محمد بن فضل جعفر بن رجا بن زرعہ فضلی کماری بخاری: اپنے زمانہ کے امام کبیر اور شیخ اجل معتمد فی الروایت والد رایت تھے۔ائمہ بلا دنے آپ کی طرف رجوع کیا۔مشاہیر کتب فتاویٰ آپ کی روایات و فتاویٰ سے مملو ہیں۔ابو بکر کنیت تھی،فقہ آپ نے استاذ عبد اللہ سبذ موتی تلمیذ ابو حفص صغیر سے حاصل کی اور آپ سے قاضی ابو علی حسین بن خضر نسفی اور امام حاکم عبد الرحمٰن بن محمد کاتب اور امام زاہد ابو محمد خیز اخزی اور امام اسمٰعیل زاہد نے تفقہ کیا اور آپ نے واسطے املاء حدیث کے مجلس منعقد کی،کہتے ہیں کہ جب آپ فتوےٰدینے کی اجازت دی گئی تو بلخ میں فقیہ ہندوانی نے اس خبر کو سن کر یہ خیال کیا کہ یہ لڑکا جو اس قدر حافظ نہیں رکھتا اس کو فتوےٰ دینے کی اجازت کیونکر دی گئی؟پس وہ اس خبر کی تصدیق کے لیےبذات خود بخارا میں تشریف لائے اور رات کو اپنے مکان میں اترے اور رات بھر آپ کا یہ حال دیکھا کہ آپ مطالعۂ کتب میں مشغول میں اور جب نیند آتی ہے تو وضو کر کے پھر مطالعۂ کتب میں مشغول ہو جاتے ہیں،اسی طرح صبح کردی،ہندوانی نے کہا کہ اس لڑکے کو جو فتوےٰ دینے کی اجازت دی گئی ہے تو یہ فی الواقع اس منصب کا مستحق تھا۔آپ کا قاعدہ تھا کہ جب کوئی مہمان آپ کے پاس آتا تو اپ طباق اتھا کر اس میں سے موسم سرما میں تازے زرد آلو اس کے آگے رکھ دیتے ار کہتے کہ چالیس سال سے میں نے کوئی حرام چیز ہاتھ میں نہیں پکڑی اور نہ حرام کے راستہ گیا ہوں اور نہ حرام چیز کھائی ہے پس جو شخص چاہے کہ ایسی کرامت پائے وہ میری طرح کرے۔
کہتے ہیں کہ آپ زمانہ مین ابو بکر اسحٰق بخاری کلا باذی صاحب تعریف و تصوف نے وفات پائی جب ان کو ایک قبرستان مین دفن گیا تو ہزاروں سانپ و بچھو اس قبرستان سے نکال کر دوسرے گورستان مین چلے گئے۔جب اس بات کی خبر اپ کو ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ یہ مروی نہیں ہے کہ اپنے دوسروں پر ڈال دی جائے۔جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھ کو اسی گورستان میں جس میں ہزاروں سانپ و بچھو آگئے ہیں دفن کرنا اور عجائب دیکھنا،پس جب اپ فوت ہوئے تو اپ کو اسی گورستان میں دفن کیا گیا،بمہجر د آپ نے مدفون ہونے کے ہزار ہا سانپ و کژدم وہاں سے نکل گئے اور راستہ میں مر گئے۔آپ کے تذکرہ میں علی قاری نے طبقات حنفیہ میں نقل کیا ہے کہ اپ کے والد نے آپ سے اور آپ کے بھائی سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر تم مبسوط کو یاد کرلو تو میں تم کو ایک ہزار دینار انوام دوں گا۔پس جب آپ نے اس کو یاد کر لیا توآپ کے باپ نے کہا کہ اب تم کو مبسوط کا حفظ کرنا ہی کافی ہے۔اس پر اپ خفا ہو کر گھر سے نکل گئے اور بلا د فرغانہ میں آکر کیا دیکھتے ہیں کہ قاضیخاں منبر پر جلوس فرما ہیں اور ان کے رو برو علماء و فضلاء بیٹھے ہوئے جو کچھ وہ بتاتے ہیں،لکھ رہے،اس اثناء مین قاضی خان نے مابین امام ابو یوسف اور امام محمد کے ایک اختلافی مسئلہ بیان کیا اور اس میں امام محمد کے قول کو امام ابو یوسف اور امام ابو یوسف کے قول کو امام محمد کا کردیا آپ نے یہ خیال دیکھ کر فرمایا کہ ان اقوال کو الٹادو۔قاضی خاں نے کہا کہ اگر نہ الٹائیں تو کچھ مضائفہ نہیں۔آپ نے فرمایا کہ اگر نہ الٹائیں تو امام ابو یوسف کے قول پر یہ اور امام محمد کے قول پر یہ اعتراض وارد ہوتے ہیں،پھر چند مسائل بیان کیے جس پر قاضیخان منبر سے اتر آئے اور کہا کہ یا سیدی! شاید آپ محمد بن فضل کماری ہیں،آپ نے کہا ہاں،اس پر قاضی خاں نے کہا کہ آپ مجھ سے زیادہ اس مجلس کے مستحق ہیں انتہی۔لیکن چونکہ آپ کی وفات ۳۷۱ھ یا ۳۸۱ھ میں ہوئی اور قاضی خان ۵۹۲ھ میں فوت ہوئے اس لیے آپ کی طرف اس قصہ کو منسوب کرنا صریح غلطی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ شاید قضیخان کی ملاقات آپ کی اولاد میں سے ابو بکر محمد بن ابراہیم احمد بن فضل کماری سے جو بڑے عالم فاضل اور بخاراکے خطیب تھے اور ۵۴۹ھ میں فوت ہوئے تھے،ہوئی ہوگی۔کماری بخارا کے علاقہ میں ایک قصبہ کا نام ہے جس کی طرف آپ منسوب ہیں،آپ کی اولاد میں سے بہت سے علماء وفضلاء ہوئے ہیں جو فضلی سے مشہور ہوئے جن کا ذکر آگے آئے گا۔’’صدق وصفا‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے ۔
(حدائق الحنفیہ)