ولادت
باسعادت:
10 ستمبر 1947 کو
انڈیا کے مشہور شہر عظیم آباد (پٹنہ) صوبہ بہار میں پیدا ہوئے۔
پاکستان
14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آچکا تھا ۔ سارے ہندوستان میں خصوصاً عظیم آباد
(پٹنہ) بہار شریف میں فسادات اپنی انتہا کوتھے چاروں طرف آگ اور خون کا دریا بہہ
رہا تھا اور ہمارا خاندان جو فاتح بہار سید ابراہیم ملک بہار رحمۃ اللہ علیہ کی
اولاد اپنی آبائی بہادری اور جرأت اور فن سپہ گری کا امین دیگر مسلمانوں کی حتی
الامکان مدد کرتا ہوا ہجرت کررہا تھا میرے بڑے ابا صوفی بشیر الدین ملک ابراہیمی
مرحوم اور چچا بدرالدین ملک ابراہیمی انگریزوں کے سخت کرفیو کی اندھیری رات جنوری
1948 کو والدہ محترمہ کی گود میں انتہائی خطر ناک حالات میں ہجرت فرمائی۔
شجرہ نسب:
آپ کا نسبی تعلق فاتح بہار سید
ابراہیم ملک بہار رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے، جن کا شجرہ نسب اوپر جاکر شیخ
المشائخ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی المعروف غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے ملتا
ہےیوں آپ حسنی گیلانی سید زادے ہیں ۔
حصول علم :
علم دین باقاعدی کسی مدرسہ سے تو حاصل نہیں
کیا مگر اللہ تعالی کا فضل اور رسول کریم ﷺ کی نگاہ کرم اور اولیاء کا فیض آپ کو
اتنا ملاکہ علم لدنی کے چشمے جاری ہوئے۔
۔حتی کہ آپ علیہ الرحمہ جس جلسے میں خطاب کے لیے جاتے تووہاں پہلے سےکی گئی تلاوت قرآن پر بغیر تیاری ومطالعہ کے
برجستہ خطاب فرماتے اور تفسیر قرآن میں
نایاب موتی عطا فرماتے۔ آپ کی ذات والا صفات بے شمار کمالات کا مجموعہ رہی۔
آپ
جس طرح کی بھی محفل میں ہوتے غالب ہوتے اور رہنمائی ہی کرتے نظر آتے ، چاہے وہ
مجمع اہل اسلام کا تھا یا اہل کتاب کا۔۔۔ہندوپنڈت اور زمانے کے فلاسفی اور نجومی
قدموں میں گرتے دیکھے گئے۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء بھی نہ صرف آپ کا بہت ادب
کرتے بلکہ آپ کی رائے پر اعتماد کرتے نظر آتے۔ مختلف ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں
آپ مدعو رہتے اور خطاب اتنادلنشیں ہوتا کہ روزانہ بلاناغہ چار سے پانچ خطاب کرنا
آپ کا معمول رہا۔ کشف وکرامات اتنے مشہور رہے کہ جلسوں میں حاضرین کے دل میں جو
خیال پیدا ہوتا وہی اگلے لمحے آپ کی زبان سے جواب ہوتا تھا۔ دعوی کرنے سے بہت نفرت
فرماتے تھے۔ ہمیشہ اپنے بزرگوں ہی کی برکات وکرامات سناتے ساری حیات طیبہ خصوصا
پانچ باتوں کی زیادہ تاکید کرتے رہے اور تقریباہر جلسے میں یہ ضرور دہراتے تھے۔
1) اولیاء کی محبت 2)
جماعت سے نماز 3) سخاوت 4) اچھا لب ولہجہ 5) اچھوں کی محفل ، آپ کے پیار بھرے
لہجے، سچے جذبہ ء بندگی اور سچے اخلاق وآداب نے آپ کے لفظوں اور جملوں کو ایسا
باکمال کردیا تھا کہ ہزاروں ایسے لوگوں کو ان کلمات سے تعمیر زندگی نصیب ہوئی جو
معاشرے کے گرے ہوئے اور ناقابل بیان جرموں اور برائیوں میں لٹھڑے ہوئےتھے۔ خصوصا
چھوٹے بچوں پر بہت توجہ فرماتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میری نصیحت کسی بچے نے
