پیر طریقت علامہ
مولانا سیّد حمزہ علی قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ
نام: حمزہ علی
تاریخِ ولادت: 10؍ ستمبر 1947ءمطابق 24شوال 1366ھ
مقامِ
ولادت: عظیم آباد (پٹنہ) صوبۂ بہار، انڈیا
نسب:
حضرت علامہ مولانا سیّد حمزہ علی قادری کا نسبی تعلق فاتحِ بہار سیّد ابراہیم ملک بہار
سے ہے، جن کا شجرۂ نسب اوپر جاکر حضور غوث الاعظم سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملتا
ہے،یوں آپ حسنی گیلانی سیّد زادے ہیں ۔
اَلقاب:
آپ کنزالکرامات کے لقب سے مشہور ہوئے، کیوں
کہ لفظ لفظ اور لمحہ لمحہ کرامات کا ظہور ہوتا رہتا تھا۔ بڑے بڑے منکر لوگ آتے اور
لمحے بھر میں پر یقین ہوجاتے ۔
مثلاً
بہترین تاجر۔ کامل رہ نما۔ انمول خطیب۔ مفید ترین مشیر۔ زبردست مصلح۔ انتہائی سخی۔
نایاب دوست ۔ بے مثال متقی ۔ لاجواب عاشق ۔ پردہ پوش مرشِد۔ شفیق ترین باپ۔ متبحر
عالم۔ سراپا عجزو نیاز۔ صاحبِ حکمت
ومعرفت۔ ہر فن مولا۔ اولیاء کا شیدائی۔ اہلِ بیت
کا فدائی۔ اختلافات میں معتدل۔ ماہرِ تطبیق۔
پختہ عقیدہ وعقیدت۔ کلامِ الٰہی کے باطنی معانی پر عبور۔ طائرِ عالمِ محسوسات۔
ہجرت:
پاکستان 14؍ اگست 1947ء کو معرضِ وجود میں آچکا تھا، جس کے 27 دن بعد، 10؍ ستمبر 1947ء کو آپ کی ولادت ہوئی۔ جنوری
1948ء میں، جب آپ کی عمر شریف 4 ماہ
تھی، تو اُس وقت انتہائی خطرناک
حالات میں آپ کے بزرگوں یعنی بڑے ابّا صوفی
بشیرالدین ملک ابراہیمی مرحوم اور چچا بدرالدین ملک ابراہیمی
مرحوم اور آپ کی والدۂ ماجدہ نے
ہندوستان سے پاکستان ہجرت فرمائی۔ اُس وقت آپ اپنی والدۂ ماجدہ کی گود میں
تھے۔
حصولِ علم :
علمِ دین باقاعدہ کسی
مدرسے سے تو حاصل نہیں کیا مگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رسولِ کریم ﷺ کی نگاہِ کرم
اور اولیاء کا فیض آپ کو اتنا ملاکہ علم ِلَدُنِّی کے چشمے جاری ہوئےحتّٰی کہ آپ جس جلسے میں
خطاب کے لیے جاتے تووہاں پہلے سےکی گئی
تلاوتِ قرآنِ مجید پر بغیر تیاری ومطالعہ کے
برجستہ خطاب فرماتے اور تفسیر ِقرآن میں
نایاب موتی عطا فرماتے۔ آپ کی ذاتِ والا
صفات بے شمار کمالات کا مجموعہ رہی ہے۔
نسبت ارادت:
حضرت علامہ سیّد حمزہ علی قادری اپنی
بیعت کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:
’’والدین کریمین ہی کی عنایت
سے مجھے حضور سیّدی مرشِدی سیّداحمد شاہجہانپوری قادری المجددی معصومی زبیری جمالی
خلیفۂ حضور شاہ جی میاں (پیلی بھیت شریف) سے نسبتِ ارادت حاصل ہوئی جو کہ حضرت
قبلۂ عالم مولانا الحاج میاں عبدالرشید خلف الرشید حضور قبلہ عبدالقدیر
(پیلی بھیت شریف) کی عطا کردہ اجازت سے مستحکم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے میاں
عبدالاحد صاحب کو بھی سلامت رکھے جو کہ سلسلۂ عالیہ قادریہ قدیریہ بصریہ شیریہ کی
ہمہ جہت خدمات انجام دے رہے ہیں اور غالبا وہی میری اصلاح اور دستار بندی کے محرک
ہوئے۔ یوں تو میں تمام علمائے اہلِ سنّت ، مشائخ عظام، اولیائے کرام اور عوام اہل سنّت کا ممنون ہوں
جن کی تقریر یا تحریر سے، ملاقات، زیارت سے مجھے فیض پہنچا۔ اُن کے اسمائے گرامی
میرے روح و قلب پر منقش ہیں جن چراغوں کی روشنی
