربن حاجی محمد اکبر بن مولانا حمیدالدین بن مولانا شہباز بن خوش حال بن گوہر بن رحمت اللہ بن خواجہ عبیداللہ۔(علیہم الرحمہ)۔آپ کےوالدِگرامی حضرت علامہ مولانا حافظ غلام رسول رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں طالب علم دوردراز کاسفر کرکےعلمی پیاس بجھانےکےلئےحاضرہوتےتھے۔ان کا سب سےبڑاکارنامہ یہ ہےکہ انہوں نےاس وقت"افغانستان"میں "فتنۂ وہابیہ اسماعیلیہ"کاخاتمہ کیا تھا۔جب لوگ ان کےعقائد پرمطلع ہوئے،تو وہ وہابیوں کےخلاف ہوگئے ۔بہت سے وہابی جہنم رسید ہوئے اور جو بچ گئے وہ افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت کاسن 1835ء بتایا جاتا ہے۔آپ کاتعلق"مردان"کےافغانی قبیلے"میرملک زئی"سےہے۔
تحصیلِ علم: آپ نے بنیادی تعلیم اپنے والد ماجد کی زیر سر پرستی میں حاصل کی۔پھر "دارالعلوم امینیہ دہلی" میں تکمیل ہوئی۔اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعدآپ نے" کاٹھیاواڑ"جام جودہ پور(ضلع گجرات)کی طرف ہجرت فرمائی۔آپ ابتداء سے ہی اپنی مناظرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور تھے،اور کئی عیسائی رہنماؤں کو مناظرہ میں شکست فاش دے چکے تھے۔پھر اعلیٰ حضرت امام ِ اہلسنت کی خدمت میں پہنچ کر مزید اپنی علمی وروحانی پیاس بجھاکر کامل ہوئے۔
بیعت وخلافت: حضرت مفتی محمود جان رحمۃ اللہ علیہ خود اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں:"طویل عرصہ سے میرے دل میں یہ خیال تھا کہ جب تک میں ایک کامل اور بلندپایہ پیر کو نہ پالو میں مرید نہیں بنوں گا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نے حضرت مولانا محمود و ضیاء الدین صاحب پیلی بھیتی(رحمۃ اللہ)کا مرتب دیا ہو اور اسلامی رسالہ پڑھنا شروع کیا تھا جو کہ علم و دانش کےجواہر سے پر تھا۔ اسی میں میں نے سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے بارے میں پڑھا۔ فوری طور پر میرے دل نے کہا کہ اس دور میں اتنی عظیم ہستی کا پانا کوئی عام بات نہیں۔خدائی رہنمائی کے ذریعہ میں نےبریلی شریف کا سفر اختیار کیا۔جہاں میں نے اپنے آپ کو اعلیٰ حضرت کی رحمت بھری عدالت میں پیش کیا، جس وقت میں نے ان کے نورانی چہرے کو دیکھا، میرا دل پگھل گیا، میرا ایمان تازہ ہوگیا اور میرا دل کھل اُٹھا کہ ایسا اس سے پہلے کبھی نہ ہواتھا۔میں ایک ایسا عظیم پیر پاچکا تھا کہ جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا،میں نے داخل سلسلہ ہونے کی درخواست کی اور میرے مرشد نے مجھے اپنے مریدکی حیثیت سے قبول کیا، فوری طور پر مجھے اجازت و خلافت سے نوازا، پھر اپنے گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ اس وقت انہوں نے جو لباس زیب تن کیا ہوا تھاوہ مجھے عطا کیا۔اس میں کرتا، پاجامہ، عمامہ،اور صدری(واسکوٹ)تھی۔بحر سخاوت کی طرف سے یہ بڑی عطا تھی انہوں نے اپنے اس عاجز خادم کو سلسلہ عالیہ قادریہ ، برکاتیہ، رضویہ ، چشتیہ سہروردیہ ،نقشبندیہ اور دیگر سلاسل میں تاج خلافت سے نوازا۔انہوں نے میرے لیے انتہائی محبت اور عزت کا اظہار فرمایا، اور اس دوران انہوں نے مجھے کئی القابات سے نوازا، اور مجھ سے اتنی محبت کا اظہار فرمایا کہ میں زندگی بھر اس کو نہیں بھلا سکتا "۔
