صدر ‘‘جمیعۃ العوام’’۔۔ سودا گران بریلی شریف
ولادت
جانشین ریحان ملت خطیب اعظم، سیاح ایشیا مولانا محمد توصیف رضا قادری رضوی بن قائد اعظم ریحان ملت مولانا ریحان رضا بن مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی بن حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا بن امام احمد رضا فاضل بریلوی پرانا شہر بریلی (ننہال میں) میں ۱۵؍جون ۱۹۶۲ء کو پیداہوئے اور قال اللہ وقال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صدا میں پرورش ہوئی۔ کچھ ایام وہاں رہ کر محلہ سودا گران آستانہ مقدسہ رضویہ آگئے۔ اور یہیں مستقل مستقر قرار ہوا۔
تعلیم وتربیت
مولانا توصیف رضا نے عہد طفلی کا زمانہ والدہ ماجدہ اور والد بزرگوار مولانا ریحان رضا بریلوی کے آغوش میں گزارا۔۔ خاندان رضا کا علم و فضل، شوکتو جلال و جمال اور دینداری مشہور ہے۔ چودہویں صدی ہجری سےآج تک اسی خاندان کے علم کے چرچےہورہے ہین۔ ماں متقیہ، باپ نبیرۂ اعلیٰ حضرت ریحان ملت اس لیے ان کی زندگی کا اثر ہونہار فرزند پر بھی ظاہر وباہر ہوا۔
جب کچھ شعور بیدار ہوا تو والد ماجد بزرگوار نے رسم بسم اللہ خوانی ادا کرائی چند اسباق خود پڑھاکر دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں داخلہ کرادیا۔ درجۂ حقط کے مدرس حافظ عابد حسین رضوی نے مولانا توصیف رضا کی صلاحیت دیکھ کر بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ تعلیم دی۔ والد بزرگوار کی رائے کےمطابق ختم قرآن ناظرہ کے بعد درس نظامیہ کی جانب مائل ہوگئے۔ مولانا توصیف رضا نے اپنی ذہانت سے تھوڑے عرصے میں آمدنامہ، میزان الصرف اور نحو میر وغیرہ پڑھ لیں۔ والد گرامی کےحکم پر مدرسہ حشمت الرضا پیلی بھیت میں داخل ہوگئے۔ حشمت الرضا میں مولانا توصیف رضا نےدرس نظامیہ کی مختلف کتابیں خاص طور سےفن تجوید وقرأت مکمل کیا۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے مولانا توصیف رضا دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف تشریف لےگئے بعدہٗ دارالعلوم غریب نواز ال آباد اور مدرسہ اسلامیعربیی اندر کوٹ میرٹھ کا بھی سفر کیا۔ ہندوستان کےمشاہیر اجل علماء فضلاء سے اکتساب فیض کیا۔
فراغت از علم
حضرت مولانا توصیف رضائے دورۂ حدیث شریف کےلیے دارالعلوم منظر اسلام کہنہ مشق اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ اور ۱۹۸۰ء کو منظر اسلام بریلی کے جلسہ دستار فضیلت کے اہم موقع پر علماء ومشائخ کی موجودگی میں فضیلت دستار نوازے گئے۔
اساتذۂکرام
۱۔ ریحان ملت حضرت مولانا محمد ریحان رضا قادری رحمانی میاں بریلوی
۲۔ اما النحو حضرت مولانا غلام جیلانی میرٹھی
۳۔ مناظر اسلام مولانا مفتی محمد مشاہد رضا رضوی حشمتی پیلی بھیتی
۴۔ استاذ الاساتذہ مولانا بدرالدین احمد رضوی گھور پوری
۵۔ شیخ المحدثین مولانا سید محمد عارف رضوی نانپاروی
۶۔ شیخ المعقولات مولانامحمدنعیم اللہ خاں رضوی بستوی
۷۔ منبع علم مولانا بہاء المصطفیٰ رضوی امجدی اعظمی
۸۔ حضرت مولانا عبدالخالق رضوی پور نوی
۹۔ حضرت مولانا خلیل الرحمٰن رضوی
۱۰۔ حضرت مولانا عبدالغفور رضوی بہاری
۱۱۔ حضرتمولانا انعام اللہ رضوی بریلوی
۱۲۔ فقیہہ الملت مفتی جلال الدین احمد امجدی
وعظ تبلیغ اور سر گرمیاں