میں راستہ چلنا آسان ہوا۔ ‘‘
سیرت و کردار:
آپ جس طرح کی بھی محفل میں ہوتے غالب ہوتے
اور رہ نمائی ہی کرتے نظر آتے ، چاہے وہ مجمع اہلِ اسلام
کا ہوتا یا اہلِ کتاب کا۔۔۔ہندوپنڈت، زمانے کے
فلاسفہ اور نجومی قدموں میں گرتے دیکھے گئے۔ مختلف مکاتبِ فکر کے علما بھی نہ صرف
آپ کا بہت ادب کرتے بلکہ آپ کی رائے پر اعتماد کرتے نظر آتے۔ مختلف ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں آپ مدعو رہتے اور بڑی دل نشیں گفتگو فرماتے۔ آپ خطاب بھی علم و حکمت سے پُر
فرماتے، روزانہ بلاناغہ چار سے پانچ خطاب
کرنا آپ کا معمول رہا۔ کشف وکرامات اتنے مشہور رہے کہ جلسوں میں حاضرین کے دل میں
جو خیال و سوال پیدا ہوتا، اگلے ہی لمحے آپ کی زبان سےاُس کا جواب مل جاتا۔ دعویٰ کرنے سے بہت نفرت فرماتے
تھے۔ ہمیشہ اپنے بزرگوں ہی کی برکات وکرامات سناتے، ساری حیاتِ طیّبہ خصوصاً پانچ
باتوں کی زیادہ تاکید کرتے رہے اور تقریباًہر جلسے میں یہ ضرور دہراتے تھے۔
·
اولیاء کی محبت
·
جماعت سے نماز
·
سخاوت
·
اچھا لب ولہجہ
·
اچھوں کی محفل
آپ کے پیار بھرے لہجے، سچے جذبۂ بندگی اور
سچے اَخلاق وآداب نے آپ کے لفظوں اور جملوں کو ایسا باکمال کردیا تھا کہ ہزاروں ایسے لوگوں کو ان کلمات سے تعمیرِ
زندگی نصیب ہوئی جو معاشرے کے گرے ہوئے اور ناقابلِ بیان جرموں اور برائیوں میں لتھڑے
ہوئےتھے۔
خصوصاً چھوٹے بچوں پر بہت توجہ فرماتے تھے اور کہا کرتے
تھے:
’’ میری نصیحت کسی بچے نے قبول کرلی تو
میرا یہ پیغام و دعوت پچاس سال آگے تک چلا جائے گا۔‘‘
وصال پُر ملال :
اہلِ سنّت کی عظیم علمی و روحانی شخصیت پیرِ طریقت
حضرت علامہ سیّد حمزہ علی قادری کا وصال71 سال کی عمر میں بروز بدھ بعد نمازِ عصر مورخہ 6؍ جمادی
الاولیٰ 1439ھ مطابق 24؍ جنوری
2018ء کو کراچی میں ہُوا۔
نماز جنازہ:
آپ کی نمازِ جنازہ بعد نمازِ ظہر دار العلوم
امجدیہ کراچی کے قریب عالمگیر چورنگی پر
آپ کے پیر زادے حضرت علامہ قاضی سیّد عبد الاحد رشیدی قدیری مدّ ظلہ العالی نے پڑھائی۔
تین دن سوگ:
جماعتِ اہلِ سنّت نے آپ کی وفات پر تین دن سوگ کاا علان کیا، جس میں انجمن ضیائے
طیبہ کے بانی، چئیرمین، سرپرستِ اعلیٰ اور دیگر اراکین و عملہ نے بھی شرکت کی
سعادت حاصل کی۔ دعا ہے اللہ پاک حضرت قبلہ کی بخشش و مغفرت فرماکر بلند درجات عطا
فرمائے اور جنّت الفردوس میں ابدی ٹھکانہ بنائے اور اہل خانہ و دیگر لواحقین
مریدین محبین کو صبرِ جمیل اور حضرت قبلہ کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے
کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔
آپ کا مزارِ پُر اَنوار:
پاپوش نگر قبرستان(ناظم آباد، کراچی)میں آپ کے والدین کی قبریں
واقع ہیں، جن کےقرب میں آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی تدفین کی گئی۔
تاج
الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختر رضا خاں بریلوی کے درجِ ذیل شعر آپ پر صادق آتے
ہیں:
چل دیے تم
آنکھ میں اشکوں کا دریا چھوڑ کر
رنج فرقت کا ہر اک سینے میں شعلہ چھوڑ کر
مَوتِ عالِم سے بندھی ہے مَوتِ عالَم بے گماں
روحِ عالَم چل دیا عالَم کو مُردہ چھوڑ کر