سیرت وخصائص: عالم وعارف،عابدوزاہد،صاحبِ صفاتِ محمودہ،ذی الفضل والجاہ،حامی السنن،ماحی الفتن، خلیفۂ اعلیٰ حضرت،محب ومحبوبِ امامِ اہلسنت،حضرت علامہ مفتی محمود جان قادری رضوی جودھپوری رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ علیہ الرحمہ کا تعلق ایک بہت ہی دیندار علمی گھرانے سے تھا۔امت مسلمہ کی خدمت وراہنمائی ان کے آباؤ اجداد کی خوبیوں میں سے ایک تھی۔ان کے والد گرامی کے بارے میں مختصر پہلے تحریر کرچکے ہیں۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ آپ پرخصوصی شفقت فرماتے تھے۔ مفتی محمود جان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے وصال سے نو یا دس ماہ قبل ، آپ نے مجھے ایک "رحمت بھراخط" لکھا جس میں آپ نے فرمایا:"کہ میں نے اپنی کتاب"الاستمداد"میں اپنے تمام خلفاء کے نام درج کئے ہیں اور تمھارا نامِ نامی غیر ارادی طور پر چھپ نےسے رہ گیا ہے ۔ میری انتہائی مصروفیات اور ذمہ داریوں کی وجہ سے مجھ سے آپ کا نام غیرادی طور پر رہ گیا جو کہ" قصیدہ الاستمداد "کے آخر میں میرے خیر خواہوں اور مددگاروں کی فہرست میں سنہری حروف سے کندہ ہونا چاہئے تھا ۔مجھے اس کا احساس اس وقت ہوا جب وہ چھپ چکی تھی ، اور مجھے ابھی تک اس کا افسوس ہے"۔
حضرت مفتی محمود جان رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیر پر کامل یقین رکھتے تھے، اور اپنے پیر کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ ذاتی طور پر ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے پیر کتنا کامل یقین رکھتے تھے ۔آپ فرماتے ہیں:"میں نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے چالیس روزہ ختم کے دوران اپنے مرشد کے مزار پُر انوار پر حاضری دی اور بارگاہ الٰہی میں اس کے منتخب بندے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے وسیلے سے بیٹے کی درخواست کی۔الحمدللہ! اُسی سال کے دوران اللہ تبارک و تعالیٰ نےمجھے ایک بیٹا عطاء کیا جس کا نام میں نے"احمد رضا" رکھا۔
آپ کی عظیم دینی خدمات ہیں۔جب ماہنامہ "الفقیہ"جاری ہوا،تو "کاٹھیاواڑ" میں اس کی ہر گھر میں ترسیل فرماتے تھے۔اس کے ساتھ آپ اپنی طرف سے اس کی اشاعت میں کثیر رقم خرچ فرماتے تھے۔پورے علاقے میں آپ نے دینِ اسلام کو چار چاند لگادئےتھے۔سب سے پہلے آپ نےہی اعلیٰ علیہ الرحمہ کی منظوم سوانح حیات"ذکرِ رضا"کےنام سےشائع فرمائی تھی۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے مزار کانقشہ بھی آپ کا ڈیزائن کیاہواہے۔
حضرت مولانا محمودجان نے اجازت وخلافت کےباوجود کسی کو داخلِ بیعت نہیں کیااور نہ ہی کسی کوخلافت دی مگران کے عقیدت مندوں کی تعداد پاک وہند بنگلہ دیش افریقہ تک کےممالک میں ہے۔آپ نے جام جودھ پور کی جامع مسجد میں تقریباً 80برس امامت وخطابت اور تبلیغ وتدریس فرمائی۔دینی خدمات بلامعاوضہ سرانجام دیں اور ذریعہ معاش تجارت رکھا۔مہمان نوازی اور اہلِ علم کی خاطر داری میں مشہور تھے۔حق کی راہ میں تمام عمر مردِ میداں رہے۔مولانا مستجاب الدعوات تھے۔مہلک زخم پر لعاب دہن لگادیتے تومریض شفایاب یاب ہوجاتا۔آپ نے اپنے علاقے سے غلط رسومات کاخاتمہ کرکے رسول اللہﷺکی سنتوں کانفاذفرمایا۔
حضرت صدرالافاضل فرماتے ہیں: کہ میں نےخلفائے اعلیٰ حضرت میں مولانا محمود جیسا فنافی الشیخ کسی کو نہیں دیکھا۔
اعلیٰ حضرت کی شان میں فرماتے ہیں:
؏: ہم نے کیا"احمدرضا"دیکھاتجھے۔۔۔سرذاتِ مصطفیٰ دیکھاتجھے
حق تعالیٰ کی قسم اے"احمدرضا"۔۔۔نائبِ خیرالوریٰ دیکھاتجھے
وصال:3/صفرالمظفر1370ھ،مطابق نومبر/1950ءکو115سال کی عمرمیں آپ کاوصال ہوا۔آپ کامزارجام جودھپور(گجرات،انڈیا)میں ہے۔
ماخذومراجع: ماہنامہ جہانِ رضا۔(شمارہ:123،فروری2005ء)۔ذکرِرضا۔تذکرہ خلفاءِ اعلیٰ حضرت(مولانا صادق قصوری)