جس طریقہ سے علماء اہلسنت نے تحریر وتصنیف کے ذریعہ قوم کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا ہے۔ قوم کی اصلاح وبہودی، تعلیم وتربیت، تہذیب وتمدن الشو نما اور اخلاْ سدھارنے کا اسلام کے اصول وضوابط پر لانے کا وعظ وتقریر کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ خاندان رضا کو جہاں دیگر علوم و فنون میں کمال حاصل ہے وہیں پندرہ نصاح اور تقریر میں بھی نہایت درجہ ملکہ حاصل ہے مولانا توصیف رضا کے والد ریحان ملت ایک شیریں مقال مقرر، جاد و بیان خطیب، فصیح البیان ادیب تھے۔ انہی کے درخہ سے آپ کو فن تقریر گوئی حاصل ہوئی۔ جس میں آپ کو ید طولیٰ حاصل ہے۔
مولانا توصیف رضا کو زمانہ طالب علمی سے تقریر گوئی کا شوق ہے۔ بچپن کی عمدہ اور نفسیں تقریروں نے آپ کو بامِ عروج تک پہنچادیا۔ اور اسی شہرہ نے ۱۹۷۵ء میں ایک ایسا منصب عظیم بخشا جو توقع کے خلاف تھا۔ وہ یہ کہ ۱۹۷۵ء عرس حشمتی پیلی بھیت کے معقع پر انتظامیہ کمیٹی کے مدعو مقررین کسی وجہ سے نہ آسکے۔ اس وقت آپ کو جبراً اسٹیچ پر لے جایا گیا اتنے بڑے مجمع عام میں ابھی تک مولانا توصیف رضا نے خطاب نہیں فرمایا تھا۔ آج یہ پہلا اتفاق تھا۔ قلب اولاً گھبرانے لگا۔ مگر کچھ وقفے کےلیے اپنے مرشد برحق کی بارگاہم یں التجا پیش کی۔ فیضان مفتی اعظم نے اپ کے ان تفکرات کو دل و دماغ سے قطعی طور پر دفع فرمادیا۔ اناؤنسر نے عمدہ انداز میں اعلان کیا۔ مولانا توسیف رضا مائک پر تشریف لے گئے۔ خطبہ مسنونہ کے بعد ایسے پر زور الفاظ میں خطاب فرمایا، جس سے سامعین رشک کرنے لگے۔ اس تقریر سے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اچھے اثرا مرتب ہئے۔
بیعت وخلافت
حضرت مولانا توصیف رضا کو ایک جلسہ میں تقریری کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔ جو خانقاہ رضویہ کی چھت پر ہنے والا تھا۔ جس کی صدارت تاجدار اہلسنت حضرت مفتی اعظم کے ذمہ تھی۔ آپ نے ابھی تک حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے سامنے کبھی تقریر نہیں کی تھی۔ مفتی اعظم کی وہ ذات جس کے سامنے بڑے بڑے جید عالم، کہنہ مشق مقرر، سحر بیان خطیب سر تسلیم خرم کرتے نظر آتے۔ اگر کسی نے دوران تقریر شرعی غلطی کی فوراً مفتی اعظم گرفت فرماتےاور اس سے توبہ کرواتے۔
وہ وقت آہی گیا کہ مولانا توصیف رضا نے حضور مفتی اعظم کے سامنے ڈیڑھ گھنٹہ خطاب فرمایا۔ تقریر کے اختتام پر حجور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی نے جمیع سلاسل سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ، رضویہ میں اجازت وخلافت عطا فرمائی۔ مولانا توصیف رضا بچپن ہی سے مفتی اعظم کے دست پر بیعت ہوچکے تھے۔ مزید براں م ندرجہ ذیل مشائخ عظام سے اجازت حاصل ہے۔
۱۔ قطب مدینہ حضرت مولانا مفتی ضیاء الدین احمد رضوی المدنی علیہ الرحمہ
۲۔ برہان الملت مولانا مفتی عبدالباقی برہان الحق رضوی جبلپوری علیہ الرحمۃ
۳۔ احسن العلماء مولانا الشاہ سید مصطفیٰ حیدر حسن میاں برکاتی مدظلہٗ سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ ماہرہ شریف
۴۔ ریحان ملت قائد اعظم مولانا ریحان رضا قادری عرف رحمانی میاں بریلوی
کانپور روانگی
خطیب اعظم مولانا توصیف رضا نے جب میدان خطابت میں قدیم رکھا تو تمام لوگ آپ کی تقریر کے گرویدہ ہوگئے۔ میدان خطابت آپ کا واحد میدان ہے۔ اس کے نتیجہ میں اہل کانپور کی فرمائش پر کانپور تشریف لےگئے۔ وہاں مختلف کانفرنسوں اور جلسوں میں شرکت کی، اور مدارس اسلامیہ کا بھی معائنہ کیا۔ کانپور کے تبلیغی سفر میں مختلف صوبہ جات کا دورہ کیا اور ہر جگہ اپنے زورِ بیان سے لوگوں کےدلوں میں مسلک اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا عشق جگایا۔