قبول کرلی تو میرا یہ پیغام و دعوت پچاس سال آگے تک چلا جائے گا۔
القابات:
آپ کنزالکرامات کے لقب سے مشہور ہوئے،
کیونکہ لفظ لفظ اور لمحہ لمحہ کرامات کا ظہور ہوتا رہتا تھا۔ بڑے بڑے منکر لوگ آتے
اور لمحے بھر میں پر یقین ہوجاتے ۔
مثلا
بہترین تاجر۔ کامل رہنما۔ انمول خطیب۔ مفید ترین مشیر۔ زبردست مصلح۔ انتہائی سخی۔
نایاب دوست ۔ بے مثال متقی ۔ لاجواب عاشق ۔ پردو پوش مرشد۔ شفیق ترین باپ۔ متبحر
عالم۔ سراپا عجزو نیاز۔ صاحب حکمت ومعرفت۔ ہر فن مولا۔ اولیاء کا شیدائی۔اہلبیت کا
فدائی۔ اختلافات میں معتدل۔ ماہر تطبیق۔ پختہ عقیدہ وعقیدت۔ کلام الہی کے باطنی
معانی پر عبور۔ عالم محسوسات کے طائر۔
نسبت
ارادت:
والدین کریمین ہی کی عنایت سے مجھے
حضور سیدی مرشدی سیداحمد شاہجہانپوری قادری المجددی معصومی، زبیری جمالی خلیفہ
حضور شاہ جی میاں رحمۃ اللہ علیہ (پیلی بھیت شریف) سے نسبت ارادت حاصل ہوئی۔ جو کہ
حضرت قبلہ عالم مولانا الحاج میاں عبدالرشید خلف الرشید حضور قبلہ عبدالقدیر رحمۃ
اللہ علیہ (پیلی بھیت شریف) کی عطا کردہ اجازت سے مستحکم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے
میاں عبدالاحد صاحب کو بھی سلامت رکھے جو کہ سلسلہ عالیہ قادریہ قدیریہ بصریہ
شیریہ کی ہمہ جہت خدمات انجام دے رہے ہیں اور غالبا وہی میری اصلاح اور دستار بندی
کے محرک ہوئے۔ یوں تو میں تمام علمائے اہل سنت ، مشائخ عظام، اولیائے کرام اور
عوام اہل سنت کا ممنون ہون جن کی تقریر یا تحریر سے، ملاقات زیارت سے مجھے فیض
پہنچا ان کے اسمائے گرامی میرے روح و قلب پر منقش ہیں جن چراغوں کی روشنی میں راستہ چلنا آسان ہوا۔
وصال
باکمال :
طویل
علالت کے بعد اہلسنّت کی عظیم
علمی و روحانی شخصیت پیر طریقت حضرت علامہ مولانا سید حمزہ علی قادری رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ بروز بدھ بعد نمازِ عصر مورخہ 06 جمادی الاولیٰ 1439 ہجری بمطابق 24
جنوری 2018ء اس دارِ فانی سے انتقال فرماگئے۔
نماز
جنازہ:
حضرت
کی نمازِ جنازہ بعد نمازِ ظہر دار العلوم امجدیہ کے قریب عالمگیر چورنگی پر آپ کے
پیر زادے حضرت علامہ قاضی سید عبد الاحد رشیدی قدیری صاحب زید مجدہ نے پڑھائی،
جس میں انجمن ضیائے طیبہ کے
بانی، چئیرمین، سرپرستِ اعلیٰ اور دیگر اراکین و عملہ نے بھی شرکت کی سعادت حاصل
کی۔ دعا ہے اللہ پاک حضرت قبلہ کی بخشش و مغفرت فرماکر بلند درجات عطا فرمائے اور
جنت الفردوس میں ابدی ٹھکانہ بنائے اور اہل خانہ و دیگر لواحقین مریدین محبین کو
صبر جمیل اور حضرت قبلہ کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔
آپ
کا مزار پر انوار:
پاپوش
نگر قبرستان ناظم آباد کراچی میں مرجع
خلائق ہے آپ کے والدین کریمین کے مزارات بھی وہیں موجود ہیں، جس کی وجہ سے آپ نےبھی
اپنےلیے وہیں آرام گاہ پسند فرمائی۔
چل
دیے تم آنکھ میں اشکوں کا دریا چھوڑ کر
رنج فرقت کا ہر اک سینہ میں شعلہ چھوڑ کر
موت عالِم سے بندھی ہے موت عالَم بے گماں
روح عالَم چل دیا عالَم کو مردہ چھوڑ کر
(از: تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختر
رضا خان بریلوی مد ظلہ العالی)