یاد رہے کہ مولانا روصیف رضا کا یہ سب سے پہلا تبلیغی سفر تھا۔ اس تبلیغی مساعی جمیلہ سے آپ کی شخصیت میں چار چاند لگ گئے۔
اسفار غیر ممالک
مولانا توصیف رضا کی ساری زندگی سیر و سیاحت میں گزر رہی ہے، تبلیغ اہلسنت والجماعت وعظ، تقریر، رشد وہدایت اور پندو نصاح آپ کا محبوب مشغلہ ہے۔ مولانا توصیف رضانے ۱۹۸۹ء میں پاکستان کا پہلا سفر کیا۔ اس کے بعد اسی سنہ میں سری لنکا کا دورہ کیا، بعدہ سنگا پور، تھائی لینڈ، ملیشیا اور جاپان وغیرہ کا طویل سفر کیا۔
۱۹۸۰ء میں پہلا حج ادا کیا اس کے ساتھ ساتھ ماریشس، ریوعین، شنتل، اور موضبق، کا دورہ کرتے ہوئے واپسی پر پھر دوسرے حج کے فرائض انجام دیئے۔
۱۹۸۴ء میں عمرہ کیا ور سنگا پور تشریف لے گئے۔ تیسرے حج کے دوران عراق، کربلا، کوئیت، دبیئ کا تبلیغی دورہ فرمایا۔
۱۹۸۹ء کے دورہ میں انگلینڈ، ہالینڈ، ناروے، امریکہ، بیل جم، خرمفٹ، سوری نام اور بنگلہ دیش کے سفر کیے۔ انہی ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اپنا ہاتھ مولانا توصیف رضا کے ہاتھ میں دیکر شرف بیعت حاصل کیا اور علماء کرام نے سند خلاف بھی حاصلکی۔ آپ پوری دنیائے سنیت میں ایک عظیم صحافی، فصیح البیان خطیب کے نام سے جانےپہچانے جاتے ہیں۔ مولانا توصیف رضا کئی خوبیوں کےمالک ہیں۔
خدمات دینیہ
مولانا توصیف رضا نے جاپان میں بزم توصیفیہ، پاکستان میں تین مدرسہ، کشمیر میں رضاء العلوم دہلی میں جامعہ نوریہ رحمانیہ، بنگلہ دیش میں سلطانیہ دیوان مسلم یتیم خانہ قائم فرمائے۔اور سارے ادارے روز بروز ترقی پذیر ہیں۔
تہنیت نامہ
۱۴۰۷ھ؍۱۹۸۴ء کو مولانا توصیف رضانے چاٹگام کا سفر کیا۔ اور دینی سر گرمیوں کو تیز کرنےکےلیے جامعہ نعیمیہ طبیہ پومرا انگور بند تشریف لے گئے۔ وہاں پر مریدین و متقدمین نے استقبالیہ نظم پیش کی جس کے چند اشعار یہ ہیں:
نور نظر اعلیٰ حضرت تم کو صدہا مرحبا
مقتدائے اہلسنت تم کو صدہا مرحبا
باغ سنت گونج اٹھی ہے تیرے قدم پاک سے
ہے صدائے بحرو بر تم کو صدہا مرحبا
سرزمین مسلک بنگلہ زندہ بیشک کردیا
خاک پائے والا حضرت تم کو صدہا مرحبا
بس کراے مفضل نعیمی اور گستاخی نہ کر
وصف ہے بالاواعلیٰ شان توصیف مرحبا
مولانا توصیف رضا شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ توصیف تخلص فرماتے ہیں۔
چند خلفاء
۱۔ مولانا ثناء المصطفیٰ رضوی سیتامڑھی
۲۔ حافظ محمد جمیل احمد رضوی جائسی
۳۔ مفتی محمد الیاس رضوی چاٹگام
۴۔ مولانا محمد اسرائیل رضوی نیپالی
۵۔ مولانا محمد حسن امام رضوی بنگالی
۶۔ مولانا محمد ساجد رضوی کشن گنج بہار
۷۔ ماسٹر محمد عابد حسین چکلیا
۸۔ مولانا محمد قاسم رضوی آسام
۹۔ مولانا احمد رضا رجوی پوکھریرا بہار
۱۰۔ مولانا خورشید احمد رضوی حیدرآباد
۱۱۔ مولانا محمد قاسم رضوی سیتا مڑھی
۱۲۔ مولانا محمف اضل رضوی جالرہ
۱۳۔ مولانا عبدالقیوم رضوی کلکتہ
۱۴۔ مولانا محمد فاضل رضوی گنج غربی بریلی شریف [1]
[1] ۔ یہ جملہ کوائف حضرت مولانا توصیف رضا بریلوی نےایک مخصوص مجلس میں بیان فرمائے۔ اس وقت رفیق محترم مولانا جمیل اختر رضوی پور نوی بھی موجود تھے۔ ۲۶؍صفر المظفر ۱۴۱۰ھ؍ ۱۹۹۰ء ۱۲،رضوی غفرلہٗ